ناکامیوں کی فہرست، تحریر:عفیفہ راؤ

0
72

جس طرح پاکستانی عوام کی مشکلات میں کہیں سے کوئی کمی نہیں ہو رہی ویسے ہی اب عمران خان کے لئے بھی مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں جن میں کافی حد تک ان کا اپنا ہی عمل دخل ہے کیونکہ ظاہری بات ہے کہ وہ حاکم وقت ہیں ان کے پاس اقتدار ہے اور اگر وہ عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہوں گے تو دوسروں کو موقع ملے گا کہ وہ بھی عمران خان نے خلاف مشکلات کھڑی کر سکیں اور مشکلات نہ بھی ہوں تو صورتحال یہ ہے کہ اس وقت اپوزیشن عمران خان کے حالات کا خوب مزہ بھی لے رہی ہے اور مذاق بھی بنا رہی ہے۔وفاقی حکومت نے الیکٹرونک ووٹنگ مشین کے حوالے سے قانون سازی اور کلبھوشن و دیگر معاملات پر قانون سازی کیلئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس 11 نومبر کو طلب کیا ہوا تھا جس کے حوالے سے پہلے وزیراعظم ہاؤس میں اراکین پارلیمنٹ کے اعزاز میں ظہرانہ دیا گیا جس کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے خطاب کرتے ہوئے یہاں تک بھی کہہ دیا کہ ہم ملک کی فلاح کے لئے قانون سازی کر رہے ہیں۔ انتخابات کو متنازعہ بنانے سے بہتر ہے کہ انتخابی اصلاحات لائی جائیں۔ قانون سازی ذاتی یا سیاسی فوائد کیلئے نہیں کررہے، انتخابی اصلاحات پر قانون سازی جمہوری نظام کیلئے ضروری ہے، جمہوریت پر یقین ہے اس لیے انتخابی اصلاحات کرنا چاہتے ہیں۔ اراکین کا خاص ہدایت کی گئی کہ الیکڑونک ووٹنگ مشین کو لانے کے لئے اور اس کا بل پاس کروانے کے لئے جہاد سمجھ کر کرشش کی جائے لیکن پھر تھوڑی ہی دیر بعد اس اجلاس کومؤخر کردیا گیا۔جس کے بارے میں وفاقی وزراء کہہ رہے ہیں کہ اسپیکر اسد قیصر کو اپوزیشن سے ایک بار پھر رابطہ کرنے کا کہا گیا ہےتاکہ ایک متفقہ انتخابی اصلاحات کا بل لایا جا سکے۔ انتخابی اصلاحات ملک کے مستقبل کا معاملہ ہے، ہم نیک نیتی سے کوشش کر رہے ہیں کہ ان معاملات پر اتفاق رائے پیدا ہو۔

یہ اجلاس آخر موخر کیوں کیا گیا۔ وجہ یہ ہے کہ کل جس طرح سے قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومتی اراکین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا اس کے بعد انھیں پتہ لگ چکا ہے کہ اب اگر اپوزیشن سے بات کئے بغیر یہ اجلاس میں کوئی بھی بل پیش کریں گے تو یہ اس کو پاس کروانے میں ناکام رہیں گے اس لئے یہ اجلاس کینسل کرنا پڑا۔قومی اسمبلی کے اجلاس میں ہوا یہ تھا کہ اکثریت ہونے کے باوجود حکمران اتحاد کے مقابلے میں اپوزیشن نے ایک ہی دن میں حکومت کو دو مرتبہ ووٹنگ میں شکست دے دی۔ جس کی وجہ سے حکومت کی مخالفت کے باوجود اپوزیشن رکن کا بل پیش ہو گیا جبکہ حکومتی رکن کو بل پیش کرنے کی اجازت ہی نہ ملی۔ اور پھر جب بعد میں حکومتی رکن کی جانب سے پیش کیے گئے بل کی اپوزیشن نے مخالفت کی تو اجلاس کی صدارت کرنے والے ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے ووٹنگ کرائی تو اس میں حکومتی بنچوں کو شکست ہو گئی۔اپوزیشن کی جانب سے سید جاوید حسنین نے بل پیش کیا کہ کوئی منتخب رکن اگر پارٹی تبدیل کرتا ہے تو پابندی ہونی چاہیے کہ وہ آئندہ سات سال تک کسی دوسری پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن نہ لڑ سکے لیکن حکومت کی جانب سے اس بل کی مخالفت کی گئی کہ اس بل کے زریعے آپ کسی بھی رکن سے اس کا جمہوری حق نہیں چھین سکتے ہیں۔اس مخالفت کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حکومتی اراکین میں سے کچھ اراکین شاید یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ وہ آنے والے الیکشن میں اپنی پارٹی تبدیل کرکے اس ٹولے میں شامل ہو جائیں جس کے جیتنے کے چانسز زیادہ ہوں گے۔ کیونکہ بہر حال یہ ایک حقیقت ہے کہ الیکشنز کے نزدیک ایک مخصوص ٹولہ ہے جو بڑی مہارت سے اپنی وفاداریاں تبدیل کرتے ہیں اور جو پارٹی ان کو لگتی ہے کہ حکومت بنائے گی اس کے ساتھ جا کر مل جاتے ہیں۔ اور جب اس بل پرووٹنگ کی گئی تو بل کے حق میں 117 ووٹ آئے جب کہ اس کی مخالفت میں 104 ووٹ ڈالے گئے۔اس طرح حکومت کی ایک نہ چلی اور سید جاوید حسنین کا پیش کردہ بل متعلقہ کمیٹی کو بھجوا دیا گیا۔اس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی اہم رکن اسما قدیر کے بل کی اپوزیشن نے مخالفت کر دی۔ اسما قدیر کی جانب سے خواتین کو سوشل میڈیا پر ہراساں کرنے پر سزا کی تجویز کا بل پیش کیا گیا تھا۔ لیکن ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے ووٹنگ کے بعد کہا کہ فوجداری قوانین ترمیمی بل 2021 پیش کرنے کی مخالفت میں ووٹ زیادہ ہیں۔ اس لیے بل پیش کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
جس کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کے احسن اقبال نے دعوی کیا کہ اپوزیشن کے 127 اور حکومت کے صرف 78 ووٹ نکلے تھے۔اسمبلی میں اس کامیابی پر بلاول بھٹو نے اپوزیشن جماعتوں کو مبارک باد بھی پیش کی تھی اور کہا تھا کہ متحدہ اپوزیشن نے آج حکومت کو قومی اسمبلی میں شکست دے دی ہے۔

اس کے علاوہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں الیکٹرونک ووٹنگ مشین کے حوالے سے قانون سازی، کلبھوشن یادیو کو نظرثانی کی اپیل کا حق دینے کے بل اور دیگر اہم قوانین کے حوالے سے حکمت عملی طے کرنے کے لیے اپوزیشن رہنماؤں کے اعزاز میں عشائیہ بھی دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ آج قومی اسمبلی میں سب نے تبدیلی دیکھ لی ہے۔ مشترکہ اجلاس میں بھی حکومت کا راستہ روکیں گے۔ جس پر تمام اپوزیشن نے اتحاد کا مظاہرہ کیا۔بس اسی اتحاد کے ڈر سے اس اجلاس کو موخر کیا گیا ہے۔
جس پر مریم نواز نے بھی تنقید کرتے ہوئے ٹوئیٹ کی کہ۔۔
ابھی ابھی ریجیکٹڈ خان صاحب تقریر جھاڑ رہے تھے کہ کل کے اراکین مشترکہ اجلاس میں جہاد سمجھ کر ووٹ کریں تو کیا قوم یہ پوچھ سکتی ہے کہ جہاد اچانک ملتوی کیوں کرنا پڑا ؟ ویسے تو قوم سب جانتی ہے مگر پھر بھی پوچھنا تو بنتا ہے۔
ویسے آج سپریم کورٹ میں سانحہ پشاور کے حوالے سے جو پیشی ہوئی تھی جس میں وزیر اعظم عمران خان کو طلب بھی کیا گیا تھا اس پر بھی مریم نواز نے ایک ٹوئیٹ اور عمران خان کو نشانہ بنایا کہ۔۔
روٹی مہنگی تو کم کھاؤ،میں کیا کروں؟
چینی مہنگی تو میٹھا چھوڑ دو،میں کیا کروں؟
پیٹرول مہنگا توگاڑی مت چلاؤ،میں کیا کروں؟
خواتین سےزیادتی ہے توگھر بیٹھیں،میں کیا کروں؟
شہدا کےلواحقین صبرکریں،میں کیا کروں؟
تم بس ملک پرعذاب بن کر ٹوٹتے رہو! لیکن اب یہ عذاب کے دن بھی ختم ہونے کو ہیں۔
اور پھر دوسری ایک ٹوئیٹ میں کہا کہ۔۔
بے سکون ہو تو قبر میں جاؤ سکون ملے گا میں کیا کروں ؟

دراصل ایسا ہی ایک کمنٹ چیف جسٹس پاکستان نے بھی سانحہ اے پی ایس کے حوالے سے کیا تھا کہ آپ وزیر اعظم ہیں، جواب آپ کے پاس ہونا چاہیے۔اور صحیح بات ہے صرف سانحہ پشاور ہی نہیں اس وقت پوری قوم کے ہی جو بھی حالات ہیں اس کے جواب دہ وزیر اعظم عمران خان ہیں کیونکہ عوام نے ان پر یقین کرکے ان کو منتخب کیا تھا عوام اپنے حالات میں بہتری کی امید لئے ان کی طرف دیکھ رہی ہے اور کوئی بدلاو نہ آنے پر اپوزیشن ان کا مذاق بنا رہے ہیں ان پر تنقید کر رہے ہیں۔لیکن اس وقت عمران خان کا پورا زور صرف اور صرف الیکڑانک ووٹنگ مشین پر ہے۔ آج کے ظہرانے میں بھی اس پر تمام اراکین کو خوب لیکچر دیا گیا لیکن عمران خان این اے 75 ڈسکہ پر خاموش ہیں حالانکہ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کی صاف چلی شفاف چلی۔۔ تحریک انصاف چلی۔۔ کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوٹ دیا ہے۔ کہ پاکستان تحریک انصاف جو ماضی میں خود دھاندلی دھاندلی کا شور مچاتی رہی ہے ہر ہارے ہوئے الیکشن کو متنازع بنانے کی کوشش کرتی ہے لیکن جب اپنی بات آتی ہے تو ہار برداشت کرنا ان کے لئے مشکل ہوتا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ 2013 کے الیکشن میں تحریک انصاف نے پینتیس پنکچر کا واویلا کیا بعد میں کہا گیا کہ 35 پنکچر والا بیان تو صرف ایک سیاسی بیان تھا۔ پھر چار حلقے کھولنے کا مطالبہ لے کر احتجاج شروع کیا جب چاروں حلقے کھولے گئے تو کسی ایک بھی حلقے سے منظم دھاندلی کا کوئی ثبوت سامنے نہ آیا۔ شاید اسی لئے ہار سے بچنے کے لئے ڈسکہ الیکشن میں ہراوچھا ہتھکنڈا استعمال کیا گیا۔ پوری کی پوری انتظامی مشینری کو الیکشن جیتنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ الیکشن کمیشن کی رپورٹ میں صاف بتایا گیا ہے کہ دھاندلی کی پلاننگ کے لیے وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کی سابق معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان اور وزیراعلی کے ڈپٹی سیکرٹری کی موجودگی میں ایجوکیشن اور ریٹرننگ افسران کی میٹنگز ہوتی رہیں۔ منظم انداز میں پریزائیڈنگ آفیسرز کو لاپتہ کیا گیا ۔ اس معاملے میں پولیس اہلکار معاونت فراہم کرتے رہے۔ محکمہ ایجوکیشن کے افسران جانبداری کا مظاہرہ کرتے رہے اور حکومتی اہلکاروں کے آلہ کار بن کر الیکشن چوری کروانے میں مدد فراہم کرتے رہے۔ پولیس افسران نے دباؤ ڈال کر بیس سے زائد پریزائیڈنگ افسران سے زبردستی نتائج تبدیل کروائے۔ لیکن اب کسی کے خلاف کوئی ایکشن نہیں ہوگا ان تمام لوگوں سے کوئی سوال نہیں کر رہا۔یا پھر شاید عمران خان اسی ڈسکہ رپورٹ کی وجہ سے الیکشن کمیشن پر اتنے غصے میں ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ جلد سے جلد الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر قانون سازی ہو اور آنے والا الیکشن ہرحال میں مشینوں کے ذریعے ہو۔لیکن اس وقت جو سیاسی حالات نظر آرہے ہیں اور حکومتی ناکامیوں کی فہرست جتنی لمبی ہوتی جا رہی ہے اس کے بعد ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ اجلاس موخر کیا گیا تاکہ ٹائم مل سکے نمبرز پورے کرنے کے لئے۔ دوسری طرف اپوزیشن بھی متحد ہے لیکن دیکھیں آنے والے دنوں میں یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔

Leave a reply