اے غزنوی کے بیٹے تجھے اقصی ڈھونڈھ رہی ہے بقلم: ڈاکٹر ماریہ نقاش

0
67

اے غزنوی کے بیٹے تجھے اقصی ڈھونڈھ رہی ہے
بقلم:ڈاکٹر ماریہ نقاش
مسجد اقصی، مسلمانوں کا قبلہ اول، اسلام کی پہچان، مومنوں کی شان، دین کی عمارت آج بے حال و پریشان بے بسی کی دیوار بنے کھڑی اپنے حال زار پر رو رہی ہے۔۔۔اقصی کے سرخ آنسو مسجد کے صحن میں فلسطینی مسلمانوں کے خون کے قطروں کی صورت میں مسجد کے فرش کو لال کر رہے ہیں۔۔۔فلسطینیوں کے ساتھ مسجد اقصی کا جسم بھی چھلنی ہو رہا ہے۔۔۔۔اسکے درو دیوار بھی زخمی ہو رہے ہیں ۔۔اور زبان حال سے پکار رہے ہیں۔۔۔
اے فلطینی مسلمان میں تمہیں اپنی بانہوں میں کب تک پناہ دے پائوں کی۔۔؟؟ آخر کار میں بھی شہید کر دی جائوں گی۔۔۔
جائو۔۔۔! اٹھو۔۔۔! ہمت کرو۔۔۔! اپنے مسلمان بھائیوں کو مدد کیلئے پکارو۔۔۔کہ جنکا فرض اول انکے بیت المقدس کو محفوظ کرنا ہے۔۔۔
جنکو اپنی تاریخ کو شرمندہ ہونے سے بچانا ہے۔۔۔۔اقصی کی فضاء کو اس داغ سے پاک کرنا ہے کہ امت محمدی اپنی مقدس عبادت گاہ کو یہودیوں سے محفوظ نہ کر سکی ۔۔۔۔ایک ایسی عبادت گاہ جو انکے آبائو اجداد کیلئے شان و شوکت عظمت اور بہادری کا ورثہ ہے۔۔۔جو اسلام کے رکھوالوں کی غیرت ہے۔۔۔جسے القدس فتح کر کے انہوں نے مسلمانوں کے نصیب میں لکھا تھا ۔۔
جائو۔۔۔! کہ تلاش کرو آج بھی عمر جیسے خوددار، مسلمان جوان اسلام موجود ہوں گے۔۔۔جو میری آخری سانس سے پہلے میری زندگی کی ضنمانت بن کر آئیں گے ۔۔۔۔ پکارو ۔۔! کہ شاید کوئ طارق، کوئ قاسم، کوئ محمود غزنوی، کوئ خالد بن ولید آج بھی زندہ ہو۔۔۔جو شجاعت کے گھوڑے پر سوار ہو کر فتح مقدس کا پروانہ لے کر اقصی کے آنگن میں داخل ہو۔۔۔اور اقصی کے آنسوئوں کو بے بسی کے کشکول سے نکال کر نوید خوشی میں بدل دے۔۔۔
_تم ڈھونڈھتی ہو آج بھی اے اقصی_
_ماضی میں جو تھے صاحب ایمان کہاں ہیں_
_مسجد ہی تھی جن کیلئے تسکین دل وجاں_
_اس دور میں یارب وہ مسلمان کہاں ہیں_

تلاشو تو سہی کوئ مسلمان کوئ ایمان والا کوئ نبی کی وراثت سے محبت کرنے والا شاید جاگ جائے۔۔۔۔ مسجد کی زینت نمازیوں کو شہید ہونے سے بچا لے۔۔۔
دیکھو تو سہی میڈیا کی پاور کو آزما کر۔۔۔شاید کوئ میڈیا چینل تمہاری آواز کو مسلمان عوام تک پہنچا دے۔۔۔
شاید کوئ کیمرہ کی آنکھ کسی مسلمانی آنکھ کو نم کرنے اور جذبہ جہاد ابھارنے میں کامیاب ہو جائے۔۔۔۔ اور یہودیوں کی اس سازش کو ناکام کر دیں ۔۔۔۔ جیسا کہ یہودیوں نے بیت المقدس پر حملہ کیا تا کہ مسلمانوں کے گہرے پرسکون اطمینان کے سمندر میں ایک ارتعاش کی لہر پیدا کر سکیں۔۔۔۔مسلمانوں کا سکوت توڑ سکیں۔۔۔
لیکن افسوس۔۔۔!! کے پوری دنیا کے ستر اسلامی ممالک میں سے ایک بھی ایسا ملک نہیں جسکی طرف سے شدید رد عمل سامنے آیا ہو ۔۔۔
__وہ جو سمجھے تھے تماشا ہو گا___
__ہم نے چپ رہ کر پلٹ دی بازی__

قارئین۔۔۔!!! مسجد اقصی میں مسلمانوں کا نہیں انسانیت کا خون ہو رہا ہے۔۔۔۔اخلاقیات کا خون ہو رہا ہے۔۔۔۔اسلام کا، ہمارے مذہب کا،ہمارے دین کا، ہمارے تہذیب و تمدن کا خون ہو رہا ہے۔۔۔۔
ہم خاموش نہیں بیٹھ سکتے۔۔۔ہمیں اس مسجد کیلئے آہنی دیوار ڈھال بننا ہے۔۔۔ہمیں اس مسجد کی ایک ایک اینٹ کو محفوظ کرنا ہے۔۔۔۔
اے مسلمان اسلام۔۔۔!!! ذرا ہوش کے ناخن لے۔۔۔القدس ہمارا وہ عظیم ورثہ ہے۔۔۔جسکی حفاظت کا منسب ہمیں خود خالق کائنات نے بخشا ہے۔۔۔۔خدا کا دیا ہوا تحفہ تم یوں اتنی آسانی سے تباہ ہونے نہیں دے سکتے۔۔۔۔
تم اقصی کی پاک فضائوں کو یہودیوں کے آلودہ وجود اور شیلینگ سے گولہ بارود سے زہر آلود نہیں ہونے دے سکتے۔۔۔یہ مسجد ہمارے پاس امانت ہے اس دن سے جب صحابہ کرام نے اسے نصرت خداوندی سے فتح کیا تھا۔۔۔اور اسکی حفاظت کا ذمہ ہمیں سونپہ تھا۔۔۔یہ ہماری غیرت کا امتحان ہے۔۔۔ہمارے ایمان کو پرکھنے کی کسوٹی ہے۔۔۔اسکے تحفظ میں ہماری بقا کا راز پوشیدہ ہے۔۔۔ا سکے تقدس پر حرف آیا تو ہم سے اسکی اجتنابیت کا منصب چھن جانے کا خطرہ ہے۔۔۔ہم یہ خطرہ امت مسلمہ کو لاحق ہونے نہیں دیں گے۔۔۔ہمیں دیکھنے سننے بولنے کی طاقتیں اللہ تعالی نے دی ہیں۔۔۔ہم ان نعمتوں کا استعمال کرتے ہو مسجد کی بے حرمتی اور فلسطینیوں کے خون کا بدلہ لیں گے۔۔۔۔ہم اقصی کے سب شکوے شکایتیں دور کریں گے۔۔۔
ہم اقصی کی پکار سن رہے ہیں۔۔۔ہاں دیکھ رہے ہیں۔۔۔ہم گونگے، بہرے اندھے نہیں ہیں۔۔۔اے اقصی۔۔۔!!! ہم تیری مدد کو آئیں گے۔۔۔ ہم تیری ناراضگی دور کریں گے۔۔۔۔
عام طور پر تحریر سیاہی سے لکھی جاتی ہے۔۔۔۔لیکن۔۔۔!!! اے بیت المقدس۔۔۔!!! میں یہ تحریر تیرے خون سے لکھ رہی ہوں۔۔۔تحریر کا یہ ٹکرہ جو آپ اس وقت پڑھ رہے ہیں ۔۔۔قلم کو سیاہی میں ڈبو کر نہیں بیت المقدس کے خون سے تر کر کے لکھا گیا ہے۔۔۔میں بیت المقدس کی پکار کو سنوانا اور دکھا نا چاہتی ہوں۔۔۔ ان تمام مسلمانوں کو جو قوت گویائ اور بینائ رکھتے ہیں۔۔۔ آئو سنو۔۔۔!!! آئو دیکھو۔۔۔!!! اقصی چیخ چیخ کر کیا کہ رہی ہے۔۔۔؟؟؟
محبت کا یہ تحفہ بہت ہے۔۔۔
میرے پہلو میں اک شعلہ بہت ہے۔۔۔
امر کر لوں اگر آج میں اسکو۔۔۔
صدی کے بیچ اک لمحہ بہت ہے۔۔۔
ہزاروں کارواں ہیں راستے میں۔۔۔۔
جو منزل پر ہیں وہ تنہا بہت ہیں۔۔۔
ہوس رکھتی نہیں میں مال وذر کی۔۔۔
مجھے درد و احساس کا اک سکہ بہت ہے۔۔۔
قارئین۔۔۔!!! مسجد اقصی کے پچھلی صدی سے اس صدی تک کے سفر کو ہم نے محفوظ کرنا ہے۔۔۔ کہ اسکے زخموں کے گواہ ماہ و آفتاب سب ہیں۔۔۔ کہ اس صدی کے سفر میں اس نے کیا کیا نہی سہا ۔۔؟؟؟ لیکن تمام تر بے حرمتیوں کے باوجود اسکے ساتھ یقین کی فضاء جڑی ہے ۔۔کہ جب تک مسلمانوں میں مومن زندہ ہیں۔۔۔تب تک اسکے یقین کا سفر بھی ساتھ ساتھ جاری ہے ۔۔۔۔ یہ زمیں اور زماں یہ سورج اور جہاں۔۔۔گواہ ہیں کہ یہ مسجد آج بھی سوگوار ہے ۔۔۔۔ آج بھی نوحہ خواں ہے ۔۔اسکے درو دیوار جو کل بھی لہو میں تھے۔۔۔آج بھی خون میں ڈوبے ہوئے ہیں۔۔۔لیکن اسکے باوجود اسکے خواب آج بھی سانس لے رہے ہیں ۔۔۔۔۔کہ اسکی امید کا دیہ ابھی بجھا نہیں۔۔۔کہ مسجد ابھی تھکی نہیں۔۔۔اس صدی سے اگلی صدی تک کا سفر سکا جاری ہے۔۔۔اور اس سفر کو آرام دہ پرسکون بنانے والے نوجوان اسلام بھی ابھی زندہ ہیں۔۔۔
لہذا میں مسجد اقصی اپنی خون کی روتی آنکھوں سے اس سر زمین کا ہر وہ کونہ تاک میں لئیے بیٹھی ہوں۔۔۔جہاں مسلم ممالک رہائش پذیر ہیں۔۔۔کہ اس رستے پر چل کر کوئیغزنوی کا بیٹا کوئی فاتح القدس آئے گا۔۔۔اور مجھے ان ظالموں کے پنجے سے آزاد کروائے گا۔۔۔
_اے غزنوی کے بیٹے پھر فلسطیں میں آ_
_کہ رستہ تکتی ہے مسجد اقصی تیرا___
طالب دعا
بنت نقاش

Leave a reply