مسئلہ کشمیر اور ہماری ذمہ داریاں

0
78

پہلی بات انڈیا میں کئی کروڑ مسلمان آباد ہیں۔ اور وہ ہندوں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ آخر کشمیری ہی کیوں انڈیا سے جنگ لڑ رہے ہیں؟ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ صرف اپنی ذات کے لیے لڑ رہے ہیں تو وہ تصحیح فرما لے۔ کشمیری تکمیل پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں اور پاکستان کشمیر کے بغیر نا مکمل ہے۔ یہ جنگ صرف ان کی ہی نہیں بلکہ وہ ہمارے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔ پاکستان کے دریاؤں کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ پاکستان کے بڑے منصوبے سی پیک کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں۔ اگر ہم کشمیر کے لیے آواز اٹھاتے ہیں تو یاد رکھیں یہ ہم کشمیریوں کے لیے ہی نہیں بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں۔تو میرے پاکستانیوں اب یہ آواز تب تک بند نہیں ہونی چاہئیے جب تک پاکستان مکمل نہیں ہو جاتا۔ جب تک ہم اپنی شہ رگ دشمن سے چھڑوا نہیں لیتے۔

اب اگلی بات ہمیں کیا کرنا چاپئیے۔ اس کے لیے تاریخ اسلام سے رہنمائی لینے کی ضرورت ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اپنے حاکم کی ) سنو اور اطاعت کرو ، خواہ ایک ایسا حبشی ( غلام تم پر ) کیوں نہ حاکم بنا دیا جائے جس کا سر سوکھے ہوئے انگور کے برابر ہو۔ ( صحیح بخاری ، 693)یعنی کبھی بھی اسلامی حکومت کے خلاف بغاوت نہیں کرنی۔ ہاں ہم ان کو احسن انداز میں تلقین ضرور کر سکتے ہیں۔جیسے کہ امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے لاکھوں فرزندان توحید تھے مگر آپ نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں مگر اسلامی حکومت کے خلاف بغاوت نہیں کی۔امام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ کے پاس ایک جری لشکر ہونے کے باوجود کبھی اسلامی حکمران کے خلاف جنگ نہیں کی بلکہ تیر و تلوار کا رخ کفار کی طرف ہی رکھا۔ کبھی اپنوں کی طرف نہیں کیا۔

لہزا میرے وطن کے نوجوانوں کشمیریوں کے لئے خون کو بہتا دیکھ کر آپ کا خون کھولنا فطری تقاضا ہے اور قابل قدر بھی ہے۔ مگر یاد رہے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان، امام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ اور امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے کرداروں کو مد نظر رکھنا چاہئیے۔

تیسری بات حکمرانوں کے نام۔
ان حالات میں بھی تاریخ اسلام کو کھنگالنا ہو گا۔بدر کے موقع پر چند تلواریں اور صرف دو گھوڑے تھے۔ مگر 313 اہل ایمان نے کفار کو بدترین شکست دی۔ یعنی جنگ کے لیے سامان حرب کا پورا ہونا ضروری نہیں۔ اللہ کی نصرت پر یقین ہونا چاہئیے۔تبوک کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی معاشی حالت کو نہیں دیکھا۔ پکی ہوئی فصلیں چھوڑ کر غیرت و حمیت کا راستہ اختیار کیا۔ یعنی جب مسئلہ غیرت و حمیت کا ہو تو معاشی حالت نہیں دیکھی جاتی۔اور موتہ کے مقام پر جب 3 ہزار کا لشکر شامیوں اور رومیوں کے 2 لاکھ کے لشکر سے ٹکرا گیا۔ چشم فلک نے دیکھا 2 روز تک جاری رہنے والی جنگ میں صرف 12 مسلمان شہید ہوئے اور دشمن محاز چھوڑنے پر مجبور ہوا۔ یعنی جنگ میں تعداد نہیں دیکھی جاتی۔

اور ہاں محمد بن قاسم ایک مسلمان بہن کے خط کے جواب میں راجہ داہر کی فوجوں سے ٹکرا گیا۔ ہاں میرے ملک پاکستان کے حکمرانوں کشمیری اپنے خوں میں نہائے جسموں ، پیلٹ گنوں سے چھلنی آنکھیں اور پاکستانی پرچم میں لپٹی لاشوں کو لئیے آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔اور کئی دہائیوں سے دیکھ رہے ہیں۔انہیں مایوس نہ کیجیے گا۔ عزت کا راستہ اختیار کیجیے گا۔ بڑے فیصلے لینے میں مت ہچکچائے گا۔ اس قوم میں ایمان کی حرارت باقی ہے۔ یہ قوم آپ کی ہر ایک صدا پر لبیک کہے گی۔
کیونکہ
ابھی تکمیل باقی ہے
ابھی کشمیر باقی ہے

Leave a reply