مڈل کلاس پاکستانی کی زندگی، تحریر: عنقودہ

0
40

‏آپ گاڑی کسی مکینک کی ورکشاپ پر کھڑی کرجاتے ہیں لیکن باقی وقت اسی غم میں گذرجاتا ہے کہ پتہ نہیں وہ انجن کی اوورہالنگ کے 40000 میں سے کتنے پیسے لگائے گا اور کتنے اپنی جیب میں ڈالے گا، کمپوننٹ اوریجنل ڈالے گا یا نقلی کوالٹی کے ڈالے گا، سامان پرانا ڈال دے گا، یا ڈالے گا ہی نہیں۔۔
آپ گاڑی کسی رشتہ دار کے گھر کے ساتھ گلی میں کھڑی کرجاتے ہیں لیکن ساری رات اسی ٹینشن میں گذرجاتی ہے کہ پتہ نہیں کوئ اڑا ہی نہ لے جائے، کوئ ٹائر ہی نہ کھول لے جائے۔۔
کسی الیکٹرانک شاپ سے کوئ چیز خریدتے وقت اچھی اور بری کوالٹی کا سیاپا ہی رہتا ہے…
شوز کی کسی شاپ سے بھی اچھے اور برے مال پر تول مول چلتا رہتا ہے…
کپڑے لیتے وقت دکان دار سے صرف اس غرض سے دوستی بڑھائ جاتی ہے کہ کہیں وہ خراب کوالٹی کا کپڑا اچھی کوالٹی کا بول کے نہ دے دے۔۔ اس سے خوامخواہ میں ڈاک خانہ ملایا جاتا ہے، یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ہم پہلے بھی آپکی شاپ سے اتنا کپڑے لے کر گئے ہیں ، اگلی بار اور گاہک بھی لائیں گے لیکن پلیز ہمیں کپڑ ا اچھی کوالٹی کا دینا اور پیسے بھی کم لگانا۔۔۔۔
رشتہ لیتے وقت بھی یہی ٹینشن رہتی ہے کہ پتہ نہی دوسرا فریق کتنی غلط بیانیاں کررہا ہوگا۔ لڑکی کیسی ہوگا، لڑکا کیسا ہوگا، نشہ تو نہیں کرتا۔۔ کاروبار کیا ہے؟ پہلے سے شادی شدہ تو نہیں؟ وغیرہ وغیرہ

کہیں پلاٹ لے لیا تو اسکی ہزار دفعہ چھان بین کریں گے۔۔ سب یہی مشورہ دیں گے کہ جلدی سے پلاٹ کی نشانیاں لگا لو, چاردیواری پھیر لو ایسا نہ ہو کہ کوئ قبضہ ہی کرلے.
مکان کرائے پر دیتے وقت کرائے دار سے بھی یہی مطالبہ ریتا ہے کہ بھائ وقت پر خالی کردینا اور قبضہ نہ کرلینا..
مکان بنواتے وقت ہر وقت ٹھیکے دار کے سر پر کھڑا رہنا پڑتا ہے ورنہ یہی پریشانی رہتی ہے کہ پتہ نہیں وہ میٹریل کس کوالٹی کا استعمال کرتا ہوگا. شارٹ کٹ تو نہیں لے رہا..
کوئ قریبی جاننے والا پیسے مانگ لے تو آپ پیسے ہوتے ہوئے بھی اس سے جان چھڑالیتے ہیں کیونکہ آپ کو یہی خدشہ ہوتا ہے کہ یہ میرا پچاس ہزار اگلے پانچ سالوں میں بھی نہیں لوٹائے گا، اسکے پیچھے ذلیل ہونا پڑے گا۔۔ 50 ہزار کے وہ پچاس ٹکڑے کرکے واپس کرے گا، چونیاں اٹھنیاں آپکے کام کے کسی کام نہ آئیں گی ۔۔
ریڑھی والے کے سر پر بھی کھڑے ہوجاؤ کہ ٹماٹر اچھے ڈالنا لیکن وہ پھر بھی ڈنڈی مارجائے گا..
قصائ سے گوشت لیتے وقت بار بار زبان ہونٹوں پر پھیری جاتی ہے کہ پتہ نہیں یہ گوشت بکرے کا ہے یا گدھے گا….
بازار میں جاؤ تو ایک ہاتھ جیب پرہی رہتا ہے کہ کہیں کوئ پاکٹ نہ مارلے۔۔۔

ٹرین میں سفر کررہے ہیں تو سامان پر نظر رکھنے کے لیے ایک بندے کو جاگ کر رہنا پڑتا ہے. ۔۔
تھانے، کچہری کا چکر خدا کسی کو نہ لگوائے اور کوئ تھانے کچہری کے چکر میں پڑہی گیا تو بے گناہ ، مظلوم اور مدعی ہونے کے باوجود عزت بھی جاتی ہے، پیسہ بھی جاتا ہے اور وقت بھی۔۔
آپ جس جس شعبہ زندگی پر نظر ڈالتے جائیں یہی کہانیاں ملیں گی.. میں یہ نہیں کہتی کہ سب لوگ ایک جسے ہیں لیکن یہ تناسب 80 اور 20 کا رہتا ہی ہے
ایک مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس پاکستانی اس چکی میں ہمشہ پستا ہی رہتا ہے
ہمارا مجموعی معاشرہ بھی اسی منافقت. مفاد پرستی. لالچ ,جھوٹ اور بے حسی پر مشتمل ہے جبکہ ہر دوسرا آدمی ان باتوں کا گلہ بھی کرتا ہے اور خود ہی ا ن خرابیوں میں حصہ دار بھی ہوتا ہے۔“

Leave a reply