کیا کوئی بھی رکن وزیراعظم پر عدم اعتماد کا اظہار کر سکتا ہے؟ سپریم کورٹ

سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی

چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ سماعت کررہا ہے، اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کی جانب سے دوسرے روز دلائل شروع کر دیئے گئے ، اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارلیمنٹ میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں ہوتی ہیں،مخصوص نشستوں والے ارکان نے عوام سے ووٹ نہیں لیا ہوتا ہے، مخصوص نشستوں والے ارکان بھی سندھ ہاؤس میں موجود تھے،مخصوص نشستیں پارٹی کی جانب سے فہرست پر ملتی ہیں،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ خیانت کی قرآن میں بہت سخت سزا ہے، اعتماد توڑنے والے کو خائن کہا جاتا ہے،آپکے مطابق پارٹی کو ووٹ نہ دینے والے خیانت کرتے ہیں؟کیا کوئی رکن بھی ڈکلیئریشن دیتا ہے کہ پارٹی ڈسپلن کا پابند رہے گا،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آئین میں کہیں واضح نہیں کہ پارٹی سے وفادار رہنا ہے یا نہیں،جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا ممبر شپ فارم میں رکن ڈکلیئریشن دیتا ہے کہ ڈسپلن کا پابند رہے گا؟ اگر پارٹی ممبر شپ میں ایسی یقین دہانی ہے تو خلاف ورزی خیانت ہو گی، جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا ہوتا ہے،اگر وزیراعظم آئین کی خلاف ورزی کرے تو کیا ممبر ساتھ دینے کا پابند ہے؟کیا کوئی بھی رکن وزیراعظم پر عدم اعتماد کا اظہار کر سکتا ہے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارٹی ٹکٹ ایک سرٹیفکیٹ ہے جس پر انتحابی نشان ملتا ہے وزیراعظم اور رکن اسمبلی کے حلف میں فرق ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ووٹر انتحابی نشان پر مہر لگاتے ہیں کسی کے نام پر نہیں، پارٹی کے نشان پر الیکشن لڑنے والے جماعتی ڈسپلن کے پابند ہوتے ہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ برصغیر میں بڑے لیڈرز کے نام سے سیاسی جماعتی آج بھی قائم ہیں، مسلم لیگ اور کانگریس بڑے لیڈرز کی جماعتیں ہیں،پارلیمانی جمہوریت میں پارلیمانی پارٹی اجلاس ہوتے ہیں،اراکین اسمبلی ربڑ ا سٹمپ نہیں ہوتے، پارٹی فیصلے سے متفق نہ ہوں تو مستعفی ہوا جا سکتا ہے، پارٹی اختلاف کا یہ مطلب نہیں کہ حکومت کیخلاف جایا جائے،رضا ربانی نے پارٹی ڈسپلن کے تحت فوجی عدالتوں کے حق میں ووٹ دیا،یقین ہے رضا ربانی نے نااہلی کے ڈر سے ووٹ نہیں دیا ہوگا،پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والا جماعت کے ڈسپلن کا بھی پابند ہوتا ہے،

جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہر شخص کو آئین اپنے خیالات کے آزادانہ اظہار کا حق دیتا ہے،کیا خیالات کے اظہار پر تاحیات نااہلی ہونی چاہیے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اراکین اسمبلی صرف 4مواقع پر آزادی سے ووٹ نہیں دے سکتے،بطور ایڈووکیٹ جنرل سندھ ہاؤس میں رہتا تھا، سندھ ہاؤس میں ایسی کوئی ڈیوائس نہیں تھی جو ضمیر جگائے ،حکومتی جماعت کے لوگوں کا سندھ ہاؤس میں جاتے ہی ضمیر جاگ گیا، جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ وزیراعظم ملک کے خلاف کوئی فیصلہ کریں تو کیا رکن مخالفت نہیں کر سکتا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملک کے خلاف کام ہونے پر رکن خود کو پارٹی سے الگ کر سکتا ہے،جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیاکہ پارٹی سے اختلاف کرنے والا شخص کیا دوبارہ مینڈیٹ لے سکتا ہے؟

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو بتانا ہوگا کہ رکن تاحیات نااہل کب ہوگا؟ 62ون ایف کوالی فکیشن کی بات کرتا ہے ،62ون ایف میں نااہلی کی بات نہیں کی گئی، ذاتی مفاد کیلئے اپنے لوگوں کو چھوڑ کر جانا بے وفائی ہے،پارٹی کے اندر جمہوریت ہوتو آرٹیکل 63 اے کی ضرورت نہیں رہتی، آرٹیکل63 اے کی خوبصورتی ہے کہ اسے استعمال کرنے کا موقع ہی نہ ملے،جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ کیا مناسب نہ ہوتا کہ صدر پارلیمانی جماعتوں کوبلا کر مشورہ کرتے،کیا عدالت سے پہلے سیاسی جماعتوں سے مشورہ کرنا مناسب نہیں ہوتا؟ پارلیمانی جماعتوں سے ملکر آئین میں ترمیم ہو سکتی تھی، اٹارنی جنرل نے کہا کہ غلام اسحاق اسی طرح سب کو بلایا کرتے تھے،جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ ابھی تو کسی نے انحراف کیا ہی نہیں آپ ریفرنس لے آئے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ جرم کو ہونے سے روکنا مقصد ہے،جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ جرم ہونے سے پہلے سزا کیسے دی جا سکتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون واضح کرنے کیلئے عدالت آئے ہیں،جرم ہو تو سزا دینے کے لیے قانون واضح ہونا چاہیے،جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آئین کی تشریح کرنا اس سپریم کورٹ کا کام ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ حسبہ بل کے ڈرافٹ پر ہی حکومت عدالت آگئی تھی،حسبہ بل ریفرنس میں بھی قانون نہ بننے کا اعتراض آیا تھا ،سپریم کورٹ نے بل کی منظوری نہ ہونے کا اعتراض مسترد کر دیا تھا

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے آرٹیکل 63 اے کے تحت اعتراف کے نتائج کا تعین کرنا ہے، جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ کیا عدالت ریفرنس میں جوڈیشل اختیارات استعمال کرسکتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے اٹھارہویں ترمیم پر ہونے والے پارلیمانی بحث عدالت میں پیش کردی. چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ خالی جگہ عدالت نے پر کرنی ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 62ون ایف میں بھی خالی جگہ موجود ہے،عدالت نے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح کر دی،

جسٹس جمال خان نے کہا کہ لوٹوں کو سپورٹ کرنے والا آخری شخص ہوں گا،پارٹی سے انحراف کرنے والے کے خلاف الیکشن کمیشن کا فورم موجود ہے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ کسی کی بھوک مٹانے کے لیے چوری کرنا بھی جرم ہے، جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ کوئی چوری کرنے والے کا ساتھ جائے تو کیا ہو گا؟ صدر مملکت کو ایسا مسئلہ کیا ہے؟ جو رائے مانگ رہے ہیں، صدر کے سامنے ایسا کونسا مواد ہے جس پر سوال پوچھے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت صدارتی ریفرنس پر رائے دینے کی پابند ہے، جسٹس جمال خان نے کہا کہ کیا عدالت آئین میں کسی فل ا سٹاپ کا بھی اضافہ کر سکتی ہے؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل62اور63میں براہ راست تعلق ثابت کروں گا، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین کے کسی آرٹیکل کو الگ سے نہیں پڑھا جاسکتا،آرٹیکل62اور63 کو ملا کر پڑھا جاتا ہے، پارلیمانی بحث میں ہارس ٹریڈنگ کو کینسر قرار دیا گیا ہے،

آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت پیر تک ملتوی کر دی گئی، ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ گزشتہ روزعدالت نے جلسوں کے بارے میں یقین دہانی لی،ایک پارٹی اجازت کی خلاف ورزی کرکے کشمیر ہائی وے بلاک کررہی ہے، کامران مرتضیٰ نے کہا کہ مجھے کچھ دیر پہلے شوکاز نوٹس جاری کیا گیا اس کو بیٹھ کر حل کریں گے

جسٹس اعجاز الاحسن نےکہا کہ صدر نے آئین کی تشریح کا کہا ہے، تشریح سے ادھر ادھر نہیں جاسکتے،ممکن ہے ریفرنس واپس بھیج دیں ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن ایکٹ 2017 بناتے وقت کس چیز کا خوف تھا؟ پارلیمنٹ نے آئین میں ڈی سیٹ سے زیادہ کچھ نہیں لکھا،اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل62ون ایف کے تحت تا حیات نااہلی بھی پارلیمنٹ نے نہیں کی،جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ اگر تمام جماعتیں متفق ہیں تو آئین میں ترمیم کر لیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین ازخود نہیں بلکہ عدالتوں کے ذریعے بولتا ہے ،آئین کی درست تشریح عدالت ہی کرسکتی ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ قانون سازی کے ذریعے بھی آرٹیکل 63 اے کے تحت نااہلی شامل کی جاسکتی تھی،جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر ووٹ شمار نہ ہو تو دوسری کشتی میں جانے کی ضرورت نہیں رہے گی، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا آرٹیکل 63 اے آزادی اظہار رائے پر پابندی نہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ دفعہ 302 بھی قتل سے نہیں روکتی لیکن جیل جانا پڑتا ہے، جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ قتل تو 302 کی سزا کے باوجود بھی ہو رہے ہیں، آرٹیکل 63 اے کے تحت رکن اپنی رائے کا اظہار کر سکتا ہے؟رکن پارٹی ڈائریکشن کی خلاف ورزی کرے گا تو آئینی نتائج بھگتے گا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کے تحت آج تک کوئی نااہل نہیں ہوا،آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی پر پیسے لینا ثابت کرنا ضروری نہیں، آئندہ سماعت پر دو گھنٹے میں دلائل مکمل کر لوں گا، اٹارنی جنرل نے پیر 2بجے تک دلائل مکمل کرنے کی یقین دہانی کروا دی

مریم اورنگزیب کو اسمبلی جانے سے روکا گیا،پولیس کی بھاری نفری تھی موجود

پی ٹی آئی اراکین واپس آ جائیں، شیخ رشید کی اپیل

پرویز الہیٰ سے پیپلزپارٹی کے رکن اسمبلی،بزدار سے ن لیگی رکن اسمبلی کی ملاقات

لوٹے لے کر پی ٹی آئی کارکنان سندھ ہاؤس پہنچ گئے

کرپشن مکاؤ کا نعرہ لگایا مگر…ایک اور ایم این اے نے وزیراعظم پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا

ہمارا ساتھ دو، خاتون رکن اسمبلی کو کیا آفر ہوئی؟ ویڈیو آ گئی

بریکنگ، وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد، قومی اسمبلی کا اجلاس طلب

آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے ریفرنس، اٹارنی جنرل سپریم کورٹ پہنچ گئے

پیکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواستوں پر سماعت ملتوی

کسی کو ووٹ دینے سے روکا نہیں جاسکتا،سپریم کورٹ

صدارتی ریفرنس کی سماعت کیلیے لارجر بینچ کی تشکیل ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا چیف جسٹس کو خط

عدلیہ اورججز پرانگلیاں اٹھانا، ججز پر الزامات لگانا بند کریں،جس پراعتراض ہے اس کا نام لیں،چیف جسٹس

Shares: