ایک حالیہ تحقیق میں ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اورخلیج تعاون کونسل(جی سی سی) میں شامل دوسرے ممالک میں بانجھ پن کی شرح میں اضافہ ہورہا ہےاوریہ عالمی اوسط سے دُگنا ہے-
باغی ٹی وی : "العربیہ ڈاٹ نیٹ” کےمطابق ماہرین نےاس ضمن میں طرززندگی کےانتخاب، غذائی عادات اورغیر تشخیص شدہ طبی حالات کے رجحان کی نشان دہی کی ہے اے آر ٹی فرٹیلٹی کلینک نے، جس کے جی سی سی بھر میں طبی مراکزہیں،بانجھ پن کی بڑھتی ہوئی شرح کے پیش نظرپورے خطےمیں گہری تحقیق کی اس کے اعدادوشمار سےپتاچلتا ہے کہ اگرچہ بانجھ پن کے عالمی تخمینے قریباً 15 فصد ہیں لیکن جی سی سی میں اس کی شرح 35 سے 40 فی صد تک زیادہ ہے۔
وکیل نے 22 سال بعد 20 روپے کی قانونی جنگ جیت لی
اے آرٹی فرٹیلٹی دبئی کے کلینک کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹرکیرول کوفلان نے العربیہ کو بتایا کہ ہم اپنے خطے میں بنیادی اورثانوی بانجھ پن میں مسلسل اوپر کی طرف رجحان دیکھ رہے ہیں جس کی وجہ جزوی طورپرثقافتی اور طرز زندگی سے متعلق مسائل ہیں۔ اس کلینک کی تحقیق سے پتاچلا ہے کہ جی سی سی کے مخصوص خطے میں اضافی عوامل موجود ہیں جو بانجھ پن کی شرح میں اضافے میں اہم کردار ادا کرتے ہیںاس تحقیق میں بانجھ جوڑوں کی موجودہ معیاری تشخیص میں خطے کے لیے مخصوص مشاورت اورعلاج کے طریقوں کو شامل کرنے کی ضرورت پر روشنی ڈالی گئی ہے-
ڈاکٹر کوفلان نے بتایا کہ عالمی سطح پر موٹاپے میں اضافہ ہورہا ہے اور مشرق اوسط کے خطے میں تو موٹاپے کی شرح میں انتہائی زیادہ اضافہ ہورہا ہے۔اس کی وجہ سست طرزِزندگی، جسمانی ورزش کی کمی اور زیادہ کیلوری والی غذائیں ہیں۔یہ موٹاپے کی شرح میں عام معاون عوامل ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ بلند باڈی ماس انڈیکس (بی ایم آئی) ہارمون کی بے ضابطگیوں اور بیضوی خرابی کا سبب بن رہا ہے اور نتیجۃً بانجھ پن کاخطرہ بھی بڑھ رہا ہےطبی ماہرین کو لوگوں کے طرزِ زندگی کے عوامل پرغورکرنے کی ضرورت ہے-
ڈاکٹر کوفلان کے نزدیک عالمی سطح پر بانجھ پن کی بہت سی وجوہات ہیں۔ان میں زچگی کی عمر میں اضافہ، پولی سسٹک اووری سینڈروم، انڈومیٹریوسیس، یوٹرن فائبرائیڈز اور اکثر کم رپورٹ کیے جانے والے مردانہ عوامل بھی شامل ہیں۔
بھارت میں جوڑے کے ہاں شادی کے 54 سال بعد بچے کی پیدائش
ان کی رائے میں بعض عوامل ہر ملک میں مختلف ہو سکتے ہیں اور ان کا تعلق آب و ہوا، سماجی، ثقافتی، معاشی یا مذہبی تفاوت سے ہوسکتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ہر معاملے کا انفرادی طور پر جائزہ لیا جائے اور انفرادی تقاضوں کے مطابق مناسب علاج تجویز کیا جائے۔
اے آر ٹی فرٹیلٹی کلینکس گروپ کے میڈیکل ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹرحومن فاطمی کا کہنا تھا کہ بانجھ پن کے بارے میں کافی بات نہیں کی جاتی اور اس معاملے کے بارے میں محدود آگاہی ہے۔
العربیہ کے مطابق ابوظبی کے الریم جزیرے میں واقع برجیل ڈے سرجری سنٹرمیں زچگی اور گائناکالوجی کی ماہر اور شعبہ کی سربراہ ڈاکٹرمونیکاچوہان نے بھی شرح تولید میں کمی دیکھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کچھ حالیہ مطالعات اوراعدادوشمار کے مطابق متحدہ عرب امارات میں شرح تولید میں کمی کا رجحان ہے جس کی وجہ موٹاپے اور طرز زندگی کے انتخاب جیسی مختلف وجوہات ہیں۔ان میں سست طرزِزندگی اورمضر صحت غذائی عادات شامل ہیں مطالعات سے پتاچلتا ہے کہ ان مسائل کی وجہ سے پورے جی سی سی خطے میں بانجھ پن کا مسئلہ بڑھ رہا ہے۔لیکن بانجھ پن کا شکار جوڑوں کی بڑی تعداد اپنے مسائل کا حل چاہتی ہے اور اس ضمن میں رہ نمائی کی خواہاں ہے-
شرح تولید میں کمی کا مسئلہ آفاقی ہے اورعام عوامل کی طرف اشارہ کرتا ہے جیسے شادی اور بچے پیدا کرنے میں تاخیر کے ساتھ ساتھ غیر صحت مند طرز زندگی اورغذائی عادات اپنانا وغیرہ۔
یورپ میں شدید گرمی: جرمنی ،فرانس اور برطانیہ میں الرٹس جاری
اسی کلینک کے گائناکولوجسٹ سرجن ڈاکٹرسندیش کڈے نے واضح کیا کہ بانجھ پن کو مرد اور عورت دونوں کے مسئلے کے طور پر دیکھا جائے۔بانجھ پن کے علاج کے لیے سب سے پہلے مرد اورخواتین کے عوامل کی نشان دہی کی جانی چاہیے۔ مسئلے کی جلد شناخت کے بعد اسے طب,جراحی کے ذریعے درست کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر نے کہا کہ ہارمونل عدم توازن کے لیے طبی انتظام اور یوٹرین، ٹیوبل اور بیضوی مسائل کے لیے سرجیکل مینجمنٹ عام طور پر جوڑوں کو حاملہ ہونے میں مدد کر سکتی ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ پولی سسٹک بیضہ دانی اور انڈومیٹریوسیس کے ارتقائی مسائل کو بھی مناسب دیکھ بھال اور انتظام کی ضرورت ہے۔
العربیہ نے رپورٹ میں بتایا کہ متحدہ عرب امارات کے ایم بی زیڈ سٹی کے برین انٹرنیشنل اسپتال میں زچگی اور گائناکالوجی کی ماہر ڈاکٹرنظوراصدیقی نے بھی تصدیق کی ہےکہ جی سی سی ممالک میں شرح تولیدمیں مجموعی طور پرکمی آئی ہے۔یہ کم شرح بنیادی طور پر معاشی عوامل کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ خواتین کی دیرسے شادیوں کی وجہ سے ہے،خواتین زیادہ تعلیم یافتہ اورکیریئرکے انتخاب کی وجہ سے اپنی شادی ملتوی کررہی ہیں اور پہلی بار دیر سے بچے کو جنم دینے کو ترجیح دیتی ہیں۔ یہ تمام عوامل حمل میں دشواری کا باعث بنتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ شرح تولید کی کم شرح کی دیگر وجوہات میں ماحولیاتی عوامل میں تبدیلی، فاسٹ فوڈ کا بڑھتا ہوااستعمال، ذیابیطس کے بڑھتے ہوئے کیس، موٹاپا اور پولی سسٹک بیضہ دانی شامل ہیں۔