نائب امیر جماعت اسلامی کا پیکا آرڈی نینس کو فی الفور واپس لینے کا مطالبہ

0
33

نائب امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے پیکا آرڈی نینس مسترد کرتے ہوئے حکومت سے اس کالے قانون کو فی الفور واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

باغی ٹی وی : پنجاب یونین آف جرنلسٹس ( پی یو جے) کے زیر اہتمام مظاہرے میں شرکت کے دوران گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے کہا کہ جابرانہ طرز حکومت اور میڈیا پر پابندی کسی صورت قبول نہیں۔

172 کی بجائے 182 ووٹ بھی دے دیں تو وزیراعظم کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے،فیصل واوڈا

انہوں نے کہا کہ حکومتیں کالے کرتوتوں کو چھپانے کے لیے کالے قوانین کا سہارا لیتی ہیں۔ پیکا آرڈی نینس غیر اسلامی، غیر آئینی اور غیر اخلاقی ہے صحافت کا معاملہ آئینے کی طرح ہوتا ہےحکومت اپنا چہرہ ٹھیک کرنے کی بجائے اس آئینے کو توڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔

جماعت اسلامی کے رہنما ذکراللہ مجاہد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جماعت اسلامی اور صحافی برادری کے درمیان قدریں مشترک ہیں جماعت اسلامی ہر پلیٹ فارم پر پیکا آرڈی نینس کے خلاف آواز بلند کرتی رہے گی اور صحافی برادری کے ساتھ کھڑی رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ اور ماضی کی حکومتوں نے غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا۔ موجودہ حکومت نے نااہلی، نالائقی اور صحافیوں سے دشمنی کے ریکارڈ توڑ دیئے۔

دریں اثنا پیکا ترمیمی آرڈی ننس کے خلاف پی بی اے، پی ایف یو جے سمیت دیگر صحافتی تنظیموں اور سینئر صحافیوں کی درخواست پر وکلا نے دلائل مکمل کر لیے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئندہ سماعت پر 21 مارچ کو اٹارنی جنرل سے دلائل طلب کر لیے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پیکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف دائر تمام درخواستوں کو یکجا کر کے سماعت کی پی بی اے کے وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ پیکا ترمیمی آرڈی ننس کے آرٹیکل 44 اے کے تحت عدلیہ اور جج کی آزادی کو متاثر کیا آئین کے آرٹیکل 89 کے تحت آرڈی نینس صرف ہنگامی حالات میں جاری ہو سکتا ہے، آرڈی نینس کا اجرا ایگزیکٹو پاور ہے جو عدالتی نظرثانی سے مشروط ہے۔

انہوں نے صدر عارف علوی کے ٹویٹ کا اسکرین شاٹ پیش کیا اور بتایا کہ صدر مملکت نے 14 فروری کو 12:32 پر ٹویٹ کیا کہ 18 فروری کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا ہے جبکہ 18 فروری کو صدر پاکستان نے پیکا ترمیمی آرڈی ننس جاری کردیا۔

شہباز شریف کی جانب سے عشائیہ، اپوزیشن قیادت کی آمد کا سلسلہ جاری

پنجاب یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے وکیل عادل عزیز قاضی نے کہا کہ 18 فروری کو قومی اسمبلی کا اجلاس شیڈول تھا جسے ملتوی کیا گیا، صرف اسی نکتے سے آرڈیننس کے اجرا میں بدنیتی ظاہر ہوتی ہے۔

پی ایف یو جے کے وکیل ساجد تنولی نے کہا کہ لوگوں کی رائے دبانے کے لیے خصوصی قانون سازی کے ذریعے اس قانون کو لایا گیا، یہ قانون بنیادی حقوق اور آئین کی بعض شقوں سے متصادم ہے لہذا اسے کالعدم قراردیا جائے۔

فرحت اللہ بابر کے وکیل بیرسٹر اسامہ خاور نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 19 اظہارِ رائے کی آزادی سے متعلق ہے مگر اس میں کچھ پابندیوں کا بھی ذکر ہے جو قومی مفاد، توہین اسلام، خودمختاری، توہین عدالت یا کسی کو جرم پر اکسانے جیسے معاملات پر ہیں۔

بھارت نے واہگہ بارڈر سے پاکستان جانیوالوں کیلئے اسپیشل اجازت نامہ کی پابندی ختم کردی

Leave a reply