سابق جسٹس شوکت صدیقی کا وکالت کا لائسنس قاضی فائزعیسیٰ نے بحال کردکھایا

0
85

اسلام آباد :سابق متنازعہ جج جسٹس شوکت صدیقی کا وکالت کا لائسنس قاضی فائز عیسیٰ نے بحال کردکھایا، اطلاعات کے مطابق سابق متنازعہ جج جسٹس شوکت صدیقی کے وکالت نامے کو بحال کرنے میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عسیٰ نے اہم کردار ادا کیا ہے

ذرائع کے مطابق اس حوالے سے درپردہ کافی عرصے سے کوششیں جاری تھیں ، جس کےلیے سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو مشورہ دیا گیا کہ پہلے وہ سپریم کورٹ کے وکلا کی انرولمنٹ کمیٹی کے سامنے اپنا کیس رکھیں ، پھرہی وکالت کے لائسنس کی بحالی کے لیے کچھ کیا جاسکتا ہے

ادھر اس حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے وکلا کی انرولمنٹ کمیٹی نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا وکالت کا لائسنس بحال کر دیا۔ اب شوکت عزیز صدیقی بطور وکیل اپنی وکالت پھر سے شروع کریں گے۔شوکت صدیقی کا شمار اسلام آباد اور پنڈی کے بہترین فوجداری وکیلوں میں ہوتا ہے

 

 

 

یاد رہے کہ سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اپنی ملازمت کے دوران ریاستی اداروں پر سنگین الزام تراشیاں کی تھیں، شوکت عزیز کی الزام تراشیوں کا براہ راست فائدہ قومی سلامتی کے اداروں کے مخالفین ، بھارت اور ایسے آئی ایس آئی کی مخالف عالمی اسٹیبلشمنٹ کو پہنچ رہا تھا

اس دوران مصدقہ اطلاعات کے بعد جب شوکت عزیز صدیقی اپنے چند محسنوں کو سیاسی فائدہ دینے میں بہت حد تک آگے نکل چکتے تھے اور اداروں پران کی طرف سے سنگین الزامات نے پاک فوج اور آئی ایس آئی کی دشمن عالمی قوتوں کو بہت زیادہ کمک دی اور ان کو پاکستان کے ان اداروں کے خلاف ایک زبان دی توعوامی رد عمل نے شوکت عزیز صدیقی سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا تھا

پھر عوامی ردعمل اور شوکت عزیز صدیقی کے سنگین الزامات اور پھران الزامات کے ثبوت فراہم نہ کرنے کےبعد پاکستان کے صدر عارف علوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارش پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو برطرف کردیاتھا ۔وزارت قانون نے اس سلسلے میں جمعرات کو نوٹی فکیشن جاری کیا تھا ۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف دائر ریفرینس کی سماعت کے بعد انھیں عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی تھی اور صدر کو بھیجے گئے اپنے خط میں لکھا تھا کہ وہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے مرتکب پائے گئےتھے ۔کونسل نے جسٹس صدیقی کو آئین کی دفعہ 209(6) کے تحت برطرف کرنے کی سفارش کی تھی۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے 21 جولائی 2018ء کو راول پنڈی ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے ایک اجتماع میں خطاب کے دوران میں ملک کے حساس اداروں پر عدالتی کام میں مداخلت کا سنگین الزام عاید کیا تھا۔سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس صدیقی کے اس بیان پر از خود کارروائی کی تھی اور ان کے خلاف ریفرینس دائر کیا گیا تھا ۔اس پر انھوں نےبھی اپنا جواب داخل کیا تھا۔

سپریم جوڈیشل کونسل کا یکم اکتوبر کو اجلاس منعقد ہوا تھا اور اس نے جسٹس شوکت صدیقی کے خلاف دائر ریفرینس کا جائزہ لینے کے بعد انھیں تفاق رائے سے عدالتِ عالیہ کی منصفی کے عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی تھی اور اپنی یہ سفارش آج ہی حتمی منظوری کے لیے صدر عارف علوی کو بھیجی تھی۔اس پر صدر نے انھیں برطرف کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔

جس کے بعد سے لیکر اب تک وہ قوتیں جو شوکت عزیز صدیقی سے قومی اداروں کے خلاف ایک کمک لے رہے تھے اس کوشش میں تھے کہ سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا وکالت نامہ بحال کروا کران کے ذریعے میڈیا وار کرکے اپنے مفادات اور اپنے الزامات کو تحفظ دیا جاسکے ، جس پرآج یہ قوتیں واقعی کامیاب ہوگئی ہیں

 

 

 

 

Leave a reply