ضمانت خارج ہونے کے باوجود خاوند کے قتل میں ملوث ملزمہ گرفتار نہ ہوسکی

0
56

ضمانت خارج ہونے کے باوجود خاوند کے قتل میں ملوث ملزمہ گرفتار نہ ہوسکی

اسلام آباد(شبیرسہام سے)سوشل میڈیا کے ذریعے ہونے والی دوستی نے ایم اے پاس27 سالہ شادی شدہ خاتون کو مڈل پاس 20 سالہ لڑکے کی محبت میں اس قدر اندھا کر دیاکہ خاتون نے اپنی شادی کے صرف ایک ماہ بعد آشناء کے ساتھ مل کر اپنے مجازی خدا کو قتل کروا دیا۔تھانہ کوہسار میں واقعہ کا مقدمہ درج ہوا۔تفتیش شروع ہوئی اور پھر ملزم جوڑا قانون کی گرفت میں آگئے۔ملزمان نے اعتراف جرم بھی کرلیا۔تاہم ملزمہ کی گرفتاری کے ٹھیک تین ماہ بعد مقامی عدالت نے اس کی ضمانت منظور کرلی اور وہ رہا ہوگئی۔مقتول نوجوان کے لواحقین نے ملزمہ کی ضمانت منسوخی کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے ملزمہ کی ضمانت منسوخی کے آڈر جاری کر دیئے۔لیکن ہائی کورٹ کے اس آڈر کو چار ماہ گزرنے کے باوجود پولیس ٹس سے مس نہ ہوئی اور ملزمہ کی گرفتاری تاحال نہ ہوسکی۔

اس دلخراش واقعہ کے حوالے سے موصولہ معلومات کے مطابق بہارہ کہو اسلام آباد کے رہائشی اور عراق ایمبیسی میں تعینات نوجوان آفیسر محمد شکیل کی شادی 15 اکتوبر 2021ء کو اپنی کزن عائشہ بی بی کے ساتھ ہوئی۔شادی کے ٹھیک ایک ماہ بعد 14 نومبر 2021ء کو عائشہ اپنے خاوند شکیل کو سیر و تفریح کے بہانے دھوکے سے دامن کوہ پتھر پوائنٹ پر لے گئی۔جہاں اس کا آشناء عبدالمنان نامی نوجوان پہلے سے موجود تھا۔ملزم عبدالمنان نے شکیل کے سر پر پہلے ڈنڈے سے حملہ کیا۔پھر سر پر گولی چلاکر اس کی جان لے لی۔واقعہ کو ڈکیتی کا رنگ دینے کے لئے عائشہ نے اپنی طلائی انگوٹھیاں اور مقتول شکیل کا پرس نکال کر عبدالمنان کے حوالے کیا۔جو موقع سے بائیک پر فرار ہوگیا۔جس کے بعد ملزمہ نے پولیس کو کال کرکے اطلاع دی کہ نامعلوم ڈکیت لوٹ مار کے دوران میرے خاوند کو مار کر فرار ہوگیا ہے۔تاہم تھانہ کوہسار پولیس نے واقعہ کا مقدمہ درج کیا۔تفتیش شروع ہوئی تو اصل حقیقت کھل کر سامنے آگئی۔پولیس نے ملزم عبدالمنان اور ملزمہ عائشہ کو گرفتار کرکے تحقیقات کا دائرہ کار وسیع کیا تو ملزم جوڑے نے اعتراف جرم کرتے ہوئے سب کچھ سچ سچ اگل دیا۔

پولیس ریکارڈ کے مطابق مانسہرہ سے تعلق رکھنے والی27 سالہ ملزمہ عائشہ بی بی دختر شیر محمد نے یونیورسٹی آف ہزارہ سے ایم اے اسلامیات کی ڈگری حاصل کی اور مقامی سکول میں ایک سال تک پڑھاتی بھی رہی۔وقوعہ سے ایک سال قبل اسے ایک وٹس ایپ گروپ ”فرینڈز فار ایور“ میں ایڈ کیا گیا۔اس وٹس ایپ گروپ میں 20 سالہ عبدالمنان نامی نوجوان بھی ایڈ تھا۔ جس سے اس کی دوستی ہوگئی۔ملزم عبدالمنان صرف مڈل تک ہی تعلیم حاصل کرسکا تھا اور فوڈ پانڈہ میں نوکری کرتا تھا۔دونوں نے شادی کا منصوبہ بنایا۔لیکن چونکہ عائشہ کی شادی اس کے خالہ زاد شکیل کے ساتھ طے ہوچکی تھی۔اور یوں نا چاہتے ہوئے ایک سال بعد عائشہ کی شادی شکیل کے ساتھ ہوگئی۔ملزم جوڑے نے شادی کے ٹھیک ایک ماہ بعد 14 نومبر 2021ء کو شکیل کو راستے سے ہٹا دیا اور یوں دونوں قانون کے شکنجے میں آگئے۔

پولیس ریکارڈ کے مطابق ملزم عبدالمنان نے پولیس کو قتل کا پلان بنانے کے حوالے سے بتایاکہ وقوعہ سے ایک ہفتہ قبل مجھے عائشہ نے بہارہ کہو بلوایا اور مجھے اٹھال چوک بہارہ کہو میں بنے فلائی اوور کے اوپر 250 امریکی ڈالر دیئے۔اس وقت عائشہ کے ساتھ ایک بوڑھی خاتون اور ایک جوان لڑکی بھی ساتھ تھیں۔اس نے چلتے چلتے مجھے ہاتھ میں ڈالر دیئے۔یہ ڈالر میں نے سیکٹر ایف ٹین اور بلیوایریا کے منی ایکسچینج میں فروخت کئے۔جس سے مجھے 43 ہزار روپے ملے۔اس رقم میں سے 15ہزار روپے کا پسٹل تیس بور خریدا۔جب میں نے پسٹل خریدا تو عائشہ کو بتایا۔اس کے بعد ہم دونوں نے شکیل کو قتل کرنے کے لئے مختلف جگہوں کا انتخاب کیا۔جن میں مانسہرہ، لیک ویو پارک، مری اور دامن کوہ شامل تھیں۔ جس پر ہم دونوں نے دامن کوہ کی جگہ کو انتخاب کیا۔13 نومبر2021ء کو میں اپنے دوستوں کو بہانے سے لے کر دامن کوہ گیا اور مختلف جگہوں کو چیک کیا تو پتھر والا پوائنٹ مجھے سب سے محفوظ جگہ لگی۔جس کے بارے میں عائشہ کو سنیپ چیٹ کے ذریعے بتایا۔جس پر اس نے کہاکہ میں شکیل کو کل لے کر دامن کوہ آؤں گی۔تم بھی وہاں آجانا۔گھر کے واحد کفیل کی اچانک موت، تھانے کچہری اور عدالتوں کے چکر میں ایک سال کے دوران مقتول خاندان پندرہ لاکھ روپے سے زائد رقم وکلاء ،پولیس اور بھاگ دوڑ پر لگا بیٹھے ہیں۔لیکن انہیں انصاف ملتا نظر نہیں آرہا۔

مقتول کی بوڑھی بیوہ والدہ گلشن بی بی کا کہنا ہے کہ شکیل کے قتل کو ایک سال بیت گیا۔اس ایک سال کے دوران کیس کے پانچ تفتیشی آفیسر تبدیل ہوئے۔ہمیں وکیل بھی بدلنے پڑے۔تمام جمع پونجی کیس پر لگا بیٹھے ہیں۔لیکن ابھی بھی ہمیں انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔پولیس ملزمہ عائشہ کو گرفتار کرنے کو تیار نہیں۔وہی میرے بچے کی قاتلہ ہے۔جس نے ہمارے ہنستے بستے گھر کو اجاڑ دیا ہے۔میرے مقتول بیٹے شکیل کی ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ تھی۔ہم ایک خوشحال زندگی گزار رہے تھے۔میرے باقی بیٹے چھوٹے ہیں۔جن میں ایک بیٹا بول نہیں سکتا۔ہماری حکام بالا سے مطالبہ ہے کہ میرے بیٹے کی قاتلہ اس کی بیوی کو گرفتار کیا جائے اور اسے کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔

نور مقدم کیس اور مبشر لقمان کو دھمکیاں، امریکہ کا پاکستان سے بڑا مطالبہ، ایک اور مشیر فارغ ہونے والا ہے

جب تک مظلوم کوانصاف نہیں مل جاتا:میں پیچھے نہیں ہٹوں‌ گا:مبشرلقمان بھی نورمقدم کے وکیل بن گئے

آج ہمیں انصاف مل گیا،نور مقدم کے والد کی فیصلے کے بعد گفتگو

انسانیت کے ضمیرپرلگے زخم شاید کبھی مندمل نہ ہوں،مریم نواز

مبارک ہو، نور مقدم کی روح کو سکون مل گیا، مبشر لقمان جذباتی ہو گئے

نور مقدم کیس میں سیشن کورٹ کا فیصلہ خوش آئند ہے ،اسلامی نظریاتی کونسل

Leave a reply