بھارت کےخطرناک عزائم :کیا ہم تیارہیں:اگلی جنگ کیسی ہوگی:جاننا بہت ضروری:مبشرلقمان

0
32

لاہور:بھارت کےخطرناک عزائم :کیا ہم تیارہیں:اگلی جنگ کیسی ہوگی:جاننا بہت ضروری:اطلاعات کے مطابق پاکستان کے سنیئر صحافی تجزیہ نگارمبشرلقمان نے اہل وطن کوایک بڑے پتے کی بات بتائی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ ہمارا دشمن بڑا چالاک ہے کیا ہم نے اس کی چالاکیوں کاتوڑ کرنے کے لیے کچھ کیا بھی ہے یا نہیں ،

مبشرلقمان کہتے ہیں‌ کہ ہرکوئی دیکھ رہا ہے کہ ہر روز نئی سے نئی ایجاد نے انسان کو برے طریقے سے ٹیکنالوجی کا محتاج کر دیا ہے۔ fourth industrial revolution اور انٹر نیٹ نےہر میدان میں انقلاب برپاکر دیا ہے، پروڈکشن، مینجمنٹ اور governanceکے سسٹم مکمل طور پر تبدیل ہو چکے ہیںان بدلتے ہوئے حالات میں نئی فیلڈ میں نئے خطرے لاحق ہو چکے ہیں۔وہ جنگیں جو بندوقوں اور بمبوں سے لڑی جاتی تھی اب weaponised computer program کے ایک کلک سے لڑی جاتی ہیں۔ دنیا نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ keyboardکے ایک بٹن سے ایسی جنگ شروع کی جا سکتی ہے جو ناقابل یقین تباہی کی حامل ہو۔

 

مبشرلقمان نے جید ٹیکنالوجی کی جہت کے بارے میں بتایا کہ جنگی صلاحیتوں کی ترقی کا انحصاراب ان ٹیکنالوجی اور حکمت عملی پر ہے۔ گزشتہ ایک صدی میں انسان نے تلواروں سے جوہری ہتھیاروں تک کا سفر طے کیا ہے جس میں ملٹری tecticsسمیت ہر میدان میں بے مثال ترقی ہوئی لیکن اب ہر آنے والی ٹیکنالوجی صدیوں کی progressکو ایک دم سے outdated کر دیتی ہے۔ اکیسویں صدی میں دنیا ایک عالمی گاوں میں تبدیل ہو چکی ہے۔ہر ملک دوسرے کا معیشت ، ٹیکنالوجی سمیت ہر میدان میں محتاج ہے ممالک ایک دوسرے کے خلاف مل کر بلاکس بنا رہے ہیں ایک دوسرے سے ٹیکنالوجی کا تبادلہ کر رہے ہیں ان کا جنگ کرنے کا طریقہ بدل چکا ہے لیکن ان کا ہدف ایک ہی ہے اور وہ ہے اپنے دشمن پر ہر لحاظ سے فوقیت رکھناچاہے

وہ کہتے ہیں کہ military balance ۔ہو یا streategic gain. اس لیئے ایک ملک اپنے دشمن پر حاوی ہونے کے لیئے دوسرے ممالک پر بھروسہ کرتے ہیں۔اس میں سب سے اہم یہ ہے کہ کیسے آپ دشمن ملک میں بغیر گھسے اس ملک کی عوام کے دماغوں پر اثر انداز ہوتے ہیں اورکسی بھی قسم کی طاقت استعمال کیئے بغیر ملک کی عوام کو اپنے مفادات کے مطابق دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے اور اس کے لیئے کسی بھی قسم کی زمینی طاقت کا بھی استعمال نہ کیا جائے۔

مبشرلقمان نے مزید کہا کہ آج کل کے ماحول میں دشمن کو تنہا کرنے اور اسے نقصان پہنچانے کے لیئے قومی طاقت کے ہر طرح کےعناصر کو استعمال کیا جاتا ہے اس میں معاشی اتحاد بھی ہیں اور جوہری ہتھیاروں کی دھمکی بھی، اس میں ملک میں خشک سالی پیدا کرنے سے لے کر سیاسی عدم استحکام تک ہر چیز استعمال کی جا تی ہے تاکہ دشمن پر زیادہ سے زیادہ پریشر ڈالا جا سکےلہذا ،پہلے سے ہی پیچیدہ ماحول میں ، specific strategic effects حاصل کرنے کے لیئے information نے معمولی آپریشنل اور tectical actionsکے ذریعے اہم مقام حاصل کر لیا ہے کیونکہ معلوماتی ٹولز کے ذریعہ عدم استحکام اور غیر یقینی صورتحال کو بہتر طور پر حاصل کیا جاسکتا ہے ، اس لیئے perception management اور streategic communicationکے نئے محاذ کھل گئے ہیں۔ آج کے نتائج اب حالات پر مبنی نہیں ہیں ، بلکہ نتائج کو کس طرح پیش کیا جاتا ہے اس پر مبنی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اب streategic affairs میں ٹیکنالوجی تکنیکی تبدیلیوں کی محرک ہے موجودہ عالمی خدشات میں یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی یہ خاصیت رکھتی ہے کہ خطہ اور عالمی طاقتوں کے درمیاں balance of powerپیدا کر سکے۔مصنوعی ذہانت کا وسیع استعمال کوئی عجیب و غریب واقعہ نہیں ہے۔

سنیئر صحافی نے ایک بڑی اہم بات بتاتے ہوئے کہا کہ artificial intellegenceکی کمانڈ اینڈ کنٹرول اور فیصلہ سازی کئی دہائیوں سے عملی طور پر چل رہی ہے ، اور اس کا استعمال امریکی سوویت سرد جنگ کے دوران انتہائی اہم تھا۔ تاہم ، مغربی اور ایشیائی ممالک میں گذشتہ برسوں کے دوران ، فوج ، بحری اور فضائی افواج میں اس کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ ، چین ، روس ، فرانس ، اور برطانیہ nuclear chargedبیلسٹک میزائل Submarinesاور ہوائی جہاز تیار کررہے ہیں ، اور بھارت اپنی فوج کو artificial intellegenceکی صلاحیتوں سے لیس کر رہا ہے۔مصنوعی ذہانت یاartificial intellegence ایک ایسا نظریہ ، طریقہ اور تکنیک ہے جو کمپیوٹر کو انسان کے سوچنے کے عمل اور طریقہ کار کاتجزیہ کرنے میں مدد دیتی ہے۔

 

 

انہوں نے کہا کہ آج کل آپ نے دیکھا ہو گا کہ آپ بولتے ہیں اور آپ کا کمپیوٹر مختلفapps کی مدد سے خود لکھتا ہے۔اسے ہم speech recognationکہتے ہیں جبکہ آ پ کے موبائل کا پاس ورڈ بھی آپ کی آ واز کو پہچان کر کھل جاتا ہے۔سوشل میڈیا اپنے صارفین کو صرف ان کی دلچسپی سے متعلقہ معلومات پیش کرتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ نے کوئی لیپ ٹاپ سرچ کیا ہے تو سسٹم کو پتا چل جائے گا کہ آپ لیپ تاپ کی تلاش میں ہیں اور جو specification or company آپ نے سرچ کی ہوں گی اس کے مطابق چوائسز آپ کی web browsing کے درمیاں آپ کو خود بہ خود اشتہار کی صورت میں نظر آ نا شروع ہو جاتی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا اب اپنے ناظریں کو وہی چیزیں دیکھاتا ہے جس قسم کی چیزوں میں آپ کا اکثر interest ہوتا ہے۔یہ آپ کی پسند اورsocial behaviour profile بنا کر اس کے مطابق خود بہ خود ڈیل کرتا ہے۔اگر آپ نے کسی خاص ٹاپک پرویڈیو دیکھی ہے تو یو ٹیوب آپ کو اپ کی پسند سے متعلق دیگر ویڈیوز خود بہ خود suggest کر دیتا ہے۔ اگر یہ کا م مشینیں اورسسٹم نہ کریں تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ ہر بندے کی پسند اور نہ پسند کو یاد رکھنا اور اس کے مطابقbehave کرنے کے لیئے کتنے انسانوں کی ضرورت ہو گی جبکہ سوشل میڈیا کا ڈیٹا بہت زیادہ ہو اور استعمال کرنے والوں کی تعداد اربوں میں ہو۔یہاں بھی artificial intellegence کا استعمال کیا جاتا ہے۔ artificial intellegence آپ کی تصویر،آڈیو، ویڈیو میں کسی بھی قسم کی جعل سازی کو ایک منٹ میں پکڑلیتا ہے۔ یو ٹیوب کا سسٹم ویڈٰو اپ لوڈ کے بعد نوے فیصد آپ کے content کو سمجھ لیتا ہے۔ کہ آپ نے کس ایشو پر ویڈیو بنائی ہے اور اس میں کیا بات کی ہے،اب اس میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا ویب سائٹ پر ہرuserکا تفصیلی ڈیٹا چلا جاتا ہے کہ یہ کون ہے کہاں رہتا ہے، جمہوریت پسند ہے آمروں کا سپورٹر ہے ، کیا کھاتا ہے کس چیز کی جستجو میں ہے۔

مبشرلقمان کا کہنا تھا کہ جب اس ویب سائٹ کو پتا چل گیا کہ آپ کے ملک میں بیس فیصد لوگ فوج کے مخالف ہیں، پچیس فیصد نواز شریف سے نفرت کرتے ہیں اور اس طرح کا تما م ڈیٹا تو پھر لوگوں کی ذہن سازی کے لیئے ان کے سامنے فوج کے خلاف مواد کو ظاہر کیا جاتا ہے اور ان کے ذہن سازی کے عمل کو پختہ کیا جاتا۔ اور اب اسی ٹیکنالوجی ،ڈیٹا اور غلط خبروںکو اپنے ٹارگٹ تک پہنچانے کے لیئے استعمال کیا جاتا ہے جس میں عوامی گفتگو کو متاثر کرنے ، عوامی اعتماد کو خراب کرنے اور سرکاری اہلکاروں کو بلیک میل کرنے کی کوشش کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہےان تمام حدودمیں سینسروں سے ڈیٹا کو فیوز کرنے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے تاکہ فیصلہ کرنے والوں کے لئے معلومات کا ایک واحد وسیلہ پیدا کیا جاسکےجسے فیصلہ سازcommon operating picture بھی کہتے ہیں۔ اگر دفاع کے میدان میں artificial intellegence کی بات کی جائے تو یہ فوجی نقل و حمل اور کمانڈرز کے فیصلہ سازی میں مدد کرتی ہے۔یہ نظام ماحول کو سمجھنے، مسائل کی نشاندہی کرنے، ریڈار کے ڈیٹا کو یکجا کرنے ، نیویگیشن پلان بنانے اور دیگر گاڑیوں کے ساتھ بات چیت کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔

وہ آگے چل کرکہتے ہیں کہ یہ قومی طاقت کا ایک ناگزیر عنصر بن چکا ہے ، لیکن دوسری طرف یہ مصنوعی ذہانت اور سائبر جنگ جیسے نقائص کے ساتھ بجا طور پر قومی سلامتی کوخطرہ بھی بن گیا ہے۔کیونکہ جب آُپ ٹیکنالوجی کو اپنے دفاعی پروگرام کے لیئے استعمال کر یں گے تو اس بات کے قوی امکان پیدا ہو جاتے ہیں کہ دشمن آپ کے سسٹم کا کئی ہزار کلو میٹر دور سے بیٹھ کر کنٹرول حاصل کر سکتا ہے اور اپنی مرضی کی کمانڈ دے سکتا ہے جو آپ کے دفاعی نظام کی تباہی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

 

 

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انفارمیشن ٹکنالوجیوں پر انحصار ، انفرادی تنظیموں سے لے کر گورننس سسٹم تک کے تمام فوجی نظاموں پر انحصار کرنے سے ، خطرات سے دوچار چیلنج حقیقت بن گیا ہے۔ اس نے سلامتی اور جنگ کے تصور کو بدل دیا ہےپاکستان کو ان چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک جامع اسٹریٹجک فریم ورک کو کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر میں سائبر سے وابستہ بڑھتے ہوئے خطرے کے ساتھ ، پاکستان کو اپنےسائبر دفاع پر توجہ دینی ہوگی۔ کیونکہ اب یہ ملک کے لئے آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔اگر آپ اپنے سب سے بڑے دشمن بھارت پر نظر ڈالیں تو جس دن سے چین نے بھارت کی درگت بنائی ہے مودی اس چکر میں ہے کہ پاکستان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر کے کوئی جھوٹی واردات ڈال کر اپنی عزت بحال کرے۔ اس کے علاوہ اقلیتوں سے انسانیت سوز رویہ،کسانوں کا احتجاج،کشمیر میں ظل و بربریت، اور بین القوامی پریشر۔۔ بھی نیو دہلی میں موجود پالیسی سازوں کو پاکستان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ پر مجبور کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ لیکن بھارت ایک بڑی غلط فہمی میں ہے اسے نہیں پتا کہ پاکستان کے ساتھ یہ چھیڑ چھاڑ اسے مزید پستی کی گہرائیوں میں ڈال دے گی اور خطے کا امن برباد ہو جائے گا۔یہ بات حیران کن ہے ایسے وقت میں جب کہ دنیا وبا کی وجہ سے لڑائیاں ختم کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے بھارت دیوانوں کی طرح لڑائیوں کو جنم دے رہا ہے۔ سپر پاورز جو اس طرح کے معاملات میں بیچ بچاو کرتی ہیں وہ چین کو سامنے رکھ کر اسے مزید ہوا دے رہی ہیں۔بھارت نیپال کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر چکا ہے، بھارت چین کے ساتھ الجھا ہوا ہے اور اب باقائدہ پاکستان کے ساتھ محاذ گرم کرنا چاہتا ہے۔

مبشرلقمان کہتے ہیں کہ جموں کشمیر میں انسانی تاریخ کی بد ترین انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔اس وقت جموں کشمیر میں دس لاکھ سے زاہد بھارتی فوج کی وجہ سے دنیا کا highly militarized region بن چکا ہے۔اور ان فورسز کو Armed Forces Special Powers Act (AFSPA)کے تحت معصوم کشمیریوں کو مارنے اور ٹارچر کرنے کا لائسنس دے دیا گیا ہے۔بھارت اس سال لائن آف کنٹرول پر دو ہزار سے زاہدceasefire violationsکر چکا ہے جس میں کئی درجن معصوم شہری اور فوجی شہید ہو چکے ہیں۔اور یہ کہheavy Mortars and Artillery ۔ کا استعمال ہر روز کا معمول بن چکا ہے یہی نہیں بھارت ہر روز اپنے spy dronesکے زریعے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ اور پاکستان نے اس سال ایک درجن سے زاہد ڈرون گرائے ۔

سینیر صحافی کہتے ہیں کہ ان سب چیزوں کے ساتھ یہ انٹیلجنس رپورٹ بھی آ چکی ہیں کہ بھارت دوبارہmisadventureکی تیاری کر رہا ہے۔لیکن آپ بھارتی بے شرمی کا اندازہ لگائیں کہالٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مترادف پاکستان پر دہشت گردی کو ہوا دینے کے الزامات لگا رہا ہے جبکہ کہانی اس کے بلکل بر عکس ہے۔ یہ پاکستان ہے جو بھارتی پرپیگنڈا اور دہشت گردی کا نشانہ بن رہا ہے۔ لیکن بھارت کئی جکہوں پر دنیا کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ دنیا کی سپر پاور جس نے مودی کے امریکہ پر داخلہ پر پابندی لگا دی تھی اسے اعلی ترین ایوازڈز سے نواز رہی ہے۔

 

مبشرلقمان نے کہا کہ ٹرمپ نے مودی کو US legion of meritکا ایوارڈ دیا ہے کس کو نہیں پتا کہ بھارت افغانستان کے شر پسند عناصر سے کیا کروا ر ہا ہے۔ وہ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی کیسے مدد کر رہا ہے۔اس سلسلے میں پاکستان را کے کالے کارناموں کو بے نقاب کر چکا ہے اور انٹر نیشنل کمیونٹی کوبھارت کا مکروہ چہرہ دیکھا چکا ہے۔سی پیک کو نشانہ بنانے کے لیئے بھارت نے سات سو جنگجو بھرتی کیئے ہوئے ہیں جن کو RAW کے دس افسران لیڈ کر رہے ہیں۔مودی نے بھارت کے سیکولر چہرے کو بھی ایک انتہا پسند ہندو ریاست میں تبدیل کر دیا ہے۔جہاں مسلمانوں اور عیسائیوں سے ان کی مذہبی آزادی چھیننے کے ساتھ ساتھ ان کے لیئے بھارت کی زمین تنگ کی جا رہی ہے۔ مودی کی حکومت ریاستی سطح پر تشدد کو پروموٹ کر رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت کی معیشت بری طرح گر رہی ہے جبکہ اسکے دفاعی اخراجات آسمان سے بات کر رہے ہیں۔ان حالات میں مودی اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کے لیئے عوا کی توجہ کسی اور طرف لگانا چاہتا ہے۔ جس کے لیئے اس کے پاس پاکستان کے خلاف جھوٹا آپریشن کا آپشن پہلے نمبر ہے۔اور اس مقصد کے لیئے بھارت information warfare کا ہتھیار استعمال کر رہا ہےلیکن سوچنے کی بات ہے کہ کیا بھارت دنیا کو اسی طرح بے وقوف بناتا رہے گا اور دنیا پاکستان کے خلاف اس تماشے میں خاموش تماشائی بنی رہے گی۔؟

وہ آگے چل کرکہتے ہیں کہ بھارت جو مرضی ظلم کرے کیا دنیا وہی کچھ دیکھتی رہے گی جو بھارت دنیا کو دیکھا رہا ہے۔؟بھارت نے فروری دو ہزار انیس میں جو ڈارامہ کیا تھا وہ پاکستانی سرپرائز سے بھارت کے لیئے باعث ہزیمت بن گیا۔ اب بھارت نہ صرف کشمیر میں آزادی کی تحریک کا بدلہ پاکستان سے لینا چاہتا ہے بلکہ اپنی اس رسوائی کا سکور بھی settle کرنا چاہتا ہے۔اور آج کی اس دنیا میں جواز بنائے بغیر مودی کے لیئے ایسا کرنا مشکل ہے کیا بھارت پھر دنیا کو دیکھانے کے لیئے ایسا ڈرامہ جس کا سکرپٹ بھارت میں لکھا گیا ہےمیں کامیاب ہو جائے گا۔

انہوں نے آخرمیں کہا کہ ہمیں بھارت کے اس مکروہ چہرے کو جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے ایک منظم طریقے سے بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ دنیا تو ایک طرف کیا ہمارے پاس پاکستان کی عوام کا ڈیٹا موجود ہے جو دنیا سوشل میڈیا کے پردے میں لے اڑی ہے جو بھارت کے ہاتھ بھی لگ سکتا ہے کیونکہ امریکہ اور اسرائیل جو اس میں ماسٹر ہیں بھارت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ چین اس حوالے سے ہماری مدد کر سکتا ہے لیکن کیا ہمیں اس حوالے سے خود بھی کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔۔؟پاکستان کے پاس مین پاور سمیت ہر چیز موجود ہے لیکن بس ضرورت ہے ایک vision اور سفر کے آغاز کی۔

Leave a reply