پاکستان کا قدیم ترین اور حیرت انگیزجانور جسے ماہرین نے وہیل کا جد امجد قرار دیا

0
50

آج سے تقریباً 5 کروڑ 60 لاکھ سال پہلے جہاں اٹک و فتح جنگ شہر کے درمیان ”کالا چٹا پہاڑ“ نامی سلسلہ کوہ واقعہ ہے لاکھوں سال قبل ان میں سے بیشتر علاقے سمندر کا حصہ تھے اور یہیں یہ حیرت انگیز جانور گہرے پانیوں میں شکار کیا کرتا تھا۔

باغی ٹی وی : وہیل کو عام طور پرمچھلی لکھ دیا جاتا ہے جو کہ غلط ہے کیونکہ وہیل کا شمار دودھ پلانے والے جانوروں یعنی ممالیہ میں ہوتا ہے جبکہ وہیل کے ارتقائی آباؤ اجداد آج سے کروڑوں سال پہلے خشکی پر اُن علاقوں میں رہا کرتے تھے جو آج پاکستان کا حصہ ہیں۔

آج سے کروڑوں سال پہلے، خشکی پر رہنے والے، وہیل کے یہ آبا و اجداد اپنی جسامت اور جسمانی ساخت کے اعتبار سے کتوں/ بھیڑیوں کی طرح دکھائی دیتے تھے جنہیں پاکی سیٹس Pakicetus کہا جاتا ہے-

یہ ایک گوشت خور شکاری جانور تھا جو کہ لمبوترے جسم، لمبی تھوتھنی، مظبوط جبڑوں اور تیز دانتوں کے ساتھ ساتھ ایک لمبی دم رکھتا تھا۔ بنیادی طور پر یہ خشکی کا جانور تھا لیکن شکار کے لیے اپنے وقت کا ایک بڑا حصہ پانی میں بھی گزارا کرتا تھا۔

اس کے لمبے شکل کی جسامت اسے تیرنے اور غوطہ لگانے میں مدد دیتی تھی جیسے کچھ مچھلیاں لمبے جسم کی حامل ہوتی ہیں۔

ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق پاکی سیٹس کی جسمانی لمبائی 7 فٹ تک ہوا کرتی تھی جبکہ اس کے وزن کا اندازہ 50 پاؤنڈ تک لگایا گیا ہے۔

بنیادی طور پر اس کی خوراک مچھلی اور آبی جانوروں پر مشتمل ہوتی تھی تاہم اس کی خوراک میں کچھ زمینی جانور بھی شامل ہوسکتے تھے۔

پاکی سیٹس کا پہلا ڈھانچہ سال1981 میں اٹک میں کالا چٹا پہاڑ سے برآمد ہوا تھا۔ یہ جانور ماہرین آثار قدیمہ کے لیے ایک معمہ تھا کیونکہ اس کا جسم زمینی جانوروں سے ملتا جلتا تھا جبکہ کھوپڑی کسی وہیل جیسی تھی اور اس کے گھٹنے کی ہڈیاں سبزی خور جانوروں سے مشابہہ تھیں۔

سال2001 میں اس کے مزید ڈھانچے برآمد کیے گئے جو کہ کافی حد تک مکمل تھے۔ طویل تحقیقات کے بعد 2009میں اس جانور کو آج کی وہیل کا جد امجد قرار دیا گیا تاہم اس پر تحقیقات ابھی تک مکمل نہیں ہوئیں-

کہا جاتا ہے کہ پاکی سیٹس کی معدومی کا اندازہ 4 کروڑ 10 لاکھ سال قبل کا ہے معدومی کی کوئی کنفرم وجوہات کا اندازہ تو نہیں مگر غالب امکان یہی ہے کہ ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیاں اس کی معدومی کا سبب بنی ہوں گی۔

Leave a reply