پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے کا معاملہ ، انٹرا پارٹی کیس کی سماعت الیکشن کمیشن میں ہوئی
الیکشن کمیشن کےپانچ رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی،پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیئے،چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان کمرہ عدالت پہنچ گئے،پی ٹی آئی وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جون دوہزار بائیس کے انتخابات کو آپکی طرف سے کالعدم قرار دیا گیا تھا، چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ جو الیکشن کمیشن نے آرڈر کیا تھا وہ معاملہ زیر بحث نہیں ہے،علی ظفر نے کہا کہ دو ہزار انیس کے آئین کے مطابق چیئرمین اور دوسری باڈی کے انتخابات متعلق قانونی طور پر آگاہ کیا تھا،چیئرمین پانچ سال اور پینل کی مدت تین سال ہوتی ہے،جب بلامقابلہ ہو تو انتخابات کی ضرورت نہیں ہوتی ہے،ہمارے الیکشن ہی بلامقابلہ تھے ریٹرننگ افسر جیتنے متعلق اعلان کرسکتا ہے،الیکشن ایکٹ 2017 اور پاکستان تحریک انصاف کے آئین میں انٹرا پارٹی الیکشنز کو پروسیجر نہیں بتایا گیا، اگر کوئی جماعت انٹرا پارٹی انتخابات کا انعقاد کرتی ہے تو اس میں کوئی ممانعت نہیں ،پارٹی آئین کے مطابق صرف سیکیرٹ بیلٹ پیپرز کا زکر ہے، الیکشن کمیشن انٹرا پارٹی انتخابات کو بطور الیکشن ٹریبونلز ریگلویٹ نہیں کرتا، کسی بھی سیاسی جماعت کے آئین میں انٹرا پارٹی انتخابات کے رولز اور قوانین موجود ہیں نہیں ،تاہم اپیلز متعلق طریقہ کار ضرور دیا گیا ہے،الیکشن ایکٹ میں انٹرا پارٹی انتخابات اور پارٹی رجسٹریشن متعلق ہے،الیکشن ایکٹ میں بتایا گیا ہے کون پارٹی ممبر ہوگا اور کون نہیںکل بحث ہورہی تھی ستر فیصد ووٹرز ہیں،صرف ممبرز ہی ووٹ دینے کے اہل ہونگے،جب کوئی کہے گا میں ووٹ دینا چاہ رہا ہوں تو آپ ان سے ممبرشپ مانگیں گے،الیکڑول کالج ممبرز سے ہی بنتا ہے،الیکشن کمیشن کا اپنا بائیس فروری 2023 کا فیصلہ ہے جو ممبر نہیں وہ انٹراپارٹی میں ووٹ نہیں دے سکتا،جو ممبر فیس نہیں دے گا وہ ممبر نہیں کہلائے گا،کوئی بھی پارٹی کسی بھی وقت کسی ممبر کو نکال سکتی ہے،اگر کسی ممبر کو پارٹی میں رہنے کا بہت شوق ہو تو وہ سول کورٹ جائے گا،آپ نے 20 روز دیئے ہمارے قوانین کہتے ہیں چھ ہفتے چاہیے،
ممبر کمیشن نے کہا کہ نئے چیئرمین کے آنے تک چیئرمین کون تھا، وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ گزشتہ چیئرمین ہی چیئرمین تھا یہ قانون ہے، صدر مملکت بھی اپنا وقت پورا کرچکے ہیں لیکن وہ تاحال صدر ہیں، الیکشن ایکٹ چار ڈاکومنٹ فراہم کرنے کی بات کرتا ہے، ممبر کمیشن نے کہا کہ قانون کہتا ہے کہ آپ سرٹیفیکیٹ لائیں اور ویب سائٹ پر جاری کیا جائے گا،لیکن وہ سرٹیفیکیٹ کوئی چیک تو کرے گا کہ ٹھیک ہے یا نہیں،وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ آپ سرٹیفیکیٹ کی اصلیت دیکھ سکتے ہیں لیکن آپ الگ بات کررہے ہیں، ممبر کمیشن نے کہا کہ جرمانے کی بات وقت کی حد تک ہے،
وکیل پی ٹی آئی علی ظفر نے کہا کہ انتخابی نشان نہ دینے کے سنگین نتائج ہیں سیاسی جماعت کے رجسٹریشن پر سوال ہے،ممبر کے پی نے کہا کہ جب ہم مطمئن ہونگے تب ہی سرٹیفکیٹ جارہی کرسکتے ہیں،وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ انٹراپارٹی انتخابات کی تاریخ 28 نومبر کو میڈیا میں دی گئی،کہا گیا ہم ڈر رہے تھے اور چھپا کرانتخابات کروا رہے تھے،میں نے خود پریس کانفرنس کی اور بتایا انتخابات اسی ہفتے کو کرانے جارہے ہیں،انتخابات کا شیڈول ہم نے ہر دفتر کے باہر چسپاں کیا،ممبر کے پی نے کہا کہ پورے پاکستان کے انتخابات صرف پشاور میں ہوئے،علی ظفر نے کہا کہ ہر جماعت کا یہی ہوتا ہے یہ عام انتخابات نہیں،انٹرا پارٹی ہیں جو ایک جگہ ہوتے ہیں،ممبر سندھ نے کہا کہ پہلی بات جو ممبر نہیں وہ لڑ نہیں سکتے،دوسرا آپ نے کہا بلامقابلہ ہوئے تیسرا آپ نے کہا آئین میں کرانے کا طریقہ کار نہیں ہے،
بیرسٹر علی ظفر نے انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق میڈیا رپورٹس جمع کرا دیئے ، بیرسٹر علی ظفر نے مختلف میڈیا چینلز پر نشر کیے گئے خبروں کے حوالے دیئے اور کہا کہ ہم نے شیڈیول مختلف دفاتر کے باہر چسپاں کردیئے، ہم نے الیکشن کمیشن کو سیکورٹی کیلئے خط بھی لکھا ، آئی جی پولیس اور چیف سیکرٹری سے بھی بات ہوئی،کاغذات نامزدگی سے متعلق بھی خبریں رپورٹ ہوئیں، ممبر کمیشن نے کہا کہ آپ کے پاس کاغذات نامزدگی کا کوئی نمونہ ہے،آپ کے پاس کاغذات نامزدگی سے متعلق نوٹس کی کوئی کاپی ہے؟آپ ہماری تسلی کیلئے کوئی کاپی دکھائیں، چیئرمین پی ٹی آئی گوہر علی خان نے کہا کہ جی بالکل ہے لیکن یہاں پر نہیں لائے، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جب سکروٹنی مکمل ہوئی تو ہمیں پتہ چلا کہ یہ بلا مقابلہ ہے، بلا مقابلہ کے باوجود ہم نے سب کو جمع ہونے کی اجازت دی، الیکٹوریٹ باڈی میں سے کسی نے بھی الیکشن سے متعلق شکایت نہیں کی، غیر ممبر کے علاؤہ کوئی بھی آپ کے پاس نہیں آیا، ہم واحد پارٹی ہیں جن کا سب کچھ انٹرنیٹ پر موجود ہے، چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ اب تو جلسے بھی انٹرنیٹ پر ہورہے ہیں ،جس پر کمرہ عدالت میں قہقہے گونج اٹھے،وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ ہمارے 8 لاکھ 37 ہزار ووٹرز ہیں،کوئی بھی ان میں سے آپکے پاس نہیں آیا سوائے ان چند افراد کے،ان سے پوچھیں کہ اگر ممبر نہیں تو کیسے آپ الیکشن میں حصہ لیتے، ہم واحد جماعت ہیں جس کا سب ریکارڈ آئن لائن ہے رابطہ ایپ بھی ہے، چیف الیکشن کمیشن نے کہا کہ یہ جو سب آئے ہیں یہ کبھی تو آپکی پارٹی کا حصہ ہونگے،وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ سوائے اکبر ایس بابر کے کوئی ممبر نہیں رہا ان میں سے کسی نے فیس جمع نہیں کرائی کسی کے پاس کارڈ نہیں،
ممبر کمیشن نے کہا کہ آپ کے فارمز کہاں سے مل رہے تھے، وکیل علی ظفر نے کہا کہ فارمز پارٹی آفسز سے مل رہے تھے ، بڑے ہی خوبصورت اور پانچ رنگوں کے تھے,ممبر سندھ نثار درانی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ان کو تو اک رنگ کا بھی نہیں ملا ، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اگر یہ لوگ پینل لے بھی آتے پھر بھی انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے تھے، اس کی وجہ ہے کہ یہ ممبر ہی نہیں ہے،دوسری بات یہ ہے کہ انہوں نے کاغذات نامزدگی کیلئے درخواست ہی نہیں دی، ممبر کمیشن نے کہا کہ درخواست گزاروں نے یہاں ویڈیو بھی چلائی تھی ،بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اس کا تو فرانزک ہوگا اوراس کے بعد پتہ چلے گا، ہر کوئی تو نہیں کہہ سکتا کہ خلاف ورزی کی گئی ،انتخابی نشان اور الیکشن لڑنا ہمارا بنیادی حق ہے، ان درخواست گزاروں کا کوئی حق نہیں بنتا،اکبر ایس بابر نے باقی پارٹیوں کا بھی ذکر کیا صرف پی ٹی آئی کا نہیں، اب اس درخواست کا کیا کرنا ہے یہ الیکشن کمیشن کا کام ہے، کچھ درخواست گزاروں نے کہا وینیو کا پتہ نہیں چلا،انتخاب بلا مقابلہ تھا اس لیے ضروری نہیں،دوسری بات یہ ہے کہ یہ لوگ ممبر ہی نہیں، کچھ درخواست گزاروں کے پاس پینل ہی نہیں ہے، ان درخواست گزاروں کی درخواستیں مسترد کی جائیں،بیرسٹر علی ظفر کے دلائل مکمل ہو گئے.
اکبر ایس بابر کے وکیل احمد حسن نے جواب الجواب میں کہا کہ کسی ممبر کا ذکر نہیں بلکہ فرد کا ذکر ہے ،آپ نے آئین میں بتانا ہے کہ پروسیجر کیا ہونا چاہیے ،اکبر ایس کی ممبرشپ سے متعلق فیصلے لگادیئے ہیں،اکبر ایس بابر پارٹی کے سابق عہدے دار رہے ہیں ،انہوں نے اکبر ایس بابر کو کب شوکاز نوٹس دیا وہ کہاں ہے ؟ممبر کمیشن نے سوال کیا کہ آپ کی استدعا کیا ہے؟وکیل اکبر ایس بابر نے کہا کہ ہم صرف دوبارہ جلد از جلد انٹرا پارٹی انتخابات چاہتے ہیں ، اکبر ایس بابر کے وکیل نے انٹرا پارٹی انتخابات دربارہ کروانے کی استدعا کر دی
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن کے حکم پر پی ٹی آئی نے 3 دسمبر کو انٹرا پارٹی انتخابات کا انعقاد کیا، جس میں بیرسٹر گوہر بلامقابلہ چیئرمین جبکہ عمر ایوب جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے، اس کے علاوہ یاسمین راشد پنجاب کی صدر اور علی امین گنڈا پور خیبرپختونخوا کے صدر منتخب ہوئےپی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے ایک روز قبل انٹرا پارٹی انتخابات کو الیکشن کمیشن میں چیلنج کرتے ہوئے سارے عمل کو مشکوک قرار دیا تھا۔
پی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشن،یہ دھاندلی نہیں دھاندلا ہوا ہے،مریم اورنگزیب
اسلامی شرعی احکامات کا مذاق اڑانے پر عمران نیازی کے خلاف راولپنڈی میں ریلی نکالی
ویڈیو آ نہیں رہی، ویڈیو آ چکی ہے،کپتان کا حجرہ، مرشد کی خوشگوار گھڑیاں
خاور مانیکا انٹرویو اور شاہ زیب خانزادہ کا کردار،مبشر لقمان نے اندرونی کہانی کھول دی
ریحام خان جب تک عمران خان کی بیوی تھی تو قوم کی ماں تھیں
خاور مانیکا کے انٹرویو پر نواز شریف کا ردعمل
بشریٰ بی بی کی سڑک پر دوڑیں، مکافات عمل،نواز شریف کی نئی ضد، الیکشن ہونگے؟
جعلی رسیدیں، ضمانت کیس، بشریٰ بی بی آج عدالت پیش نہ ہوئیں
عمران خان، بشریٰ بی بی نے جان بوجھ کر غیر شرعی نکاح پڑھوایا،مفتی سعید کا بیان قلمبند