نظامِ شمسی کا کچرا!!! — ڈاکٹرحفیظ الحسن

0
44

نظامِ شمسی آج سے 4.6 ارب سال پہلے اپنے انجام کو پہنچے ایک ستارے کے نیبولہ سے تشکیل پایا۔ یہ نیبولہ دراصل گیسوں اور خلائی گرد کا مجموعہ تھا جو وقت کیساتھ ساتھ گریویٹی کے زیرِ اثر جمع ہوتا گیا۔ ان میں سے ہائیڈروجن اور ہیلیئم کی گیسیوں سے سورج اور نظامِ شمسی کے بڑے سیارے جیسے کہ مشتری، زحل، وغیرہ بنے جبکہ خلائی گرد سے زمین اور دیگر چٹانی سیارے جیسے کہ مریخ، زیرہ، عطارد وغیرہ۔

مگر کچھ خلائی گرد اور گیسیں کوئی باقاعدہ سیارہ نہ بن سکے۔ یہ سیارچوں، خلائی چٹانوں، شہابیوں کی صورت پورے نظامِ شمسی میں اب بھی موجود ہیں۔ یہ نظامِ شمسی میں کم و بیش ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ ان میں کئی آج بھی زمین پر شہابِ ثاقب کی صورت گرتے ہیں اور ماضی میں بھی زمین اور دیگر سیاروں پر گرتے رہے ہیں۔

ان سیارچوں، شہابیوں اور خلائی چٹانوں کی سب سے زیادہ تعداد مریخ اور مشتری کے درمیان کے علاقے میں ہے۔ اس علاقے کو فلکیات کی دنیا میں "مین ایسٹرآیڈ بیلٹ” کہا جاتا ہے۔ اس علاقے میں موجود بونے سیارے، سیارچے، شہابیے، چٹانیں مختلف سائز اور ساخت کی ہیں۔ انکا قطر چند سینٹی میٹرز سے لیکر کئی سو کلومیٹر تک ہے۔ اس علاقے کی چوڑائی زمین اور سورج کے مابین فاصلے سے تقریباً دو گنا زیادہ ہے۔ مگر ان تمام کا کل ماس محض زمین کے چاند جتنا ہے۔ جسکا مطلب یہ ہے کہ یہ ماضی میں کسی اور سیارے کی باقیات نہیں بلکہ نظامِ شمسی میں رہ جانے والا کچرا ہے۔

ان سیارچوں اور شہابیوں میں نظامِ شمسی اور زمین کی تاریخ چُھپی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرینِ فلکیات اور سائنسدان شہابیوں اور سیارچوں میں بے حد دلچسپی لیتے ہیں۔ وہ شہابیے جو زمین پر گرتے ہیں اُنکا خصوصی تجزیہ کیا جاتا ہے کہ ان میں ہمارے وجود کی، ہمارے آغاز کی کہانی موجود ہو سکتی ہے۔

2007 میں ناسا نے اسی علاقے کے سب سے بڑے سیارچے ویسٹا پر ایک مشن بھیجا جو اربوں کلومیٹر کی مسافت طے کر کے 2011 میں اسکے مدار میں پہنچا۔ جسکے بعد 2015 میں یہ اسی علاقے میں سب سے بڑے سیارچے یا بونے سیارے سیریس تک پہنچا۔ اس مشن سے ہمیں معلوم ہوا کہ ان سیارچوں اور بونے سیاروں کی تہہوں میں پانی ہو سکتا ہے۔ سیریس پر نامیاتی اجزا بھی ملے جو زمین پر زندگی کے وجود کی بنیاد ہیں۔ اس مشن سے ہمیں معلوم ہوا کہ ان سیارچوں پر نظامِ شمسی کی تاریخ کے کئی راز چھپے ہیں۔ سیریس اب تک جیولاجیکلی ایکٹو ہے اور اسکی تہوں میں پانی مائع حالت میں ہو سکتا ہے۔ سیریس پر ایمنیویا ملنے سے یہ شبہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شاید نظامِ شمسی کے باہری علاقے میں وجود میں آیا اور بعد اندرونی ایسٹرآیڈ بیلٹ میں شامل ہوا مگر اس پر مزید تحقیق جاری ہے۔

Leave a reply