فضائل عشرہ ذی الحجہ اور اس میں کرنے کے کام بقلم :عمران محمدی عفا اللہ عنہ

0
135
فضائل عشرہ ذی الحجہ اور اس میں کرنے کے کام بقلم :عمران محمدی عفا اللہ عنہ #Baaghi

فضائل عشرہ ذی الحجہ اور اس میں کرنے کے کام

بقلم :عمران محمدی عفا اللہ عنہ
=============

عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت

ارشاد باری تعالیٰ ہے
وَالْفَجْرِ
قسم ہے فجر کی !
الفجر : 1
وَلَيَالٍ عَشْرٍ
اور دس راتوں کی !
الفجر : 2

اللہ تعالیٰ جن دس راتوں کی قسم اٹھا رہے ہیں
بہت سے مفسرین نے اس (’’ وَ لَيَالٍ عَشْرٍ ‘‘) سے ذوالحجہ کی پہلی دس راتیں مراد لی ہیں۔

ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:
"یہی تفسیر صحیح ہے”
تفسير ابن كثير: (8/413)

اور کسی بھی چیز کی قسم اٹھانا اسکی اہمیت، اور اسکے عظیم فوائد کی دلیل ہے

دنیا کے ایام میں سب سے افضل دن

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
«ﺃﻓﻀﻞ ﺃﻳﺎﻡ اﻟﺪﻧﻴﺎ ﺃﻳﺎﻡ اﻟﻌﺸﺮ» .
دنیا کے ایام میں سب سے افضل دن( ذوالحجہ کے) دس دن ہیں
(ﺻﺤﻴﺢ) …
صحیح الجامع الصغير 1133 –

تنبیہ
رمضان کے آخری عشرہ اور عشرہ ذی الحجہ میں تقابلی طور پر علماء اس طرح بیان کرتے ہیں کہ عشرہ رمضان کی راتیں افضل ہیں کیونکہ ان میں لیلة القدر آتی ہے اور عشرہ ذی الحجہ کے دن افضل ہیں۔

امام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں
ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن رمضان کے آخری دس دنوں سے افضل ہیں اور رمضان کے آخری عشرہ کی راتیں ذوالحجہ کی دس راتوں سے افضل ہیں۔
حافظ ابن قیم بیان کرتے ہیں کہ جب فاضل اور سمجھدار شخص اس پر غوروخوض کرے گا تو وہ اسے شافی و کافی پائے گا کیونکہ ذوالحجہ کے دس دنوں کے علاوہ ایام کے اعمال اللہ تعالی کو دس ذوالحجہ کے اعمال سے زیادہ محبوب نہیں اور ان ایام میں یومِ عرفہ،یوم نحر اور یوم ترویہ بھی ہیں(جو خاص فضیلت کے حامل ہیں)اور رمضان کی آخری دس راتیں شب بیداری کی راتیں ہیں جن میں رسول اللہﷺرات بھر عبادت کیا کرتے تھے اور ان راتوں میں شبِ قدر بھی۔چنانچہ جو شخص اس تفصیل کے بغیر جواب دے گا اس کےلئے ممکن نہیں کہ وہ صحیح دلیل پیش کر سکے۔(مجموعہ فتاوی ابن تیمیہ:25؍287)

عشرہ ذی الحجہ میں آنے والے عرفہ کے دن کی خاص فضیلت

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا:بلاشبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” مَا مِنْ يَوْمٍ أَكْثَرَ مِنْ أَنْ يُعْتِقَ اللهُ فِيهِ عَبْدًا مِنَ النَّارِ، مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ، وَإِنَّهُ لَيَدْنُو، ثُمَّ يُبَاهِي بِهِمِ الْمَلَائِكَةَ، فَيَقُولُ: مَا أَرَادَ هَؤُلَاءِ؟ ”
"کوئی دن نہیں جس میں اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن سے بڑھ کر بندوں کو آگ سے آزاد فرماتا ہو،وہ(اپنے بندوں کے) قریب ہوتا ہے۔ اور فرشتوں کے سامنے ان لوگوں کی بناء پر فخر کرتا ہے اور پوچھتا ہے:یہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟”
مسلم 3288

ایک یہودی نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ
يَا أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ، آيَةٌ فِي كِتَابِكُمْ تَقْرَءُونَهَا، لَوْ عَلَيْنَا مَعْشَرَ اليَهُودِ نَزَلَتْ، لاَتَّخَذْنَا ذَلِكَ اليَوْمَ عِيدًا.

اے امیرالمومنین! تمھاری کتاب ( قرآن ) میں ایک آیت ہے جسے تم پڑھتے ہو۔ اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس ( کے نزول کے ) دن کو یوم عید بنا لیتے

قَالَ: أَيُّ آيَةٍ؟
آپ نے پوچھا وہ کون سی آیت ہے؟

قَالَ: {اليَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا} [المائدة: 3]

اس نے جواب دیا ( سورہ مائدہ کی یہ آیت کہ ) “ آج میں نے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور تمہارے لیے دین اسلام پسند کیا

قَالَ عُمَرُ: «قَدْ عَرَفْنَا ذَلِكَ اليَوْمَ، وَالمَكَانَ الَّذِي نَزَلَتْ فِيهِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ قَائِمٌ بِعَرَفَةَ يَوْمَ جُمُعَةٍ»
” حضرت عمر نے فرمایا کہ ہم اس دن اور اس مقام کو ( خوب ) جانتے ہیں جب یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ( اس وقت ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات میں جمعہ کے دن کھڑے ہوئے تھے۔
بخاري 45

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جواب کا مطلب یہ تھا کہ جمعہ کا دن اور عرفہ کا دن ہمارے ہاں عید ہی مانا جاتا ہے اس لیے ہم بھی اس مبارک دن میں اس آیت کے نزول پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں، پھر عرفہ کے بعد والا دن عیدالاضحی ہے، اس لیے جس قدرخوشی اور مسرت ہم کو ان دنوں میں ہوتی ہے اس کا تم لوگ اندازہ اس لیے نہیں کرسکتے کہ تمہارے ہاں عید کا دن کھیل تماشے اور لہوولعب کا دن مانا گیا ہے، اسلام میں ہرعید بہترین روحانی اور ایمانی پیغام لے کر آتی ہے۔

حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق يوم عرفہ عید کا دین

عقبہ بن عامر الجہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
《يوم عرفة ، ويوم النحر وأيام التشريق عيدنا أهلَ الإسلام ،و ھی ایام أكل وشرب》
"یوم عرفہ، قربانی کا دن اور ایام تشریق ہم اہل اسلام کے لیے عید ہیں اور یہ ایام کھانے پینے کے ہیں ۔
(سنن أبي داود : ۲٤۱۹ ، سنن الترمذي: ۷۷۳ ، سنن النسائی: ۳۰۰۷، وسنده حسن)

یہ ایسا دن ہے جس کی اللہ تعالی نے قسم اٹھائ ہے

اورعظیم الشان اورمرتبہ والی ذات قسم بھی عظیم الشان والی چيز کے ساتھ اٹھاتی ہے ، اوریہی وہ یوم المشہود ہے جو اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں کہا ہے :

وشاهد ومشهود البروج ( 3 ) حاضرہونے والے اورحاضرکیے گۓ کی قسم ۔

ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا :

( یوم موعود قیامت کا دن اوریوم مشہود عرفہ کا دن اورشاھد جمعہ کا دن ہے ) اسے امام ترمذي نے روایت کیا اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے حسن قرار دیا ہے ۔

عشرہ ذی الحجہ کے آخری دن یعنی یوم النحر کی عظمت

سیدنا عبداللہ بن قرط ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا
إِنَّ أَعْظَمَ الْأَيَّامِ عِنْدَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَوْمُ النَّحْرِ ثُمَّ يَوْمُ الْقَرِّ قَالَ عِيسَى قَالَ ثَوْرٌ وَهُوَ الْيَوْمُ الثَّانِي

” اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاں سب سے بڑھ کر عظمت والا دن یوم النحر ( دس ذوالحجہ ) اس کے بعد یوم القر ( ۱۱ ذوالحجہ ) ہے ۔ “ عیسیٰ نے ثور سے نقل کیا کہ یہ دوسرا دن ہوتا ہے “
ابو داؤد 1765

یوم القر کی وضاحت کے لیے الصحيح لابن خزيمه میں اس روایت پر یوں تبویب کی گئی ہے
ﺑﺎﺏ ﻓﻀﻞ ﻳﻮﻡ اﻟﻘﺮ ﻭﻫﻮ ﺃﻭﻝ ﺃﻳﺎﻡ اﻟﺘﺸﺮﻳﻖ
یوم القر کی فضیلت کا بیان اور اس سے مراد ایام تشریق کا پہلا دن ہے. 2966

عشرہ ذی الحجہ میں بڑی بڑی عبادات جمع ہوجاتی ہیں

اس عشرہ مبارکہ کا ایک خاص امتیاز ہے جو کسی اور عشرے کو حاصل نہیں ہے وہ یہ کہ اس میں انسان تمام بڑی بڑی عبادات بجا لا سکتا ہے
جیسے روزے، نماز، زکوٰۃ، حج، جہاد، اور ہجرت وغیرہ
بالخصوص حج اور قربانی دو ایسی عبادات ہیں جو اس عشرے میں ہی ادا کی جاتی ہیں

حافظ ابن حجررحمہ اللہ فتح الباری کےاندرفرماتےہیں:
” عشرہ ذی الحجہ کی امتیازی حیثیت کاسبب غالبایہ ہےکہ دیگرایّام کےمقابلےمیں بڑی بڑی عبادتیں مثلا:نماز، روزہ، زکاۃ اورحج ان ایام میں اکٹھی ہوجاتی ہیں”
(فتح الباری (3/136))

عشرہ ذی الحجہ میں نیک اعمال کی باقی دنوں کے نیک اعمال پر فضیلت

سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مَا مِنْ أَيَّامٍ, الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهَا أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ –يَعْنِي: أَيَّامَ الْعَشْرِ-، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؟ قَالَ: وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ, إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ، فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِكَ بِشَيْءٍ.
” اللہ تعالیٰ کو کوئی نیک عمل کسی دن میں اس قدر پسندیدہ نہیں ہے جتنا کہ ان دنوں میں پسندیدہ اور محبوب ہوتا ہے ۔ “ یعنی ذوالحجہ کے پہلے عشرہ میں ۔ صحابہ نے کہا : اے اللہ کے رسول ! کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ” نہیں ، جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں مگر جو کوئی شخص اپنی جان و مال لے کر نکلا ہو اور پھر کچھ واپس نہ لایا ہو ۔ “
ابو داؤد 2438، بخاری 926، ترمذی

عشرہ ذی الحجہ کے اعمال

پہلا عمل

تسبیحات، تحمیدات اور تکبیرات کہنا

اس عشرہ میں اللہ تعالیٰ کی پاکی، بڑائی اور حمد و ثناء بکثرت کرنی چاہئے

اس بارے میں فرمان باری تعالی ہے:

{لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ}

تا کہ وہ اپنے فائدے کی چیزوں کا مشاہد ہ کریں، اور مقررہ دنوں میں اللہ کے نام کا ذکر کریں[الحج : 28]

یہاں ” أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ ” سے مراد عشرہ ذو الحجہ [ماہ ذوالحجہ کے پہلے دس دن] ہیں۔

ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«ﻣﺎ ﻣﻦ ﺃﻳﺎﻡ ﺃﻋﻈﻢ ﻋﻨﺪ اﻟﻠﻪ، ﻭﻻ ﺃﺣﺐ ﺇﻟﻴﻪ اﻟﻌﻤﻞ ﻓﻴﻬﻦ ﻣﻦ ﺃﻳﺎﻡ اﻟﻌﺸﺮ ﻓﺄﻛﺜﺮﻭا ﻓﻴﻬﻦ اﻟﺘﺴﺒﻴﺢ، ﻭاﻟﺘﻜﺒﻴﺮ، ﻭاﻟﺘﻬﻠﻴﻞ»
کوئی دن ایسے نہیں جو اللہ کے ہاں ان دس دنوں سے زیادہ عظمت والے ہوں اور جن میں کیا ہوا نیک عمل ان دس دنوں سے زیادہ محبوب ہو پس تم ان ایام میں اللہ کی تسبیح، تکبیر اور تہلیل بکثرت کرو
المعجم الکبیر للطبرانی 11116
شعب الایمان للبیھقی

مسند احمد کی ایک روایت میں
"والتحميد”
کے الفاظ ہیں
دیکھئیے ((أحمد (2/75)شیخ احمد شاکر نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے، دیکھیے:شرحہ علی المسند رقم (5446))”

تسبیح کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرنا جیسے سبحان اللہ کہنا

تکبیر کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرنا جیسے اللہ اکبر کہنا

تہلیل کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت بیان کرنا جیسے لا الہ الا اللہ کہنا

تحمید کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کرنا جیسے الحمد للہ کہنا

ان چاروں اعمال و کلمات کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
أَحَبُّ الْكَلَامِ إِلَى اللَّهِ أَرْبَعٌ سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ
اللہ تعالیٰ کو یہ چار کلمات
سُبْحَانَ اللَّهِ
وَالْحَمْدُ لِلَّهِ
وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ
وَاللَّهُ أَكْبَرُ
سب سے زیادہ محبوب ہیں
مسلم 2137

مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کے دن اعمال تولنے والے ترازو میں ان کلمات کے بہت زیادہ بھاری ہونے پر تعجب کیا ہے
فرمایا
مَا أَثْقَلَهُنَّ فِي الْمِيزَانِ
یہ (چار) کلمات ترازو میں کس قدر وزنی ہیں
مسند احمد 15235

پورا عشرہ ذی الحجہ تکبیرات کہنا صحابہ کرام کا مبارک عمل ہے

صحيح بخاری میں معلق روایت ہے
وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ وَأَبُو هُرَيْرَةَ يَخْرُجَانِ إِلَى السُّوقِ فِي أَيَّامِ الْعَشْرِ يُكَبِّرَانِ وَيُكَبِّرُ النَّاسُ بِتَكْبِيرِهِمَا

عبداللہ بن عمر اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما ان دس دنوں میں تکبیرات کہتے ہوئے بازار کی طرف نکل جاتے اور لوگ بھی ان کے ساتھ مل کر تکبیرات کہتے

نو ذوالحجہ کی فجر سے بالخصوص تکبیرات کا آغاز :

ابو وائل شقیق بن سلمہ الأسدی رحمہ اللہ (تابعی) بیان کرتے ہیں :

كَانَ عَلِيٌّ يُكَبِّرُ بَعْدَ صَلَاةِ الْفَجْرِ غَدَاةَ عَرَفَةَ، ثُمَّ لَا يَقْطَعُ حَتَّى يُصَلِّيَ الْإِمَامُ مِنْ آخِرِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ، ثُمَّ يُكَبِّرُ بَعْدَ الْعَصْرُ.

"سیدنا علی رضی اللہ عنہ عرفہ کی صبح ، فجر کی نماز کے بعد تکبیرات کہتے، پھر ایام تشريق کے آخری دن (١٣ ذوالحجہ کو) امام کے نماز عصر پڑھانے تک مسلسل کہتے رہتے اور عصر کی نماز کے بعد بھی تکبیرات کہتے.”

( المستدرك للحاكم : ٤٤٠/١ ح: ١١١٣ ، السنن الكبرى للبيهقي : ٤٣٩/٣ ح : ٦٢٧٥ وسنده حسن)

عکرمہ مولی ابن عباس رحمہ اللہ، سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان کرتے ہیں :

أَنَّهُ كَانَ يُكَبِّرُ مِنْ صَلَاةِ الْفَجْرِ يَوْمَ عَرَفَةَ، إِلَى آخِرِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ.

"سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ عرفہ کی نماز فجر سے لیکر ایام تشريق کے آخری دن (١٣ ذوالحجہ) تک تکبیرات کہتے.”

( مصنف ابن أبي شيبة : ٤٨٩/١ ح: ٥٦٤٦ ، المستدرك للحاكم : ٤٤٠/١ ح : ١١١٤ ، السنن الكبرى للبيهقي : ٤٣٩/٣ ح : ٦٢٧٦ وسنده صحیح)

امام عبد الرحمن بن عمرو الأوزاعي رحمہ اللہ سے تکبیرات کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا :
يُكَبَّرُ مِنْ غَدَاةِ عَرَفَةَ إِلَى آخِرِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ كَمَا كَبَّرَ عَلِيٌّ وَعَبْدُ اللہِ.

"عرفہ کی صبح سے لے کر ایام تشريق کے آخر تک تکبیرات کہے جیسا کہ سیدنا علی اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے تھے.”

(المستدرك للحاكم : ٤٤٠/١ ح : ١١١٦ وسنده صحیح)

تکبیرات کے الفاظ

اس بارے میں معاملہ وسیع ہے کیونکہ تکبیرات کہنے کا حکم مطلق ہے

فرمانِ باری تعالی ہے:
(وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ)

تا کہ تم اللہ تعالی کی اسی طرح بڑائی بیان کرو جیسے اس نے تمھیں سکھایا ہے۔
[البقرة:185]

اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے تکبیرات کیلیے الفاظ کی تعیین نہیں فرمائی

الغرض کوئی بھی الفاظ تکبیرات کیلئے آپ کہہ سکتے ہیں کیونکہ تکبیرات کے معین الفاظ مرفوعاً منقول نہیں ہیں۔

البتہ صحابہ کرام سے منقول تکبیرات کے الفاظ پر پابندی کرنا بہتر ہے۔

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے تکبیرات کے یہ الفاظ منقول ہیں

” اَللهُ أَكْبَرُ ، اَللهُ أَكْبَرُ، اَللهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ، وَاللهُ أَكْبَرُ، اَللهُ أَكْبَرُ، وَلِلَّهِ الْحَمْدُ ”

[اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے، اور تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں۔ ]

"مصنف ابن ابی شیبہ” (2/165-168)
"إرواء الغلیل” (3/125)

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے
"الله اكبر كبيرا الله اكبر كبيرا واجل ‘الله اكبر ولله الحمد
اخرجہ ابن ابی شیبۃ فی المصنف واسنادہ صحیح

بیہقی (3/315) نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ الفاظ روایت کیئے ہیں
” اَللهُ أَكْبَرُ ، اَللهُ أَكْبَرُ، اَللهُ أَكْبَرُ، وَلِلَّهِ الْحَمْدُ، اَللهُ أَكْبَرُ وَأَجَلُّ، اَللهُ أَكْبَرُ عَلَى مَا هَدَانَا”
البانی رحمہ اللہ نے اسے "ارواء الغلیل” (3/126) میں صحیح قرار دیا ہے۔

سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے
” الله اكبر الله اكبر كبيرا”
کے الفاظ ثابت ہیں ۔
( ابن ابی شیبہ 2/168 ح5645
السنن الکبری اللبیہقی 3/316)

دوسرا عمل

روزے رکھیں

امہات المؤمنین میں سے ایک کا بیان ہے کہ
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ تِسْعَ ذِي الْحِجَّةِ، وَيَوْمَ عَاشُورَاءَ، وَثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، أَوَّلَ اثْنَيْنِ مِنَ الشَّهْرِ وَالْخَمِيسَ.
رسول اللہ ﷺ ذوالحجہ کے ( پہلے ) نو دن ، عاشورہ محرم ، ہر مہینے میں تین دن اور ہر مہینے کے پہلے سوموار اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے ۔
ابو داؤد 2437

بغرضِ ترغیب روزوں کے چند فضائل درج کر رہا ہوں تاکہ اس عشرہ مبارکہ میں روزے رکھنے کا شوق پیدا ہو جائے

حضرت حزیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا آپ نے فرمایا
فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَمَالِهِ وَجَارِهِ تُكَفِّرُهَا الصَّلَاةُ وَالصِّيَامُ وَالصَّدَقَةُ
’’آدمی کی آزمائش ہوتی ہے اس کے بال بچوں کے بارے میں، اس کے مال میں اور اس کے پڑوسی کے سلسلے میں۔ ان آزمائشوں کا کفارہ نماز روزہ اور صدقہ ہیں۔‘‘

روزے جہنم کی آگ کے سامنے ڈھال ہیں
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

اَلصَّوْمُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ کَجُنَّةِ أَحَدِکُمْ مِنَ الْقِتَالِ.

’’روزہ جہنم کی آگ سے ڈھال ہے جیسے تم میں سے کسی شخص کے پاس لڑائی کی ڈھال ہو۔‘‘
 نسائی، السنن، کتاب الصيام، 2 :  637، رقم :  2230، 2231

ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:

مَنْ صَامَ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بَعَّدَ اللَّهُ وَجْهَهُ عَنْ النَّارِ سَبْعِينَ خَرِيفًا 
کہ جو شخص لوجہ اللہ ایک دن کا روزہ رکھ لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس ایک روزے کی برکت سے اس کے چہرے کو ستر برس مدّت کی مسافت تک آگ سے دور کر دیتا ہے
بخاري

روزے کا اجر اتنا زیادہ ہے کہ اس کا کوئی شمار ہی نہیں ہے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِها إِلَی سَبْعِمِائَةِ ضِعْفٍ إِلَی مَا شَائَ اﷲُ، يَقُوْلُ اﷲُ تَعَالَی :  إِلَّا الصَّوْمُ فَإِنَّهُ لِی، وَأَنَا أَجْزِی بِهِ.

’’آدم کے بیٹے کا نیک عمل دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک آگے جتنا اﷲ چاہے بڑھایا جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے :  روزہ اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا ۔‘

 ابن ماجه، السنن، کتاب الصيام، باب ما جاء فی فضل الصيام، 2 : 305، رقم :  1638

وفی روایۃ
: کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ إِلَّا الصِّيَامَ، فَإِنَّهُ لِي وَأنَا اَجْزِيْ بِهِ.

’’ابن آدم کا ہر عمل اس کے لئے ہے سوائے روزے کے۔ پس یہ (روزہ) میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔‘‘

 بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، باب هل يقول انی صائم اذا شتم، 2 : 673، رقم : 1805.۔

عرفہ کا روزہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ، أَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ، وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ،
عرفہ کے دن کے دن روزہ رکھنے سے مجھے اللہ سے امید ہے کہ وہ گزشتہ اور آئندہ دو سالوں کے گناہ معاف فرمادے گا
(صحیح مسلم ،الصیام ، الترمذي، الصوم، باب ما جاء في فضل الصوم يوم عرفة، ح :۷۶۹)

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا:بلاشبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” مَا مِنْ يَوْمٍ أَكْثَرَ مِنْ أَنْ يُعْتِقَ اللهُ فِيهِ عَبْدًا مِنَ النَّارِ، مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ، وَإِنَّهُ لَيَدْنُو، ثُمَّ يُبَاهِي بِهِمِ الْمَلَائِكَةَ، فَيَقُولُ: مَا أَرَادَ هَؤُلَاءِ؟ ”
"کوئی دن نہیں جس میں اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن سے بڑھ کر بندوں کو آگ سے آزاد فرماتا ہو،وہ(اپنے بندوں کے) قریب ہوتا ہے۔ اور فرشتوں کے سامنے ان لوگوں کی بناء پر فخر کرتا ہے اور پوچھتا ہے:یہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟”
مسلم 3288

ام المؤمنين سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :

«ما من السنة يوم أصومه أحب إلي من أن أصوم يوم عرفة».

"مجھے پورے سال کے دنوں میں سے عرفہ کے دن روزہ رکھنا سب سے زیادہ پسند ہے.”

(مسند ابن الجعد : 512، شعب الایمان للبیہقی : 315/5 ح : 3485، تهذيب الآثار للطبري : 600 وسندہ صحیح)

ضروری بات
یہ روزہ حاجیوں کے لیے نہ رکھنا زیادہ بہتر ہے :
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی والدہ ام فضل لبابہ بنت حارث رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں:
"شك الناس يوم عرفة في صوم النبي صلى الله عليه وسلم، فبعثت إلى النبي صلى الله عليه وسلم بشراب  فشربه.
"لوگ عرفات کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روزے متعلق شک میں تھے (کہ آج آپ کا روزہ ہے یا نہیں) تو میں نے آپ کی طرف ایک مشروب بھیجا تو آپ نے اسے نوش فرما لیا”۔
(صحيح البخاري : ۱۹۵۸ ، ۱۹۸۸ ، صحیح مسلم : ۱۱۲۳)

امام شافعی(٢٠٤ھ)رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
"فأحب صومها إلا أن يكون حاجًّا فأحب له ترك صوم يوم عرفة لأنه حاجٌّ مضَحٍّ مسافرٌ ولترك النبي ﷺ صومه في الحج وليقوى بذلك على الدعاء ، وأفضل الدعاء يوم عرفة”.
"میں (نو ذوالحجہ) کے روزے کو پسند کرتا ہوں سوائے حاجی کے ، اس کے لیے یہ ہے کہ عرفہ کے دن کا روزہ نہ رکھے کیونکہ وہ فریضہ حج ادا کرنے والا، قربانی کرنے والا اور مسافر ہے ( سب سے بڑی بات) نبی کریم ﷺ نے بھی حج میں روزہ نہیں رکھا، تاکہ وہ دعا کے لیے خوب توانا رہے اور عرفہ کے دن کی دعا افضل دعا ہے”۔
(دیکھئے مختصر المزني: ص٥٩، فضائل الأوقات للبيهقي: ص۳٦٤)

عرفہ کا روزہ علاقائی 9تاریخ یا یوم عرفہ کے مطابق

جب سے جدید ٹیکنالوجی اور ذرائع ابلاغ میں تیزی آئی ہے تب سے بعض حلقوں کی جانب سے صوم عرفہ کے متعلق ایک عجیب اشکال کھڑا کیا گیا ہے
وہ یہ کہ روزہ اسی دن رکھا جائے گا جس دن حاجی لوگ میدان عرفات میں جمع ہونگے خواہ اپنے علاقے میں اس دن نو تاریخ ہو یا نہ ہو

جبکہ یہ موقف کئی ایک وجوہات کی بنا پر انتہائی کمزور موقف ہے

(1)اس موقف کے قائل تمام علماءرمضان کے روزوں’دیگر نفلی روزوں اور یوم عاشور اور عیدین وغیرہ کی تعیین میں تو قمری تقسیم کو تسلیم کرتے ہیں لیکن یومِ عرفہ سے دھوکا کھا کر اس کو سعودی تاریخ سے جوڑنے کرنے کی کوشش کرتے ہیں

(2)اگر اس موقف کو تسلیم کر لیا جائے تو تمام اسلامی دنیا سعودی یومِ عرفہ کے مطابق روزہ رکھ ہی نہیں سکتی۔کیونکہ مشرقی ممالک میں سحری سعودی وقت سے دو یا تین گھنٹے قبل شروع ہوتی ہے اور افطاری بھی ان سے پہلے ہوتی ہے۔اسی مناسبت سے تو مشرقی لوگ سعودی تاریخ کے مطابق روزہ رکھ ہی نہیں سکتے اور بعض مغربی ممالک میں قمری تاریخ سعودی تاریخ سے آگے ہے۔چنانچہ مکہ مکرمہ میں جب یومِ عرفہ ہوتا ہے تو وہاں عیدالاضحی منائی جارہی ہوتی ہے تو اس غیرمنصفانہ تقسیم سے تو مغربی ممالک کے مسلمان یوم عرفہ کے روزہ کی فضیلت سے محروم رہیں گے

(3)روئے زمین پر ایسے خطے موجود ہیں کہ سعودیہ کےلحاظ سےیومِ عرفہ کے وقت وہاں رات ہوتی ہے ان کےلئےروزہ رکھنے کا کیا اصول ہوگا؟اگر انہیں عرفہ کے وقت روزہ رکھنے کا پابند کیا جائے تو کیا وہ رات کا روزہ رکھیں گے

(4)اگرچہ آج ہم سائنسی دور سے گزر رہے ہیں لیکن آج سے چند سال قبل معلومات کے یہ ذرائع میسر نہ تھے جن سے سعودیہ میں یومِِ عرفہ کا پتا لگایا جا سکتا اب بھی دیہاتوں اور دراز کے باشندوں کو کیسے پتا چلے گا کہ سعودی میں یومِ عرفہ کب ہے تاکہ وہ اس دن روزے کا اہتمام کریں

ماخوذ از فتاویٰ شیخ عبد الستار الحماد حفظہ اللہ تعالیٰ

یوم عرفہ کے دیگر اعمال

غسل کرنا :

إِنَّ رجلاً سَأَلَ عَلِيًّا رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ الْغُسْلِ ، فَقَالَ : ” اغْتَسِلْ كُلَّ يَوْمٍ إِنْ شِئْتَ "، قَالَ: لَا، بَلِ الْغُسْلُ أَيْ الْمُسْتَحَبُّ قَالَ: ” اِغْتَسِلْ کُلَّ يَوْمِ جُمُعَةٍ ، وَيَوْمِ الْفِطْرِ، وَيَوْمِ النَّحْرِ وَ يَوْمِ عَرَفَةَ ”

” سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے غسل کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا : چاہے ہر روز غسل کرو ، سائل نے پوچھا : نہیں، کونسا غسل مستحب ہے؟ فرمایا : ہر جمعہ، عید الفطر، عید الاضحٰی اور عرفہ کے دن غسل کرو . ”

( مسند مسدد کما فی المطالب لابن حجر : 693 و سندہ صحیح ووثق رجاله البوصیری في إتحاف الخيرة المهره : 265/2 )

یوم عرفہ میں بالخصوص گناہوں سے بچنا

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

إِنَّ هَذَا يَوْمٌ مَنْ مَلَكَ فِيهِ سَمْعَهُ، وَبَصَرَهُ، وَلِسَانَهُ، غُفِرَ لَهُ.

"جو شخص اس (یعنی عرفہ کے) دن اپنے کانوں، آنکھوں اور زبان کو گناہوں سے قابو میں رکھتا ہے اسے بخش دیا جاتا ہے.”

( مسند أحمد : 329/1 ح : 3041، مسند أبي داود الطيالسي : 2857، مسند أبي يعلي : 2441، الزهد للوكيع : 488 وسندہ صحیح و اخطأ من ضعفه، وصححه الهيثمي و البوصيري و المنذري والمناوي و احمد شاكر . و انظر : أخبار مكة للفاكهي و المعجم الكبير للطبراني شعب الایمان للبيهقي و فضل يوم عرفة لابن عساكر و صحیح ابن خزيمة)

تیسرا عمل

جہاد فی سبیل اللہ

اس عشرہ میں جہاد فی سبیل اللہ کا اجر و ثواب اتنا زیادہ بڑھ جاتا ہے کہ عام دنوں میں کیا جانے والا جہاد بھی اس کے برابر نہیں ہوسکتا
اور بالخصوص اگر کوئی خوش قسمت مجاہد ان دنوں شہادت کی سعادت حاصل کرلیتا ہے تو اس کا تو کوئی مقابلہ ہی نہیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

مَا مِنْ أَيَّامٍ, الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهَا أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ –يَعْنِي: أَيَّامَ الْعَشْرِ-، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؟ قَالَ: وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ, إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ، فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِكَ بِشَيْءٍ.
” اللہ تعالیٰ کو کوئی نیک عمل کسی دن میں اس قدر پسندیدہ نہیں ہے جتنا کہ ان دنوں میں پسندیدہ اور محبوب ہوتا ہے ۔ “ یعنی ذوالحجہ کے پہلے عشرہ میں ۔ صحابہ نے کہا : اے اللہ کے رسول ! کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ” نہیں ، جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں مگر جو کوئی شخص اپنی جان و مال لے کر نکلا ہو اور پھر کچھ واپس نہ لایا ہو ۔ “
ابو داؤد 2438، بخاری 926، ترمذی

چوتھا عمل

حج بیت اللہ

سبحان اللہ کیسا عظیم عشرہ ہے کہ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ایسا ہے جو خاص اسی عشرے سے تعلق رکھتا

بغرضِ ترغیب حج و عمرہ کے چند فضائل درج کر رہا ہوں تاکہ اس عشرہ مبارکہ میں حج بیت اللہ کا شوق پیدا ہو جائے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( تَابِعُوْا بَیْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَۃِ فَإِنَّھُمَا یَنْفِیَانِ الْفَقْرَ وَالذُّنُوْبَ کَمَا یَنْفِی الْکِیْرُ خَبَثَ الْحَدِیْدِ وَالذَّھَبِ وَالْفِضَّۃِ )
[ ترمذي، الحج، باب ما جاء في ثواب الحج والعمرۃ : ٨١٠، عن عبد اللّٰہ بن مسعود (رض) ]
” حج اور عمرہ پے در پے کیا کرو، کیونکہ یہ فقر اور گناہوں کو اس طرح دور کرتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے اور سونے چاندی کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔ “

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( اَلْعُمْرَۃُ إِلَی الْعُمْرَۃِ کَفَّارَۃٌ لِمَا بَیْنَھُمَا وَالْحَجُّ الْمَبْرُوْرُ لَیْسَ لَہُ جَزَاءٌ إِِلَّا الْجَنَّۃُ )
[ بخاري، الحج، باب وجوب العمرۃ و فضلھا : ١٧٧٣۔ مسلم : ١٣٤٩ ]
” عمرہ سے لے کر عمرہ، دونوں کے درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مبرور کی جزا جنت کے سوا کچھ نہیں۔ “ گناہوں کی معافی بھی بہت بڑا نفع ہے،

نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
( مَنْ حَجَّ لِلَّہ فَلَمْ یَرْفُثْ وَلَمْ یَفْسُقْ رَجَعَ کَیَوْمِ وَلَدَتْہٗ أُمُّہٗ )
[ بخاري، الحج، باب فضل الحج المبرور : ١٥٢١، عن أبي ہریرہ ۔ مسلم : ١٣٥٠ (رح) ّ ]
” جو شخص حج کرے، نہ کوئی شہوانی فعل کرے اور نہ کوئی نافرمانی کرے تو واپس اس طرح (گناہوں سے پاک ہو کر) جائے گا جس طرح اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔ “

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمرو بن عاص (رض) سے فرمایا تھا :
( أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْإِسْلَامَ یَھْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہٗ وَأَنَّ الْھِجْرَۃَ تَھْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَھَا وَأَنَّ الْحَجَّ یَھْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہٗ )
[ مسلم، الإیمان، باب کون الإسلام یھدم ما قبلہ ۔۔ : ١٢١ ]
” کیا تمہیں یہ بات معلوم نہیں کہ اسلام اپنے سے پہلے (گناہوں) کو گرا دیتا ہے اور یہ کہ ہجرت اپنے سے پہلے (گناہوں) کو گرا دیتی ہے اور یہ کہ حج اپنے سے پہلے (گناہوں) کو گرا دیتا ہے۔ “

پانچواں عمل

عید پڑھنا

اسی عشرہ مبارکہ کے آخری دن یعنی دس ذی الحجہ کو عید کی نماز ادا کرنا ایک اہم شرعی فریضہ ہے

عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:‏‏‏‏
أُمِرْتُ بِيَوْمِ الْأَضْحَى عِيدًا جَعَلَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ، ‏‏‏‏‏‏ .

اضحی کے دن ( دسویں ذی الحجہ کو ) مجھے عید منانے کا حکم دیا گیا ہے جسے اللہ عزوجل نے اس امت کے لیے مقرر و متعین فرمایا ہے
داود 2789

شرعی دلائل اور عید کی اسلام میں اہمیت کے پیش نظر صحیح بات یہی ہے کہ نماز عید فرض ہے

ام عطيہ رضى اللہ تعالى عنہا سے روايت كيا ہے :
أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نُخْرِجَهُنَّ فِي الْفِطْرِ وَالأَضْحَى الْعَوَاتِقَ وَالْحُيَّضَ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ ، فَأَمَّا الْحُيَّضُ فَيَعْتَزِلْنَ الصَّلاةَ وَيَشْهَدْنَ الْخَيْرَ وَدَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ . قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِحْدَانَا لا يَكُونُ لَهَا جِلْبَابٌ . قَالَ : لِتُلْبِسْهَا أُخْتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا

” ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عيد الفطر اور عيد الاضحى ميں ( عيد گاہ كى طرف ) نكلنے كا حكم ديا، اور قريب البلوغ اور حائضہ اور كنوارى عورتوں سب كو، ليكن حائضہ عورتيں نماز سے عليحدہ رہيں، اور وہ خير اور مسلمانوں كے ساتھ دعا ميں شريك ہوں, وہ كہتى ہيں ميں نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: اگر ہم ميں سے كسى ايك كے پاس اوڑھنى نہ ہو تو ؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اسے اس كى بہن اپنى اوڑھنى دے ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 324 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 890 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى ” مجموع الفتاوى” ميں كہتے ہيں:
” دلائل سے جو ميرے نزديك راجح ہوتا ہے وہ يہ كہ نماز عيد فرض عين ہے، اور ہر مرد پر نماز عيد ميں حاضر ہونا واجب ہے، ليكن اگر كسى كے پاس عذر ہو تو پھر نہيں ” اھـ (ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 16 / 217 )

اگر جمعہ اور عیدین ایک دن جمع ہو جائیں تو جمعہ کے متعلق رخصت ہے۔ حالانکہ جمعہ واجب ہے، اگر صلوٰۃ عید فرض نہ ہوتی تو دوسرے فرض کو کیسے ساقط کر سکتی ہے۔ یہ بھی اس امر کی دلیل ہے کہ صلوٰۃ عیدین دیگر نماز پنجگانہ کی طرح فرض عین ہے

چھٹا عمل

قربانی

عشرہ ذی الحجہ کے آخری دن یعنی دس ذی الحجہ کو قربانی کرنا دوسرے تینوں دنوں کی بنسبت ثواب زیادہ ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے:
(( مَاالْعَمَلُ فِیْ اَیَّامٍ اَفْضَلُ مِنْھَا فِیْ ھٰذِہٖ قَالُوْا وَلَا الْجِھَادُ قَالَ وَلَا الْجِھَادُ اِلاَّ رَجُلٌ خَرَجَ یُخَاطِرُ بِنَفْسِہٖ وَمَالِہٖ فَلَمْ یَرْجِعْ بِشَیْئٍ))
[’’ کسی اور دن میں عبادت ان دس دنوں میں عبادت کرنے سے افضل نہیں ہے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ جہاد بھی نہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ جہاد بھی نہیں ۔ہاں وہ شخص جو اپنی جان اور مال کو خطرے میں ڈالتے ہوئے نکلے اور پھر کوئی چیز واپس نہ لوٹے۔‘‘]

قربانی کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے
قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
کہہ دے بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے، جو جہانوں کا رب ہے۔
الأنعام : 162

دوسرے مقام پر ارشاد ہے
وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ فَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُوا وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ
اور ہم نے ہر امت کے لیے ایک قربانی مقرر کی ہے، تاکہ وہ ان پالتو چوپاؤں پر اللہ کا نام ذکر کریں جو اس نے انھیں دیے ہیں۔ سو تمھارا معبود ایک معبود ہے تو اسی کے فرماںبردار ہو جاؤ اور عاجزی کرنے والوں کو خوش خبری سنادے۔
الحج : 34

لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ … : یعنی ہم نے ہر امت کے لیے ایک قربانی مقرر کی ہے، تاکہ وہ ہمارے عطا کردہ پالتو چوپاؤں پر اللہ کا نام لے کر انھیں قربان کریں، نہ کہ کفار کی طرح ہمارے عطا کر دہ چوپاؤں کو بتوں اور غیر اللہ کے آستانوں پر انھیں خوش کرنے کی نیت سے ذبح کریں۔

دیگر مذاہب میں قربانی کا ثبوت

اللہ تعالیٰ کے لیے بطور نیاز قربانی کرنا تمام آسمانی شریعتوں کے نظام عبادت کا لازمی جز رہا ہے
تفسیر ثنائی میں ہے :
’’قرآن مجید کے اس دعویٰ (کہ ہر قوم میں قربانی کا حکم ہے) کا ثبوت آج بھی مذہبی کتب میں ملتا ہے۔ عیسائیوں کی بائبل تو قربانی کے احکام سے بھری پڑی ہے۔ تورات کی دوسری کتاب سفر خروج میں عموماً یہی احکام ہیں۔ تعجب تو یہ ہے کہ ہندوؤں کی مذہبی کتابوں میں بھی اس کا ثبوت ملتا ہے۔ ہندوؤں اور آریوں کے مسلمہ پیشوا منوجی کہتے ہیں : ’’یگیہ (قربانی) کے واسطے اور نوکروں کے کھانے کے واسطے اچھے ہرن اور پرند مارنا چاہیے۔ اگلے زمانے میں رشیوں نے یگیہ کے لیے کھانے کے لائق ہرن اور پکشیوں کو مارا ہے۔ شری برہماجی نے آپ سے آپ یگیہ (قربانی) کے واسطے پشو (حیوانوں) کو پیدا کیا۔ اس سے یگیہ جو قتل ہوتا ہے وہ بدھ نہیں کہلاتا۔ حیوان، پرند، کچھوا وغیرہ، یہ سب یگیہ کے واسطے مارے جانے سے اعلیٰ ذات کو دوسرے جنم میں پاتے ہیں۔‘‘ [ ادہیائے : ۵۔ شلوک : ۲۲، ۲۳، ۳۹، ۴۰ ] گو آج کل کے ہندو یا آریہ ایسے مقامات کی تاویل یا تردید کریں مگر صاف الفاظ کے ہوتے ہوئے ان کی تاویل کون سنتا ہے۔ اس جگہ ہم نے صرف یہ دکھانا تھا کہ قرآن شریف نے جو دعویٰ کیا ہے وہ بحمد اللہ اپنا ثبوت رکھتا ہے، باقی قربانی کی علت اور وجہ کے لیے ہماری کتب مباحثہ، حق پر کاش، ترک اسلام وغیرہ ملاحظہ ہوں۔‘‘
بحوالہ تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ

اسلام میں بھی یہ بطور عبادت مقرر کی گئی ہے، اس میں حاجی، غیر حاجی کی کوئی قید نہیں ہے۔ البتہ مکہ میں حج یا عمرہ پر کی جانے والی قربانی کو ہدی اور دوسرے مقامات پر کی جانے والی قربانی کو اضحیہ کہا جاتا ہے۔

انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
[ ضَحَّی النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ فَرَأَيْتُهُ وَاضِعًا قَدَمَهُ عَلٰی صِفَاحِهِمَا يُسَمِّيْ وَيُكَبِّرُ فَذَبَحَهُمَا بِيَدِهٖ]
[بخاري، الأضاحی، باب من ذبح الأضاحي بیدہ : ۵۵۵۸۔ مسلم : ۱۹۶۶ ]
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگوں والے دو چتکبرے مینڈھے قربانی کیے، میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پہلوؤں پر اپنا پاؤں رکھا اور ’’ بِسْمِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ أَكْبَرُ ‘‘ پڑھ کر ان دونوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا۔‘‘

ساتواں عمل

قربانی کی نیت رکھنے والا عشرہ ذی الحجہ میں حجامت وغیرہ نہ کروائے

قربانی کا ارادہ رکھنے والا شخص جب ذوالحجہ کا چانددیکھ لے یا یہ خبر عام ہو جائے کہ چاند نظر آگیا ہے تو اس رات سے لے کر اپنے جا نور کی قربانی کر لینے تک اپنے جسم کے کسی حصے سے کوئی بال یا ناخن نہ کاٹے کیونکہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا رَأَيْتُمْ هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ، وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ، فَلْيُمْسِكْ عَنْ شَعْرِهِ وَأَظْفَارِهِ»
(صحیح مسلم، الأضاحي، باب نهى من دخل عليه عشر ذي الحجة وهو يريد التضحية أن يأخذ من شعره…، ح:۱۹۷۷)
"جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھ لو اور تم میں سے کوئی شخص قربانی کا ارادہ رکھے تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔

یہ پابندی قربانی کرنے تک ہے
صحیح مسلم اور سنن ابو داود میں یہ الفاظ بھی مروی ہیں:
(( فَلاَ یَاْخُذَنَّ مِنْ شَعْرِہٖ وَ لاَ مِنْ اَظْفَارِہٖ شَیْئًا حَتّٰی یُضَحِّيَ ))
’’وہ اپنے جانور کو ذبح کرلینے تک اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔‘‘

المستدرک على الصحيحين میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا قول ہے
"ﺇﺫا ﺩﺧﻞ ﻋﺸﺮ ﺫﻱ اﻟﺤﺠﺔ ﻓﻼ ﺗﺄﺧﺬﻥ ﻣﻦ ﺷﻌﺮﻙ ﻭﻻ ﻣﻦ ﺃﻇﻔﺎﺭﻙ ﺣﺘﻰ ﺗﺬﺑﺢ ﺃﺿﺤﻴﺘﻚ”
یعنی یہ ناخنوں اور بالوں کی پابندی قربانی کرلینے تک ہے
حدیث نمبر 7519

مؤطا امام مالک میں ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے قربانی کے بعد سر کے بال کٹوائے
ﻓﺤﻠﻖ ﺭﺃﺳﻪ ﺣﻴﻦ ﺫﺑﺢ اﻟﻜﺒﺶ، ﻭﻛﺎﻥ ﻣﺮﻳﻀﺎ ﻟﻢ ﻳﺸﻬﺪ اﻟﻌﻴﺪ ﻣﻊ اﻟﻨﺎﺱ
موطا ﺑﺎﺏ ﻣﺎ ﻳﺴﺘﺤﺐ ﻣﻦ اﻟﻀﺤﺎﻳﺎ

یہ پابندی تمام گھر والوں پر ھے

نافع، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق روایت کرتے ہیں
أﻥ اﺑﻦ ﻋﻤﺮﻣﺮ ﺑﺎﻣﺮﺃﺓ ﺗﺄﺧﺬ ﻣﻦ ﺷﻌﺮ اﺑﻨﻬﺎ ﻓﻲ ﺃﻳﺎﻡ اﻟﻌﺸﺮ
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ان دس دنوں میں ایک عورت کے پاس سے گزرے جو اپنے بیٹے کے بال کاٹ رہی تھی
تو آپ نے فرمایا
"ﻟﻮ ﺃﺧﺮﺗﻴﻪ ﺇﻟﻰ ﻳﻮﻡ اﻟﻨﺤﺮ ﻛﺎﻥ ﺃﺣﺴﻦ”
اگر تو اسے قربانی کے دن تک مؤخر کردیتی تو بہتر ہوتا
مستدرک للحاکم 7520

Leave a reply