پاکستان میں کرپشن پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے .از قلم! صاحبزادہ ملک حسنین

0
67

بدعنوانی کو بین الاقوامی طور پر انگریزی زبان کا لفظ کرپشن نہیں بولا جاتا ہے کرپشن ذاتی مفاد کے لئے اپنے اختیارات سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا نام ہے دنیا کے ہر دور میں بیشتر ممالک میں اس کا وجود رہا ہے سیاسی اداروں کے علاوہ حکومتوں کے سربراہوں سے لے کر معمولی درجہ کے ملازم بھی اس میں ملوث پائے جاتے ہیں پرائیویٹ اداروں اور سرکاری مالیاتی اداروں میں بھی کرپشن پائی جاتی ہے
سیاسی اداروں میں انتخابات کے موقع پر ووٹ خریدے جاتے ہیں اور اچھے عہدے دینے کے وعدے اور خصوصی مراعات کی پیشکش انتخابات کی آزادی میں مداخلت کرپشن کے زمرے میں آتے ہیں

قانونی فیصلے کرنے والے اداروں میں بھی کرپشن عروج پر ہے وہ گفٹ کی صورت میں یا پیسے کی ادائیگی رشتہ داروں کی حمایت سماجی اثر و رسوخ آدمی عام آدمی کے حق کو ختم کر دیتے ہیں جس کو ہم سادہ زبان میں رشوت کہتے ہیں غریب کے بس کی تو بات نہیں ہے کہ وہ رشوت دے سکے لیکن پاکستان میں یہ چیز برعکس ہے امیر سے لے کر غریب تک رشوت کے دلدل میں پھنس چکے ہیں کسی بھی محکمے میں چلے جائیں رشوت کے بغیر کام نہیں ہوتا سرکاری واجبات کی ادائیگی نہ کرنا بھی کرپشن کے زمرے میں آتا ہے بینکوں سے قرضے لے کر معاف کروا لینا ٹیلی فون بجلی سوئی گیس اور پانی کے بلوں کی ادائیگی نہ کرنا ملک کی معیشت کو کمزور کرنا سیاسی کرپشن میں آتا ہے کرپشن نہ قابل علاج بیماری کی طرح انسانیت سے چمٹ گئی ہے اور اس کو روکنے کے لیے کئی دانشوروں اپنی توانائیاں صرف کر دی ہیں

کرپشن روکنے کیلئے صرف اس کا ایک ہی طریقہ ہے وہ یہ کہ جو شخص کرپشن میں ملوث پایا جائے اس کو فورا برطرف کر دیا جائے اور تاحیات اس پر پابندی لگا دی جائے کہ وہ کسی بھی سرکاری یا نجی محکمہ میں کوئی نوکری یا کاروبار نہیں کر سکتا اس کی بنیادی وجہ یہ ہے اگر کسی کے بچے چند روپے کما کر آتے ہیں تو ان کے والدین یا ان کی بہن یا اگر وہ شادی شدہ ہے تو یہ سوال نہیں کرتے کہ یہ پیسے کہاں سے آئے ہیں اگر پاکستان میں ہر شخص اس عمل پر عمل پیرا ہو تو لوگوں میں خوف پیدا ہوگا کہ ہم نے گھر جا کر جواب دینا ہے کہ ہم کہاں سے پیسے کما کر لائے ہیں کس طریقے سے کما کر لائے ہیں تو اس میں یہ خوف پیدا ہو گا کہ میں نے کوئی غلط کام نہیں کرنا کیونکہ اگر میں کرتا ہوں تو مجھے اس کا جواب دینا پڑے گا وہ حلال رزق کمائے گا محنت کرے گا کیونکہ اس کو معلوم ہے کہ میں نے گھر جا کر جواب دینا ہے اب آتے ہیں گھریلو کرپشن کی طرف وہ یہ کہ اگر ہم بچے کو سو روپے دیتے ہیں اور اس میں سے 80 روپے کا سامان آتا ہے تو وہ بقیہ 20 روپے بچہ اپنی جیب میں رکھ لیتا ہے اور وہ گھر والوں کو واپس نہیں دیتا جب وہ سامان لے کر واپس گھر آتا ہے تو بتاتا ہے کہ سامان سو روپے کا آیا ہے بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ والدین اس سے سوال نہیں کرتے کہ کونسی چیز کتنے کی آئی ہے کون سی چیز کتنے کی ہے حساب نہیں کرتے یہاں سے اس کی سوچ کرپشن کی طرف جاتی ہے اور کرپشن ایک ایسی دلدل ہے جو انسان کو تمام عمر نہیں چھوڑتی کرپشن صرف بچوں کی حد تک محدود نہیں ہے کرپشن ایک عالمی مسئلہ ہے میں پاکستان کی کرپشن پر بات اس لئے کر رہا ہوں کہ دنیا میں سب سے زیادہ اگر کرپٹ لوگ ہیں یا کرپٹ سیاست دان ہیں تو وہ پاکستان میں ہیں آپ کسی بھی محکمے میں نوکری کے لیے جاتے ہیں تو بغیر رشوت کے آپ کو وہ نوکری نہیں ملتی اور اس عمل سے کتنے غریب لوگوں کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے اور وہ خود کشی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں پاکستان میں کئی دہائیوں سے اس ناسوت بیماری نے اپنی جڑیں مضبوط کر رکھی ہیں جس کو اگر بیان کیا جائے تو لکھتے لکھتے ورک ختم ہو جائیں ایک طالب علم پڑھائی کرتا ہے اور جتنی محنت کرنے کا حق بنتا ہے اگر وہ پڑھائی میں اتنی محنت نہیں کرتا تو یہ بھی کرپشن کے زمرے میں آتا ہے بدقسمتی اور بدبختی اس ملک میں یہ ہے کہ آج کے اس پرفتن دور میں اگر کوئی شخص سرکاری یا نجی ہسپتال میں جاتا ہے کسی بھی ہنگامی صورت میں تو اس کو جلدی آپریشن کے لیے بھی رشوت دینی پڑتی ہے کتنی شرم کی بات ہے کہ وہ ملک جس میں آئین و قوانین رشوت لینے یا دینے کی صورت میں سزا کا حکم دیتا ہے اور دین اسلام بھی یہی حکم دیتا ہے لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ اسی ملک میں سب سے زیادہ کرپشن ہوتی ہے پاکستان میں اگر سیاسی کرپشن ختم کر دی جائے تو تب بھی یہ ملک ترقی نہیں کر سکتا کیونکہ اس ملک میں ہر ایک محکمہ میں کرپشن نے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں پر حیرانگی کی بات یہ ہے کہ اس ملک میں چند روپوں کے عوض تعلیمی ڈگری مل جاتی ہے اور آپ یہ بھی اندازہ کر لیں کہ جس ملک میں تعلیم پیسوں میں بکتی ہو وہ ملک تباہی کے کس قدر دہانے پر پہنچ چکا ہے اگر کرپشن حقیقت میں اس ملک سے ختم کرنی ہے اس کا صرف ایک ہی واحد طریقہ ہے جو چوری کرے اس کے ہاتھ کاٹ دیا جائے ہمارا دین اسلام بھی یہی حکم دیتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے جو ادارے ہیں جو کرپشن کے خلاف کاروائی کرتے ہیں سب سے زیادہ کرپشن انہی اداروں میں پائی جاتی ہے اللہ اللہ کر کے اگر کسی کو گرفتار بھی کیا جاتا ہے تو برائے نام میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ میں بیان کر سکوں کے اس ملک میں کس کس ادارے میں اور کس کس جگہ کرپشن پائی جاتی ہے آخر میں اتنا ہی کہوں گا کہ اگر ہم اپنی ذات کا محاسبہ کرتے ہیں اور اپنے آپ کو درست سمت کی طرف گامزن کرتے ہیں تو اس سے کرپشن پر قابو پایا جاسکتا ہے "کیونکہ ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ”

Leave a reply