نکاح کی اہمیت/ نسل انسانیت کی بقا۔ تحریر:- تیمور خان

0
101

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات کا نام ہے جس میں انسانی زندگی کے کسی گوشے کو نامکمل اور ادھورا نہیں چھوڑا گیا انسان کی فطرت اور اس کے تبیعت کے جتنے بھی تقاضے ہیں ان تمام کو بخوبی سر انجام دینے کے لئے اسلام نے زندگی کے ہر موڑ پر اپنے ماننے والوں کو مکمل اصول اور ضوابط عطا فرمائے ہیں یہاں تک کہ انسان کی نجی زندگی ہو یا اس کی معاشی اور اجتماعی زندگی ہو زندگی کہ ہر موڑ پر اسلام نے رہنما اصولوں کے ذریعے مسلمانوں کو نجات اور کامیابی کا راستہ بتایا ہے انسان کی جو فطری ضرورتیں ہیں جو انسان کے ساتھ پیدا کی گئیں ہیں۔ ان فطری ضرورتوں میں سے ایک اہم ضرورت انسان کا کسی عورت کے ساتھ نکاح کا اور شادی کرنا بھی ہے شادی کرنا اور نکاح کرنا انسان کی بنیادی ضرورت ہے جہاں ایک مرد اور عورت کی فطری ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بقائے نسل انسانی کے لئے توال اور تناسل کا ایک بہت بڑا زریعہ بھی ہے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس دنیا میں سب سے پہلے اس دنیا میں حضرت آدم علیہ السلام کو بشر اور انسان بنا کہ پیدا فرمایا ادم علیہ السلام سے آج تک جتنے انسان آیے ہیں یہ سب حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد کہلاتے ہیں لیکن یاد رکھیں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو اپنی قدرت سے پیدا فرمایا بغیر ماں باپ کے پیدا فرمایا لیکن حضرت آدم علیہ السلام کے پیدا فرمانے کے بعد اللہ نے یہ اصول بنایا ایک قاعدہ اور ضابطہ بنا دیا کہ ادم علیہ السلام کے بعد جو انسان بھی اس دنیا میں آئے گا اس کے لئے ایک مرد اور ایک عورت کی ضرورت ہو گی اگر اللہ تبارک وتعالیٰ چاہیے تو بغیر کسی مرد اور عورت کی بھی کسی انسان کو پیدا کر دے جتنے انسانوں کا قیامت تک اس دنیا میں آنا ہیں تو اللہ تعالیٰ کا لفظ کن کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کن فیکون تو وہ چیز پیدا ہو جاتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے کچھ اصول اور ضوابط جو پیدا فرمائے ہیں اور ہمیں ان اصولوں کے مطابق چلنے کا کہا ہے یاد رکھیں ان اصولوں کے مطابق اللہ تعالیٰ نے نسل انسانی کے بقا کے لئے شادی کو نکاح کو ایک اہم جز  انسانی زندگی کا قرار دیا ہے۔

اسی لئے آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے جب پیدا فرمایا، تو آپ جنت میں رہتے تھے جنت میں ٹہلتے تھے، لیکن چونکہ دوسرا کوئی انسان اس وقت نہیں تھا اس دنیا میں اس کائنات میں ایک ہی انسان تھے اس لئے ان کے فرشتے بھی ہوا کرتے ان کے ساتھ جننات بھی ہوا کرتے اللہ تبارک وتعالیٰ کی مختلف نعمتیں ان کی ارد گرد ہوتی لیکن ان کو انسیت حاصل نہ ہوتی، کہ ہر ایک شے اپنی جنس انس اور  محبت حاصل کرتی  ہے، ایک انسان کو آپ دنیا کی ساری نعمتیں دے دیں لیکن اگر اس کے پاس کوئی انسان نہ ہو تو اس کی زندگی خوشحال نہیں ہو گی وہ چاہے گا کہ میرے ساتھ میری ہی جنس کا کوئی انسان ہو تاکہ اس کے ساتھ میں اپنی زندگی کی شب و روز بسر کر سکوں۔

آدم علیہ السلام فطرتی انسانی کے مطابق ان کو جب انسیت جنت میں نہ ملی، ایک دن اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کی اس کمی کو پورا کرنے کے لئے جب آدم علیہ السلام آرام فرما رہے تھے جب آپ بیدار ہوئے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کے سوتے ہوئے آپ کے بائیں پسلی سے اماں حوا کو پیدا فرمایا، جب آپ بیدار ہوئے تو آپ نے دیکھا کہ آپ کے قریب ایک عورت بیٹھی ہوئی ہے تو آپ کو بہت خوشی ہوئی اور جونہی آپ نے ہاتھ بڑھانا چاہا تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے آواز دی  اے آدم اس انسان کو جو تیری ہی جنس سے پیدا کی گئی ہے تیری ہی پسلی سے پیدا کی گئی ہے، اس انسان ہو عورت کہتے ہیں یہ تمہاری انسیت کی کمی کو پورا کرے گی تمہاری فطری ضرورتوں کو پورا کرے گی لیکن اس کو ہاتھ لگانے کے آپ کو مہر دینا پڑے گا، تمہارا نکاح ہوگا ادم علیہ السلام نے پوچھا اے اللہ اس کا مہر کیا ہوگا یہ کیوں کر میرے لئے حلال ہوگی، تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا تم ایک مرتبہ نبی آخر الزمان جو تیری ہی اولاد سے پیدا ہوگا سب سے آخری نبی ہوگا، تم ایک مرتبہ ان پہ درود پڑھو یہی تمہارے اور اماں حوا کا حق مہر ہوگا، تو سرکارِ دوعالم ﷺ فرماتے ہیں ایک مرتبہ درود یہی حق مہر تھا  اور اس کے بعد حضرت آدم اور اماں حوا جنت میں پھرتے تھے، پھر جب اللہ نے آدم اور حوا کو دنیا میں بھیجا دنیا میں آنے کے بعد جب ان کا آپس میں ملاپ ہوا اور نسل انسانی کی ابتداء ہوئی تو آج تک دنیا میں جتنے بھی انسان ہیں یہ سب اسی نکاح کا نتیجہ ہے۔

تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ نکاح ایسی چیز ہے جو انسان کی جہاں فطری ضرورتوں کو پورا کرتا ہے وہاں  نسل انسانی کی بقاء اور اس میں پروان چڑھانے کے لئے بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے نکاح کو بہت بڑا زریعہ قرار دیا گیا ہے، اسی لئے اللہ نے فرمایا کہ اللہ کی نشانیوں اور نعمتوں میں سے اللہ کی ایک نعمت یہ بھی ہے کہ اللہ نے تمہاری جنس سے ہی جوڑے پیدا فرمائے، مرد کے لئے عورت اور عورت کے لئے مرد کو پیدا فرمایا مرد اور عورت کے جوڑے کے ملاپ کو اس کا فائدہ اللہ نے فرمایا اسی لئے کے تم ایک دوسرے سے سکون حاصل کرو اور پھر انسانی جوڑے کے درمیان اللہ نے محبت کو پیدا فرمایا دلی محبت کو اللہ نے پیدا فرمایا، لیکن اس کے برعکس اگر ہم دیکھیں کہ آج دنیا کتنی ہی پرفتن ہو چکی ہے طلاق کی شرح بہت حد تک بڑھ چکی ہے ایک دوسرے سے جدائی اور خلاء کی شرح بہت حد تک بڑھ چکی ہے، لیکن اس کے باوجود بھی میاں بیوی کی محبت کا جو رشتہ ہے وہ آج بھی قائم ہے اس لئے یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا قانون ہے اور انسان کی فطرت اور تبیعت کے عین مطابق ہے۔

اسی لئے سرکارِ دوعالم ﷺ نے یہی ارشاد فرمایا اے نوجوان، اپنے امت کے نوجوانوں سے خطاب کیا تم میں سے جو بھی شخص نکاح کی طاقت رکھتا ہے تو وہ فوراً نکاح کرے حضور سرکارِ دوعالم ﷺ نے فرمایا یہ انسان کے شرم گاہ کو محفوظ کر لیتا ہے اور انسان کی آنکھوں کو نیچے کر لیتا ہے یہ آنکھوں میں نظروں میں حیا پیدا کر دیتا ہے یہی وجہ ہے قرآن مجید فرقان حمید میں زنا کی جو سزا بیان کی گئی ہے اگر العیاذ باللہ غیر شادی شدہ جوڑا زنا کرتا ہے تو ان کے لئے سو کوڑے ہے، اگر شادی شدہ جوڑا زنا کرتا ہے یا ان میں سے یا زانی اور مزنیا میں کوئی ایک شادی شدہ ہے تو پھر ان کو سنگسار کرنے کا حکم دیا گیاہے اب زنا ہوا کیوں کیونکہ اس مرد کی جو حواہشات ہے وہ پوری نہیں ہوئی۔

اسی لئے سرکارِ دوعالم ﷺ نے فرمایا زنا کا درواز بند کرنے کے لئے جب تم میں سے کسی کی اولاد بالغ ہو جائے اور نکاح کے قابل ہو جائے تو پھر تم ایسا رشتہ دیکھو کہ جس کے دین اور اخلاقی سے تم رازی ہو مرد اور عورت کے لئے ایسا رشتہ ایے سرکارِ دوعالم ﷺ نے فرمایا کہ یہ لڑکا میری بیٹی کے لئے دین دار ہے تو آپ نے فرمایا پھر سوچ سے کام نہ لو فوراً ان کا نکاح کرو اور اگر تم ان سب کے باوجود بھی نکاح نہیں کرو گے تو سرکارِ دوعالم ﷺ نے فرمایا پھر زمین میں فساد پیدا ہو جائے گا۔ اور وہ فساد یہی ہے کہ نہ عورت کی عزت محفوظ رہے گی اور نہ مرد کی پاک دامنی محفوظ رہے گی اسی لئے چند مواقعے میں آپ نے ارشاد فرمایا تم میں سے جو بھی جس چیز کے قابل ہو جاؤ تو فوراً ہی کر لیا کرو ان میں سے ایک نکاح کا حکم بھی ہے۔ 

اور پھر آج کے اس زمانے میں آج کے اس فحاشی اور عریانی کے ماحول میں کہ جہاں کوئی تمیز لڑکوں اور لڑکیوں کی نہیں ہے جہاں کوئی تمیز حیا اور بے حیائ کی نہیں ہے جہاں حیاء کا جنازہ ہمارے معاشرے سے بلکل اٹھ چکا ہے، ایسے حالات میں نکاح کرنا نہایت ہی اہم ہے، یاد رکھیں ہم کہتے ہیں نکاح کرنا سنت ہے شادی کرنا سنت ہے، یاد رکھیں ہر کسی کے لئے سنت نہیں ہے جو ایسا شخص ہے مرد ہے یا عورت اگر اس کی شادی فوراً نہیں کی جائے تو وہ گناہ میں مبتلا ہوگا اس کی آنکھیں جسم گناہ میں مبتلا ہوگا تو پھر اس کے لئے نکاح سنت نہیں فرض عین ہے اور آج کل کے جو نوجوان ہیں ان کے لئے محقیقین نے نکاح کرنا فرض عین قرار دیا، اسی لئے فحاشی کا اور عریانی کا دور ہے تو اسی لئے محقیقین نے نکاح کو فرض عین قرار دیا اس لئے نکاح کرنا یاد رکھیں یہ ہمارے معاشرے ہماری تبیعتوں ہمارے گھرانے اور ہمارے خاندانوں کے لئے پاک دامنی کا بہت بڑا ذریعہ ہے، اور اگر ایک شخص کہ پاس کوئی وسائل  نہیں کہ وہ اپنی بیوی کو دو وقت کی روٹی کھلا سکے اور نکاح کے طاقت نہ رکھ سکے تو پھر سرکارِ دوعالم ﷺ نے فرمایا کہ وہ شخص روزے رکھے کیونکہ روزے اس کے شہوانی خواہشات کو ختم کر دے گی، تو یاد رکھیں دنیا کے تمام معاشروں میں کسی نہ کسی طریقے سے نکاح کو حلال قرار دیا گیا ہے، تو اس لئے حیا کو پیدا کرنے کے لئے اپنے معاشرے کو باحیا بنانے کے لئے ہمیں اپنی آنکھوں کی بھی حفاظت کرنی ہے اپنی قردار کی بھی حفاظت کرنی ہے اور ایک ایسا ماحول بنانا ہے کہ جس کی وجہ سے ہمارے آج کے نوجوان حیاناک بن سکے، پس اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے۔

@ImTaimurKhan

Leave a reply