بھارتی حملہ. تحریر :ارم رائے

0
65

یہ پاکستان ہے۔ اور اس دھرتی پہ صبح کے 3:00AM .ہورہے ہیں لوگ معمول کے مطابق اپنی اپنی خواب گاہوں سوئے ہوِئے ہیں اور کچھ تہجد گزار مسجدوں میں ہیں ، جو اللہ کے حضور سجدہ ریز ہیں اور دعاوں اور سسکیوں میں امت مسلم کی کامیابی و کامرانی کے لیے دعاوں میں مشغول ہیں۔ پرندے کچھ دیر تک چہچہانے میں لگ جائیں گے۔ دو دوست رات گئے کی محفل برخاست کر کے اپنے گھر کی طرف آ رہے ہیں، کہ اچانک ٹینکوں کے گولوں اور جنگی جہازوں کی دل ہلا دینے والی آوازیں سماعتوں سے ٹکرانا شروع ہو جاتی ہیں،لوگ مارے خوف سے ششدر میں ہیں کہ کیا ہو گیا ہے۔دل کی دھڑکنوں کی بے ترتیبی زور پکڑتی ہے ۔ ہیبت ناک اور کلیجے کو پھٹا دینے والی آوازویں بہت قریب ہوتی جارہی ہیں۔ساتھ ساتھ تیز ہوتی جا رہی ہیں۔ اتنے میں مسجد کے لاوڈ سپیکر سے جان لیوا الفاظ کچھ یوں سنائی دیتے ہیں کہ۔۔۔۔۔۔بزدل بھارت نے لاہور کی جانب سے پھر حملہ کر دیا ہے اور عوام سے اپیل ہے کہ فوجی بھائیوں کے کندھے سے کندھا ملائے۔ اعلان ختم ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اک ماں سب سے پہلے اپنے جوان بیٹے کو کہتی ہے میرے بیٹے آج اسلام اور کفر کی جنگ چھڑ گئ ہے ۔میں اس وقت تک آپ راضی نہیں ہوں گی جب تک تیرا لہو کفر کے شعلے کو ٹھنڈا نہیں کر دیتا۔ یہ سننا تھا کہ بیٹا خالی ہاتھ بارڈر کی طرف دوڑ لگا دیتا ہے۔جب نوجوان بارڈر پر پہنچتا ہے تو عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر فوجی بھائیوں کی امداد کے لیے نقل و حرکت میں ہے ۔ہر سو عوام ہی عوام ہے ۔عوام کے ہاتھوں میں کوئی نہ کوئی ضروری سامان ہے۔ کسی کے ہاتھ میں پھولوں کے گل دستے ہیں۔بچوں کے پاس پاس پانی کی بو تلیں ہیں۔ تو کسی کے ہاتھ میں میں گھریلو بندوقیں ہیں۔کسی کے ہاتھ میں فروٹ ہیں جو گھر میں رکھے فریزروں سے لئے گئے ہیں۔ ایک کے پاس تو کپڑے میں بندھی ہوئی دال روٹی اور گھر کے دروازے کو توڑ کر لی گئ اک مضبوط چوکھاٹ بھی ہے۔ اس سے پوچھا گیا کہ یہ چوکھاٹ کس لیے لائے ہو تو جواب ملا، جب اسلحہ ختم ہو جائے گا تو جا ئے گا تو یہ چوکھاٹ بندوق بن جائے گی۔۔۔۔اس کے اس جواب نے عوام اور افواج میں مزید انرجی پیدا کر دی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔ فوجی ٹینکوں کو عوام نے اپنے حصار میں گھیر رکھا ہے ۔ہر سو ملی نغموں کی بہار ہے۔ لوگ بارڈر پر سیسہ پلائی دیوار بنے ہوئے ہیں ۔آس پاس جنگی جہازوں کی گھن گرج اور ٹینکوں کی ہیبت ناک اوازوں نے دشمن پر دھاک بٹھا رکھی ہے۔ دونوں جانب فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے تھنڈر جہاز اور ایف سولہ جہازوں نے فضا کو دھواں دھواں اور گردو غبار سے آلودہ کر رکھا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ جنگ ایک میلہ بن گئ ہے جیسے بازار ہو ۔جیسے لوگ خرید و فروخت کے لیے آئے ہوں ۔کسی پر کوئی خوف کے آثار نہیں ہیں ۔مشکل وقت میں اتفاق مشکلات کو بے معنی کر دیتا ہے۔ فوجی بھائیوں سے عوام کی محبت نے جنگ کا پانسہ یک طرفہ کردیا ۔فوجی کو گولی لگتے لگتے ایک عام سے ادمی کے سینے سے گزر جاتی ہے ۔ فوجی زخمی ہوتے ہوتے عام ادمی زخمی ہو جاتا ہے۔ دور سے فوجیوں کو بچانے کے مزید کھدائیاں جاری ہیں۔ یہ جذبہ ایمانی دیکھ کر اور فوج سے محبت نے افواج کے لہو گرما دئے ۔ فوجی دستوں نے نعرہ تکبیر کے فلک شگاف نعرے ایسے لگائےکہ ٹینکوں سے نکلنے والے گولوں کی رفتار دوگنی ہو گئی۔ جہاں اک منٹ میں ایک گولہ جانا تھا وہاں ایک منٹ تین تین گولے دشمن کی طرف نکلے۔ جہاں فضائیہ نے منٹوں میں ہدف تباہ کرنا تھا وہاں سیکنڈوں میں ہدف مکمل ہونے لگا۔ جنگ تیز ہو گئ نتائج فوری آنے لگ گئے۔ ہر پانچ منٹ دشمن کا اہم ترین مقام تباہ ہونے لگا نعرہ تکبیر اللہ اکبر کے نعروں نے ایسی توانائی بخشی کہ پاک آرمی کے کے دستے دشمن کی سر زمین میں ٹینکوں کو آگے بڑھاتے گئے۔ٹینک کے گولوں سے دشمن کو نیست و نابود کرتے گئے اور اوپر سے ایف سولہ اور تھنڈر جیسے پاور فل جنگی جہازوں نے دشمن کے علاقے کو تباہ برباد کر کے رکھ دیا۔۔

ادھر لمبی اور کالی زلفوں والے بڑی اور مضبوط قدو قامت کے مالک اللہ کے شیر کہیں سے آ نکلتے ہیں جیسے یہ غاروں میں سے نکل کے آئے ہوں جیسے یہ خاص وقت کے انتظار میں تھے جیسے یہ آئے نہیں بھیجے گئے ہوں۔جیسے یہ غزوہ ہند کے حصے دار ہوں۔۔ان کی آمد نے جنگ میں ہلچل مچا دی اور دیکھتے ہی دیکھتے دشمن کی بھاری نفری لاشوں کی شکل اختیار گئ ۔لاشیں لاشیں اتنی پڑی ہیں کہ گدھ سالہا سال مزے ا ڑا سکتے ہیں

یِہ خواب میں ابھی دیکھ رہی تھی کہ کسی نے مجھے کہا کہ ہندوستان فتح ہو گیا ہے اور دہلی کی بڑی مسجد پر سبز ہلالی جھنڈا لگا دیا گیا ہے۔ آئیے اس لہراتے سبز ہلالی جھنڈے کو دیکھتے ہیں۔اس خوشی میں میری آنکھ کھل گئ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ آرٹیکل عوام اور افواج کی یکجہتی کے فوائد پر لکھا گیا ہے اسے عوام میں آگہی کے لئے ضرور شیر کیجئے

Leave a reply