ایک ملک ایک قوم ایک نصاب تحریر زوہیب خٹک

ایک ملک ایک قوم ایک نصاب

حکومت وقت نے جب سے یکساں تعلیمی نصاب متعارف کروایا ہے تب سے کئی حلقوں میں اس عمل کو سراہا جارہا ہے کہ غریب اور امیر کا بچہ ایک ہی تعلیم حاصل کرے گا اور مستقبل میں ہر شعبہ ہائے زندگی میں سب شہریوں کو مساوی حقوق مل سکیں گے۔ یعنی امیر غریب کی تفریق ختم ہو جائے گی۔ لیکن جہاں لوگ اس نصاب کو مثبت نظر سے دیکھ رہے ہیں وہیں ہمیشہ کی طرح لبرل طبقے کو اس نصاب میں بھی کیڑے نکالنے کا موقع مل گیا۔ اور اس طبقے کا من پسند منجن عورت کے حقوق عورت کی آزادی کے نام پر واویلا شروع کر دیا بی بی سی کو مضمون لکھ ڈالے کہ پاکستان میں عورتوں کے حقوق سلب کیے جارہے ہیں اور وجہ بھی ایسی مزحکہ خیز پیش کی گئی کہ کوئی بھی با شعور انسان کا سر چکرا جائے کہ آخر کوئی اس قدر پسند ذہنیت کیسے رکھ سکتا ہے۔ پانچویں جماعت کی انگریزی کی کتاب پر شائع کی گئی ایک تصویر ہے جس میں ماں اور بیٹی کالین پر بیٹھے ہیں جبکہ باپ اور بیٹا صوفے پر اس ایک تصویر کو بنیاد بنا کر پراپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ یہ نصاب اور یہ حکومت عورتوں کے حقوق کے خلاف ہے یہ خدا نخواستہ عورت کو مرد سے کمتر سمجھتی ہے۔ اس کے برعکس دیگر کئی درسی کتب میں خواتین یعنی ماں بیٹی کو صوفے پر بیٹھا دیکھا جاسکتا ہے اور بیٹا یا شوہر کالین پر بیٹھے ہیں جیسے عام طور پر ہمارے گھروں میں ہوتا ہے۔ لیکن وہ تمام تصاویر اس لبرل طبقے کو نظر نہیں آئیں۔

جیسے اس لبرل طبقے کو عید قربان پر جانوروں کے حقوق یاد آجاتے ہیں پھر چاہے سارا سال خود کے ایف سی مکڈولنڈ نوش فرماتے رہیں لیکن غریب کو مفت میں گوشت کھانے کو ملے تو جانوروں کا دکھ درد جاگ اٹھتا ہے تاکہ عام مسلمانوں کو دینی فریضے سے بدظن کیا جاسکے۔ ایسے ہی یکساں تعلیمی نصاب میں بھی انہیں عورتوں کے حقوق کا کوئی دکھ درد نہیں اصل مسئلہ یہ ہے کہ غریب کے بچے کی کیا مجال جو ہمارے بچوں کے مقابلے پر آسکے۔ اس ملک کی اشرافیہ بننا تو صرف ہمارا حق ہے ہم اس ملک کے مالک کرتا دھرتا ہیں غریب کا بچہ تو ہمارا نوکر ہی بنے گا وہ کیونکر افسر بنے۔

ساتھ ہی انہیں حکومت کے اس اقدام پر بھی شدید دکھ اور صدمہ پہنچا ہے کہ تعلیمی اداروں میں مرد و خواتین اساتذہ کے جینز پتلون پہننے پر کیوں پابندی لگا دی ہے۔ حالانکہ مُہزب لباس کے متعلق قوانین تو مغربی ممالک کے تعلیمی اداروں میں بھی لاگو ہے جن کا دین اسلام سے بھی کوئی تعلق نہیں ۔ لیکن بنیادی اخلاقیات کو تو وہ بھی مانتے ہیں اور اپنے اساتذہ کو طالب علموں کے لیے رول ماڈل کے طور پر دکھانا چاہتے ہیں اساتذہ کا لباس چال ڈھال اٹھنا بیٹھنا انداز گفتگو ہر چیز بچوں پر اثر ڈالتی ہے اس لیے وہ مغربی معاشرے بھی اپنے اساتذہ کو بنیادی اخلاقیات پر عمل کرنے کے لیے پابند کرتے ہیں۔ لیکن یہاں بدقسمتی سے اس لبرل طبقے کو کوئی عقل و شعور کی بات سمجھنا اونٹ کو رکشے میں بٹھانے کے مترادف ہے کیونکہ یہ دین بیزار طبقہ سمجھنا ہی نہیں چاہتا۔ میرا مطالبہ ہے کہ حکومتِ وقت ان مٹھی بھر ننگ دھڑنگ شدت پسند عناصر کے آگے ڈٹ جائے اور ہمارے معاشرے کے معمار نئی نسل اور اساتزہ کی بھلائی کے لیے اپنے اس بہترین فیصلے سے ہرگز پیچھے نا ہٹے۔۔

Twitter @zohaibofficialk

Comments are closed.