سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوئی
سپریم کورٹ نے عمران خان کے وکیل سے دو سوالات پر وضاحت مانگ لی ، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایک شخص کو لاکھوں عوام نے ووٹ دے کر رکن پارلیمنٹ منتخب کیاآپ نے دلائل میں کہا کہ رکن پارلیمنٹ عوامی اعتماد کا امانت دار ہے، منتخب رکن پارلیمان سے باہر نکل کر کہے کہ فیصلہ سڑکوں پر کروں گا تو کیا یہ جمہوریت ہے؟ اراکین پارلیمنٹ کا پارلیمان کو چھوڑ کر سڑکوں پر فیصلے کرنے سے جمہوری نظام کیسے چلے گا؟اگر ارکان پارلیمنٹ عوام کا اعتماد جیت کر آئے ہیں تو پارلیمان میں بیٹھیں
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ نے آرمی چیف ایکسٹینشن کیس میں قانونی خلا کو پر کیا تھا،اسفند یار ولی کیس میں بھی سپریم کورٹ نے ترامیم کالعدم قرار دی تھیں،عدالت نے کہا کہ اسفند یار ولی کیس میں عدالت نے انسانی حقوق سے منافی ہونے پر قانون کالعدم قرار دیا تھا،جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نیب ترامیم کیس میں تو آپ کہہ رہے ہیں کہ جو مسنگ ہے اس کو شامل کیا جائے،جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نیب ترامیم سے جو شقیں نکالی گئیں ان سے قانون ہی غیر موثر ہو گیا،نیب ترامیم کے خلاف مقدمے میں نیب قانون اصل حالت میں بحال کرنے کا کہا گیا ، جسٹس منصور علی شاہ نےکہا کہ نیب کی جن شقوں میں ترمیم ہوئی وہ بنیادی حقوق کے خلاف نہیں ہیں،
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نیب قانون میں بہت سے سقم بھی تھے نیب قانون میں کسی شخص کو محض الزام پر 90 روز کے لیے گرفتار کر لیا جاتا تھا، نیب ترامیم ملکی قانون میں پیش رفت ہیں، نیب قانون پر ترمیم سے پہلے بہت تنقید بھی ہوتی رہی ہے، وکیل نے کہا کہ نیب سمیت کسی بھی فوجداری مقدمے میں تحقیقات کے دوران گرفتاری کا حامی نہیں ہوں،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پارلیمنٹ کی نیت جاننے کے لیے نیب ترامیم پر جو بحث ہوئی وہ دیکھنا ہو گی،وکیل نے کہا کہ نیب ترامیم پر پارلیمنٹ میں کوئی بحث ہوئی ہی نہیں ہے، عدالت نے کہا کہ حکومتی وکیل کا موقف ہے کہ نیب ترامیم سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں ہوئیں،وکیل نے کہا کہ نیب قانون میں کوئی ترامیم عدالتی فیصلوں کی بنیاد پر نہیں ہوئیں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا نیب ترامیم کے خلاف پبلک بھی کچھ کہہ رہی ہے؟پھر عدالت خود سے تعین کرے کہ نیب ترامیم سے عوام متاثر ہو رہی ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ درشن مسیح کیس میں پبلک نے عدالت سے رجوع کیا تھا،کیا نیب ترامیم کیس میں پبلک نے عدالت سے رجوع کیا ہے؟ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ درشن مسیح کیس میں این جی اوز نے عدالت سے رجوع کیا تھا،خواہش ہے کہ کرپشن کے خلاف بھی این جی اوز بن جائیں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نیب ترامیم کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی درخواست زیر التوا ہے بتائیں کہ نیب ترامیم کے خلاف کیس واپس ہائیکورٹ کیوں نہیں بھجوایا جا سکتا؟ سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست کل تک ملتوی کر دی
نیب ترامیم کیخلاف درخواست،فیصلہ کرنے میں کوئی عجلت نہیں کرینگے،چیف جسٹس
سپریم کورٹ مقدمے کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرے گی
اس سے تو یہ ثابت ہوا کہ پلی بارگین کے بعد بھی ملزم کا اعتراف جرم تصور نہیں ہو گا،چیف جسٹس
، 25 کروڑ آبادی میں سے عمران خان ہی نیب ترامیم سے متاثر کیوں ہوئے؟
واضح رہے کہ عمران خان نے موجودہ حکومت کی جانب سے نیب ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے ،عدالت عظمیٰ میں دائر درخواست میں عمران خان نے استدعا کی تھی کہ سیکشن 14،15، 21، 23 میں ترامیم بھی آئین کے منافی ہیں۔ نیب قانون میں یہ ترامیم آئین کے آرٹیکل 9، 14، 19A, 24, 25 کے بنیادی حقوق کے برعکس ہیں، نیب قانون میں کی گئی ان تمام ترامیم کو کالعدم قرار دیا جائے۔