مشکل ہے ناممکن نہیں، تحریر:سفینہ خان

0
47

امریکہ کا افغانستان سے انخلا کے بعد اشرف غنی کی حکومت کا خاتمہ اور طالبان کا بغیر کسی خون خرابے اور بنا کوئی گولی چلائے اپنی حکومت قائم کر لینا جہاں پوری پوری دنیا کے لئے حیران کن تھا۔ وہاں بھارت کی بدترین اور ناقابل یقین شکست بھی ہے۔

طالبان نے جہاں افغانستان میں امریکی قیادت میں قائم نیٹو افواج کے خلاف 20 سالہ جنگ جیت لی ہے۔ وہاں دوسری طرف افغانستان سے بھارت نے نا صرف اپنا اثر ور سوخ کا خاتمہ کیا ہے بلکہ دہلی نے ایک ہی جھٹکے میں اپنی مضبوط گرفت بھی کھو دی ہے۔جہاں بھارت کو افغانستان میں بہت بڑی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ وہاں پاکستان نے بھارت کے نکل جانے کے بعد اپنی دو بڑی مشرقی اور مغربی سرحدوں کو محفوظ بنا کر بہت بڑی تاریخی کامیابی سے بھی ہمکنار ہوا ہے۔سونے پر سہاگہ پاکستان کے آئی ایس آئی کے چیف فیض حمید کا کابل پہنچنا اور صحافیوں سے بات چیت کے دوران ہاتھ میں پکڑا چائے کا کپ پوری دنیا کے میڈیا پر متوجہ کا باعث بن گیا۔ گویا ان کے ہاتھ میں پکڑا چائے کا کپ بھارتیوں کے زخموں پر نمک چھڑک گیا ۔ بھارتی ایسے تھڑپے جیسے چائے کا کپ نا ہو گیا بمب کا گولہ ہو گیا۔

افغانستان میں پھنسے فوجیوں کا افغانستان سے بحفاظت انخلا اور ان کی پاکستان میں قیام اور پھر سی آئی اے کے چیف کا پاکستان جانا اور پاکستان کے آرمی چیف جرنل قمر باجوہ سمیت آئی ایس آئی کے چیف فیاض حمید سے مولقات کے دوران ان کے تعاون اور پاکستان کے کردار کی تعریف بحرحال بھارت کے لئے ایک اور شدید ترین صدمہ ہے۔بھارت کے ہاتھ سے صرف افغانستان پر قبضے اور ایشا ممالک پر تھانیدار بن کر بیٹھنے کا خواب ہی چکنا چور نہی ہوا ۔ بلکہ بھارت کی کھربوں کی افغانستان میں انویسٹمنٹ بھی ڈوب گئی ہے۔بھارت کی شکست اور بےبسی کا اندازہ اپ بھارتی میڈیا اور ان کے ریٹائرڈ جرنلز کی چیخ و پکار سے بخوبی لگا سکتے ہیں ۔بھارتی میڈیا کے جذباتی نیشنلسٹ طبقہ تو اتنا اگ بگولہ ہوا بیٹھا ہے ۔کہ کبھی وہ پنجشیر سے متعلق ویڈیو گیمز کے کلپ لگا کرجھوٹی اور من گھڑت کہانیاں پھیلاتا ہے اور دوسری طرف کابل سرینا ہوٹل میں قائم تصوراتی فیفتھ فلور میں ٹھہرے پاکستان کے آئی یس آئی کے جوانوں کے بارے میں پھیلایا جھوٹ بھی سینہ تان کے پوری دنیا کو ثابت کرنا چاہتا ہے کہ سب کچھ پاکستان ہی کروا رہا ہے۔

بھارت اس وقت زخمی سانپ بنا بیٹھا ہے۔ وہ پاکستان پر بے درپے وار کر کے افغانستان میں اپنی شکست کا بدلہ لینا چاہتا ہے۔پاکستان میں پچھلے ہفتے نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کا اچانک سیکورٹی ایشوز اور دہشتگردی کے خطرے کے ڈر سے کر کرکٹ سیریز کھیلے بغیر ہی چلے گئے۔ اور آج انگلینڈ اور ویلز کے کرکٹ بورڈ نے بھی دورہ پاکستان منسوخ کر دیا۔ جو کہ بلاشبہ پاکستان کے لئے ایک دھچکہ ہے ۔ پاکستان کرکٹ شائقین کے لئے یہ ضرور بری خبر ہے لیکن اتنی بھی بری خبر نہی کہ اسے خوشی میں نا بدلہ جا سکے۔ اگر ابھی بھی پاکستان کی حکومت اور ریاستی ادارے چاہیں ۔تو انٹرنیشنل ٹیموں کو نا سہی انٹرنیشنل کھلاڑیوں کو پاکستان بلا کر کرکٹ کے میدان سجا کر پوری دنیا کو پیغام دیا جا سکتا ہے کہ پاکستان نا صرف سب کے لئے محفوظ ہے ۔ بلکہ کسی ٹیم کے آنے یا نا آنے سے کھیل رک نہی جایا کرتے۔

بھارت اب آرام سے نہی بیٹھے گا۔ وہ پاکستان کو ہر طرح سے نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا ۔ اور اس کے لئے پاکستان اور ان کے ان کے ریاستی اداروں کو دشمن کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے تیار رہنا ہو گا ۔کیونکہ جس فیفتھ جنریشن وار کا ذکر ہمارے سابقہ ڈی جی آئی ایس پی آر جرنل غفور کیا کرتے تھے ۔ شائد اب اس وار کی سمجھ ہمارے پاکستانی نوجوانوں کو بھی آنے لگی ہے۔ کہ اب جنگیں صرف گولی ، بندوق سے ہی نہی ٹیکنالوجی کی ذریعے بھی لڑی جائے گی ۔جس میں سب سے زیادہ سامنا فیک نیوز پھیلا کر پاکستان کی ریاست اور ریاستی اداروں کو بدنام کرنے کی کوشش کرنا شامل ہے۔امریکہ کا پاکستان پر غصہ سمجھ میں آتا ہے ۔امریکی صدر جوبائیڈن کا اپنی ناکامی کا ذمےدار پاکستان کو ٹھہرانا ان کے مفاد میں ہے ۔ کہ وہ کیسے دنیا کو اور اپنی عوام کو کہہ دیں ۔کہ ہم واحد دنیا کی سپر پاور طالبان سے ہار گئے۔اگر ہم اس ساری صورتحال پر فوکس کریں اور ابھی کے حالات کو آنے والے دنوں میں بیگر پیکچر کے طور پر دیکھیں تو شائد ہم سب کو سمجھنے میں آسانی ہو۔

امریکہ کے پلان اے کے مطابق ان کے اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد بھارت کو افغانستان میں سب کچھ کنڑول کرنا تھا۔ جو کہ اب اس طرح تو ممکن نہیں رہا ہے۔آیندہ آنے والے دنوں میں امریکہ ، بھارت ، آسڑیلیا اور جاپان سیکورٹی ڈائیلاگ پر اجلاس کرنے جا رہے ہیں ۔ اس اجلاس میں فوکس تو ضرور چین ہو گا ۔ لیکن نشانہ پاکستان ضرور ہو سکتا ہے۔اور اس بات پر سوچ بچاو کیا جائے گا کہ چین کو آگے کیسے کنڑول کیا جا سکتا ہے۔ پھر چاہے امریکی ٹیکنالوجی کو پہلی بار آسڑیلیا منتقل کرنا ہو ۔ ایجنڈا چین اور اس خطے کا کنڑول حاصل کرنا ہی ہو گا ۔وزیر اعظم عمران خان جو ہمشہ سے ہی طالبان کے حامی رہے ہیں۔مجھے ایسے لگتا ہے وہ اس ساری سیچویشن کو اپنے حق میں استعمال کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ جہاں پوری دنیا پاکستان اور پاکستان کے دفاعی اور ریاستی اداروں کو سراہا رہی ہے ۔ان کی مدد کے لئے شکریہ کے پیغامات بھیج رہی ہے ۔جہاں پاکستان اور پاکستان کی آرمی کے موثر کردار نے پوری دنیا کو اپنی اہمیت کا احساس دلوایا ہے ۔وہاں امریکہ میں موجود قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف کی ناکام پالیسی بھی کھل کر سامنے آئی ہے ۔ کہ وہ اتنی بڑی کامیابی کو پاکستان کی وفاقی حکومت اور وزیراعظم عمران خان اپنے حق میں استعمال کرنے میں بری طرح ناکام ہوئی ہے۔قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف کے طالبان سے متعلق کنفیوز بیانات ویٹ اینڈ واچ کی پالیسی اور دو ٹوک موقف نا لے پانے کی پالیسی نے بحرحال وفاقی حکومت کو نقصان ہی پہنچایا ہے۔معید یوسف کی ناکام سفارتکاری کی اس سے بڑی مثال کیا ہو گی ۔کہ پاکستان کے مثبت کردار کے باوجود امریکی صدر جوبائیڈن سے ایک فون کال نا کروا سکے۔ پاکستان کی وفاقی حکومت کو جلد اور موثر اقدامات کرنے ہوں گے۔

وزیراعظم عمران خان کو جہاں سٹرونگ لابنگ کی ضرورت ہے وہاں فرنٹ فوٹ پر آ کے کھیلنے کی ضرورت ہے۔ یہ وقت وضاحتیں دینے کا نہی ہے ۔ پاکستان کی اہمیت اپنی مثبت اور عملی پالیسی کے ساتھ دنیا کو کچھ کر دکھانے کی ضرورت ہے ۔ایک عرصہ دراز کے بعد پاکستان کی اس خطے میں بہت ہی سٹرونگ پوزیشن بنی ہے ۔ اس کو ہمارے ریاستی اداروں کی محنت کہہ لیں یا اللہ کا کرم لیکن جو پاکستان چاہتا تھا ویسا ہی ہوا ہے۔پوری دنیا جانتی ہے اگر سلک روٹ پراجیکٹ مکمل ہو گیا تو پاکستان کی کیا اہمیت ہو جائے گی۔ یہ وہ پراجیکٹ ہے جو پاکستان کی ہی نہی ہماری آنے والی نسلوں کی تقدیر بدل کے رکھ دے گا ۔ طالبان کا سی پیک پر چین اور پاکستان کے ساتھ مکمل تعاون کی یقین دہانی بحرحال پاکستان کے لئے نیک شگون ہی ہے۔پاکستان کو اپنی کامیابیوں کو نا صرف بچا کے رکھنا ہے بلکہ اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں پر توجہ دیتے ہوئے بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور اس خطے کے لئے مثبت عملی اقدامات سے دنیا کو ثابت کرنا ہے۔تاکہ ہمارے ملک کے وزیراعظم کو کسی کے فون کا انتظار نا کرنا پڑے بلکہ دنیا ہمیں چل کر ہمارے پاس انا پڑے۔ مشکل ہے ناممکن نہیں

Leave a reply