حوصلہ نہ ہاریں…!!! تحریر: جویریہ بتول

حوصلہ نہ ہاریں…!!!
(تحریر: جویریہ بتول)۔
آپ اس دنیا میں کتنے ہی بھلے کام کیوں نہ کر لیں،دنیا پھر بھی راضی نہیں ہوتی…
حاسدین اور ناقدین اپنی توپوں اور تیروں کا رُخ بہر حال آپ کی جانب کیئے رکھتے ہیں…
وہ آپ کے مثبت کام کے منفی پہلو تلاشتے اور ان کی ترویج و اشاعت کا فریضہ سنبھال لیتے ہیں…
آپ جب بھی کوئی اہم کام یا مسائل حل کرنا چاہتے ہیں تو کئی لوگ برا بھلا بھی کہیں گے…
آپ کی ذرا سی لغزش نوٹ کریں گے…
کیونکہ وہ آپ کو کوئی قدم اُٹھاتے ہی فرشتہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ غلطی کا صدور شاید اب آپ سے ممکن نہیں ہے…
اور ذرا سی غلطی پر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں…
اگر ایسا ہے تو یقین جانیں لوگ آپ میں کچھ صلاحیتوں کے قائل ہیں اور آپ کی کامیابی کو وہ اپنے لیئے توہین تصور کرتے ہیں…
لیکن ان کی تنقید برائے تنقید آپ کے حوصلہ کو پست کرنے کی بجائے اسے وزن دینے کا باعث ہو…
آپ خیر کے کاموں میں آگے بڑھتے رہنے کی کوشش جاری رکھیں…
عزم بالجزم کے ساتھ آگے بڑھنے والے آندھی و طوفانوں…میں سکون کی مانند اور شبِ دیجور میں چراغ کی مانند جلتے رہتے ہیں…
دستِ ہمت کا دامن نہیں چھوڑتے…
اور اپنی راہوں کو صاف کرتے رہنے کی ادائیگی میں مصروف رہتے ہیں…
ان کی نظر اپنے ہدف تک پہنچنے پر ہوتی ہے،دنیاوی اغراض و مقاصد کے لیئے جینے والے لوگ ان کو چیلنج بھی سمجھتے ہیں،
ان کا بلڈ پریشر تو انسانیت کی آڑ میں بھی اپنے مالی مفادات کے استحکام کے یا گراوٹ سے بڑھتا اور کم ہوتا ہے…
مگر اپنی صلاحیتوں کو دوسروں کی راہ میں روشنی کرنے کی غرض سے استعمال کرتے جذبوں کو اس کیٹیگری میں نہیں دیکھا جا سکتا اور حقیقت میں دنیا میں رکاوٹیں بھی ایسے ہی لوگوں کی راہ میں ہوتی ہیں…
لیکن اپنے حصے کا دیا جلائے رکھنے کی رسم زندہ کیئے لوگوں کو چاہیئے کہ وہ اپنے معاملات اللّٰہ سے ٹھیک رکھیں…
دلبرداشتہ ہو کر حوصلہ ہارنے کی بجائے جو ہو سکے وہ کرتے رہیں…
خود سے دوسروں کو فائدہ پہنچائیں اور اپنے ضرر سے بچائیں…!!!
پر امن انداز میں سکونِ ذہن و قلب کے ساتھ سفر جاری رکھیں…
اور اپنی سوچ،انداز اور اداؤں سے انسانیت کی بھلائی چاہتے رہیں…
یہی انسانیت کی معراج ہے اور دنیا میں رہتے ہوئے ہم دنیا کو اپنی صفائیاں تو کبھی تسلی بخش انداز میں دے ہی نہیں سکتے…
لوگ پھر بھی شک کی چنگاری کو سلگائیں گے…
بقول شاعر:
"میری خوبیاں اور محاسن ہی ان کے نزدیک میرے گناہ ہیں تو بتاؤ کہ میں کیا معذرت کروں…؟؟؟”
اپنے حصے کا کام کرنا ہے اور آگے گزر جانا ہے…تنقید و تحسین سے بے پرواہ ہو کر تبھی آپ اپنا کوئی بھی مثبت کام یکسوئی سے سر انجام دے سکتے ہیں…
کیونکہ جہاں تنقید حوصلہ پست کرتی ہے،وہیں حد سے بڑھی تحسین بھی دماغ کو مغرور کرتی اور سوچوں کو اسی دائرہ میں دھکیل دیتی ہے کہ جو کام ہو،اس کی تعریف بھی لازم ہے…جبکہ کبھی کام تعریف کے بغیر بھی کرنا پڑتا ہے…!!!!!
ہمارا یقیں ہو کہ اجر اللّٰہ تعالٰی سے لینا ہے
شاعر نے کتنے خوب صورت انداز میں کہا ہے:
"کاش کہ تو راضی رہے،تری رضا کے ساتھ اگر تمام لوگ بھی ناراض ہوں تو کوئی پرواہ نہیں،میری منتہائے اُمید یہی ہے۔”
==============================

Leave a reply