ہماری معیشت کو درپیش مساٸل تحریر:شمسہ بتول

0
60

پاکستان کی معیشت کو اندرونی اور بیرونی طور پر بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اندرونی طور پر معیشت کو درپیش مساٸل میں کم برآمدی شعبے ، سستی درآمدات پر زیادہ انحصار ، ایندھن اور توانائی کی زیادہ قیمت ، اعلی شرح سود ، کم تربیت یافتہ لیبر فورس ، سرمایہ کاری پر کم منافع ، جدید ٹیکنالوجی کی کمی وغیرہ شامل ہے ۔ان معاشی مسائل نے ایک بڑی آبادی کے لیے موثر طریقے سے پیداوار کی فراہمی کو مشکل بنا دیا ہے اور ان سب کی وجہ سے بالواسطہ طور پر بیرونی معاشی بحران پیدا ہوا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ہماری برآمدات کم اور درآمدات زیادہ ہونے کی وجہ سے توازنِ اداٸیگی میں بگاڑ ہیدا ہوتا جس نے ملک کو ایک بار پھر آئی ایم ایف کے قرض کے بوجھ تلے دبا دیا اور آٸی ۔ایم ۔ایف کی سخت پالیسیز کو اپنانے پہ مجبور کر دیا۔گھریلو صنعت اور پیداوار کو برقرار رکھنے اور بڑھانے کے لیے ہمیں معاشی پالیسیز کو بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر صنعت کو بڑھانے کے لیے مزید درآمدات کی جاٸیں تو اس طرح ہمارے اپنے غیر ملکی ذخائر میں کمی واقع ہو گی یا وہ ختم ہو جاٸیں گے۔ غیر ملکی ذخائر میں کمی ناپسندیدہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا باعث بنتی ہے جس سے ہماری معیشت مزید ابتری کی طرف جاۓگی۔ ہمیں اپنی درآمدات کو کم سے کم کرنا ہو گا اور متبادل ذراٸع دریافت کرنا ہوں گے تا کہ کرنٹ اکاٶنٹ خسارے سے بچا جا سکے ۔
آئی ایم ایف کی سخت پالیسیز اور سود کی شرح میں اضافہ کی وجہ سے ہماری معیشت مزید کمزور ہو رہی ۔ ملک کا یہ کمزور معاشی ڈھانچہ ایک تنگ صنعتی بنیاد ، کم برآمدات ، زیادہ ایندھن اور توانائی کی قیمتوں ، متضاد تجارتی پالیسیوں ، غیر صنعت کاری کا نتیجہ ہے۔فاٸنل اشیاء کی برآمدات اور خام مال کی درآمدات ملکی وساٸل کا بہترین استعمال نہ کرنا یہ سب ناقص معاشی کارکردگی کی وجہ بنتی ہیں جب برآمدات درآمدات سے کم ہوتی ہیں تجارتی خسارہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ تجارتی خسارہ ملک کے قیمتی غیر ملکی ذخائر کو کھا جاتا ہے۔ یہ تجارتی خسارہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی پیدا کرتا ہے۔ پاکستان کی برآمدات تقریبا $ billion 22 فراہم کرتی جبکہ اس کی درآمدات $ 52bn کے گرد گھوم رہی ہیں۔ 30 بلین ڈالر کا تجارتی خسارہ جو ہوا اسے قرض لے کر پورا کیا جاتا پھر world Bank ہو یا IMF یہ ترقی یافتہ ممالک کے اصولوں پہ عمل کرتے ہوۓ ترقی پزیر ممالک کو سخت شراٸط پر قرض دیتے جس سے آہستہ آہستہ ہماری معیشت مزید خسارہ کا شکار ہونے لگتی
آئی ایم ایف سے قرض لینے سے عارضی طور پر تو کرنٹ اکاٶنٹ خسارہ کنٹرول ہو جاتا ۔ لیکن یہ مصنوعات کو مہنگا کر دے گا ہماری روپے کی قدر مزید گر جاتی اور اس طرح مہنگائی میں مزید اضافہ ہو جاتا ۔ یہ معیشت کے لیے غیر متنازعہ صورتحال پیدا کرتا ۔
موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے ایک سال بعد ڈالر کے مقابلے میں ہمارے روپے کی قدر مزید گری اور ڈالر 112 سے 165 روپے تک مہنگا ہوا۔ پاکستان قدرتی زخاٸر سے مالا مال ملک ہے ہمارے پاس وہ تمام وساٸل موجود ہیں جن کو بہتر طریقے سے استعمال کر کے ہم معیشت کے بہت سے مساٸل پر قابو پا سکتے۔ہمارے پاس لیبر فورس کی بھی کوٸی کمی نہیں لیکن ہمیں اس لیبر فورس کو ٹرینگز دینا ہو گی انہیں سکلز سکھانا ہونگی ۔ ہمارے پاس خام مال کے وسیع زخاٸر ہیں ہم ان وساٸل کو استعمال کر کے اشیاء کو اپنے ملک میں پیدا کرنے پر ترجیح دیں اور فاٸنل پروڈکٹس کو عالمی منڈی میں پیش کریں۔ ہماری صنعت تباہ حالی کا شکار اسلیے بھی ہے کیونکہ ہم خام مال سستے داموں درآمد کرتے اور مہنگے داموں ان سے اشیاء خریدتے جسکی وجہ سے توازن اداٸیگی بگڑ جاتا۔ لیکن اگر ہم اس خام مال سے خود اشیاء تیار کریں گے تو اس سے ہماری معیشت پر اچھا اثر پڑے گا ہماری گھریلو صنعت کو فروغ حاصل ہو گا لوگوں کو روزگار ملے گا اور ہمارے زرمبادلہ میں بہتری آۓگی
ہزاروں مسائل سے دوچار معیشت کی بحالی کے لیے مزید ٹھوس اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔ پاکستان قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اور صرف اتنا ہی نہیں قرضوں کا یہ سلسلہ ہماری آنے والی نسلوں تک جا رہا 2018 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر بچہ تقریباً 130,000 کا مقروض ہے جو وقت کے ساتھ بڑھتا ہوا ہی نظر آ رہا۔ اس وقت بیرونی قرضہ 116.3 بلین ڈالر ہے۔معیشت کی بحالی کے لیے آئی ایم ایف ڈیل پر انحصار کرنا ایک خوفناک غلطی ہوگی۔ ہمیں اپنے وساٸل اپنی لیبر فورس اور انسانی سرماۓ کے وساٸل کو بروۓ کار لانا ہو گا ایک بہترین انتظامی ڈھانچہ تشکیل دینا ہو گا جو معیشت کو بحالی کی طرف لے جاۓ ورنہ مستقبل میں ہمیں مزید نقصان اٹھانا پڑے گا۔

@b786_s

Leave a reply