سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن کراچی عملدرآمد کیس،چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نےسماعت کی،
سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کی سپریم کورٹ میں جمع رقم کی تفصیلات طلب کر لیں،سپریم کورٹ نے اپنے اکاؤنٹنٹ کو فوری طلب کر لیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ جن لوگوں کو نوٹسز جاری ہوئے وہ کہاں ہیں،ملک ریاض حسین کے وکیل سلمان اسلم بٹ عدالت میں پیش ہوئے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ملک ریاض کے بیٹے اور بیوی کے وکیل کون ہیں،وکیل سلمان بٹ نے کہا کہ میں صرف ملک ریاض کی نمائندگی کر رہا ہوں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ پہلے معلوم کر لیں کیونکہ ایک ہی خاندان کے سب افراد ہیں،ایسا نہ ہو عدالت کوئی حکم جاری کرے اور بعد میں کوئی اعتراض آجائے،چیف جسٹس پاکستان نے ملک ریاض کے وکیل کو اپنے موکل سے رابطہ کرنے کی ہدایت کر دی.چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایسا نہ ہو عدالت کوئی حکم جاری کرے اور انکے حقوق متاثر ہوں،
جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کا حکم حتمی ہوچکا اس پر عملدرآمد ہر صورت ہونا ہے،ایسا ممکن نہیں کہ عدالت اپنے حکم سے پیچھے ہٹ جائے، گارنٹی دینے والوں کیخلاف کارروائی بھی ہوسکتی ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ لگتا ہے سندھ حکومت اور ملیر ڈویلپمینٹ اتھارٹی کی دوستی ہوگئی ہے،رقم کا ایک حصہ بحریہ ٹاؤن نے جمع کرایا دوسرا بیرون ملک سے آیا، ملیر ڈویلپمینٹ اتھارٹی اور سندھ حکومت دونوں کہتے تھے پیسے انہیں دیے جائیں،اب دونوں کا اتفاق ہے کہ رقم سندھ حکومت کو منتقل کی جائے،کیا ایم ڈی اے نے بحریہ ٹاؤن کو تمام متعلقہ منظوریاں دی تھیں؟ وکیل ملیر ڈویلپمینٹ اتھارٹی نے کہا کہ سولہ ہزار 896 ایکڑ کے مطابق لے آؤٹ پلان کی منظوری دی تھی، جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ملیر ڈویلپمینٹ اتھارٹی نے قانونی عمل کے بغیر زمین کیسے بحریہ ٹاؤن کے حوالے کر دی؟ زمین عوام کی تھی ایم ڈی اے کی ذاتی نہیں،
مشرق بینک کے وکیل سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور کہا کہ بینک کو نوٹس دینے کی وجہ سمجھ نہیں آئی،بینک نے اگر رقم منتقل کی بھی ہے تو کسی اکائونٹ ہولڈر نے ہی دی ہوگی،چیف جسٹس نے کہا کہ بینک والے بتا دیں رقم کس نے منتقل کی تھی، وکیل مشرق بینک نے کہا کہ بینک کو تفصیلات فراہم کی جائیں تو شاید کچھ بتانے کی پوزیشن میں ہوں، روزانہ ہزاروں ٹرانزیکشنزہوتی ہیں اس لئےفی الوقت کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کابحریہ ٹاون کراچی سےمتعلق فیصلہ حتمی ہوچکا اس پر عملدرآمد ہو صورت ہونا ہے،سپریم کورٹ کے حکم پر عمل ہر صورت ہوگا ورنہ عدالت اس کیس کے ذریعے مثال قائم کرے گی،وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں ملک کا قانون بالاتر ہوگا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ کیا قانون سے بالاتر ہے؟وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے متعدد فیصلے ہیں کہ معاہدے کی خلاف ورزی نہ ہو،جسٹس اطہرمن اللہ نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ جذباتی نہ ہوں یہ آپ کا ذاتی کیس نہیں ہے،
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل سلمان اسلم بٹ سے کہا کہ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ بحریہ ٹاون کراچی کا پراجیکٹ ختم ہو جائے، 2019 سے فیصلہ ہوا ہے اور ہمیں آج بحریہ ٹاون کا نقشہ دکھا رہے ہیں، کسی نے بحریہ ٹاون کے سر پر بندوق رکھی تھی کہ فیصلے کو تسلیم کرو؟جو آپ کر رہے ہیں یہ بالی وڈ یا لالی وڈ میں قابل قبول ہوگا آئینی عدالت میں نہیں، یہ اچھا ہے کہ معاہدے کے تحت پیسے نہیں دینے تو بہانے بناو، آپ فیصلے کے تحت ہوئے معاہدے کے مطابق رقم ادا کریں گے؟ ہاں یا ناں؟ وکیل بحریہ ٹاؤن نے کہا کہ اگر زمین کی قیمت کا تخمینہ دوبارہ لگا لیا جائے تو میں ادائیگی کرنے کو تیار ہوں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتےہوئے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ آپ نے فیصلے پر عمل نہیں کرنا، فیصلے پر عمل نہ کرنے کے خطرناک نتائج ہوں گے،فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے سے نیب بحریہ ٹاون کراچی کے خلاف کاروائی کرے گا، بحریہ ٹاون کا معاہدہ دکھا دیں، وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ بحریہ ٹاون کا معاہدہ تو سپریم کورٹ کا فیصلہ ہی ہے،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ آج میں نے دو چیزیں سیکھ لیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ نظر انداز ہو سکتا ہے اور فیصلہ معاہدہ ہوتا ہے، یہ بتا دیں کہ عدالت کس قانون کے تحت اپنے ہی فیصلے پر عملدرآمد کرانے بیٹھی ہے؟ وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ اپنے اصل دائرہ اختیار کے تحت ہی فیصلے پر عملدرآمد کرا سکتی ہے، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اس عدالت کے فیصلے اور دائرہ اختیار کے تقدس کو پامال نہ کریں،چیف جسٹس قاضٰ فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا بحریہ کو جو زمین ملی اسکا آڈٹ ہوا،چار سال تک کیس کیوں سماعت کیلئے مقرر نہ ہوا یہ بات ہضم نہیں ہو رہی،سپریم کورٹ کے کسی فیصلے پر عملدرآمد کا فورم کیا ہے،معاملہ سندھ کا تھا تو آپ نے سندھ ہائیکورٹ سے کیوں رجوع نہیں کیا، وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ اگر آئین کو دیکھیں تو سپریم کورٹ کا فیصلہ درست ہی نہیں تھا،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ججز کا آئینی خلاف ورزی کرنا تو مس کنڈکٹ کے زمرے میں آتا ہے،کیا سپریم کورٹ نے مس کنڈکٹ کیا، وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ میں یہ نہیں کہہ سکتا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ ایسے دلائل نہ دیں پھر،
بحریہ ٹاؤن کے وکیل نےیوسف رضا گیلانی توہین عدالت کیس کا حوالہ دیا جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم نے ابھی توہین عدالت کی کاروائی چلانے کا فیصلہ نہیں کیا، جسٹس اطہرمن اللہ نے وکیل بحریہ ٹاؤن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ توہین عدالت کے دلائل سے تو آپ اپنے ہی موکل کیخلاف جا رہے ہیں، آپ جذباتی نہ ہوں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم آپ سے سوال پوچھ رہے ہیں آپ ناراض ہو رہے ہیں،بحریہ ٹاؤن کی حیثیت زمین کے مالک کی نہیں بلکہ بلڈر کی ہے،
سپریم کورٹ نےسندھ حکومت کو بحریہ ٹاون کراچی کے زیر قبضہ زمین کی مکمل تفصیل فراہم کرنے کا حکم دے دیا، سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاون کراچی عملدرآمد کیس کی سماعت 23 نومبر تک ملتوی کر دی، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ جن 12 ہزار ایکڑ کا قبضہ بحریہ کے پاس ہے وہاں سے منافع کما رہا ہے،جکیا ایف بی آر نے بحریہ ٹاون کا آڈٹ کیا ہے؟ وکیل بحریہ ٹاؤن نے کہا کہ بحریہ ٹاون کو مارکیٹ سے زیادہ قیمت لگا کر تعصب کا نشانہ بنایا گیا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ خبر آپ بنوا چکے ہیں اب قانون کی بات کریں،بحریہ ٹاون نے 460 ارب کی پیشکش خود کی تھی، بحریہ ٹاون اگر برے سودے میں پھنس بھی گیا ہے تو ذمہ داری اسکی اپنی ہے، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ کیا سرکاری زمین نیلامی کے بغیر کسی کو دی جا سکتی ہے؟ بحریہ ٹاون نے نیب سے بچنے کیلئے 460 ارب کی پیشکش کی تھی،
بحریہ ٹائون کیلئے عدالتی احکامات کی اہمیت ہی نہیں ہے، نیب کو عدالتی فیصلے کی روشنی میں ریفرنس دائر کرکے ریکوری کرنے دیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ جو رقم بیرون ملک سے آئی وہ بحریہ کے کھاتے میں کیسے ایڈجسٹ کریں، وکیل بحریہ ٹاؤن نے کہا کہ بیرون ملک سے آئی رقم کے حوالے سے کچھ نہیں کہہ سکتا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بحریہ ٹائون کی رقم سندھ حکومت کو ملنی چاہیے یا ایم ڈی اے کو؟ وکیل بحریہ ٹاؤن نے کہا کہ زمین سندھ حکومت نے دی ہے تو رقم بھی انہیں ملنی چاہیے، پیسے کس کو ملنے چاہئیں یہ بحریہ ٹاون کا ایشو نہیں ہے،
رقم ان متاثرین کو ملنی چاہیے جنہوں نے بحریہ کو ادائیگی کی اور رقم نہیں ملی،
وکیل متاثرہ شہری نے کہا کہ میرے موکل نے 55 لاکھ روپے ادا کیے تھے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر متعلقہ فورم سے رجوع نہیں کیا تو ہم کچھ نہیں کر سکتے،وکیل متاثرہ شہری نے کہا کہ پیسے سپریم کورٹ کے اکاونٹ میں ہیں تو کسی اور فورم پر کیسے جائیں؟وکیل درخواست گزار نے کہا کہ بحریہ کراچی کا منصوبہ بلوچستان کے بارڈر تک پہنچ چکا ہے،بحریہ ٹاون چالیس ہزار ایکڑ زمین پر قبضہ کر چکا ہے، اس حوالے سے آئینی درخواست دائر کر دی ہے،جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ کیا سندھ حکومت نے کوئی کاروائی نہیں کی؟وکیل درخواست گزار نے کہا کہ این سی اے سے آنے والے190 ملین پائونڈ حکومت کو ملنے چاہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بیرون ملک سے سپریم کورٹ اکاونٹ میں 44 ملین ڈالرز اور 136 ملین پائونڈز آئے ہیں،سپریم کورٹ کو رقم یو اے ای، لندن اور ورجن آئی لینڈ سے آئی ہے،عدالت آئندہ سماعت پر رقم اپنے پاس نہ رکھنے کے حوالے سے حکم جاری کرے گی،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ کیسے تعین ہوا ہے کہ برطانیہ والے 190 ملین پاونڈز ہی سپریم کورٹ کو ملے ہیں؟ عدالت نے کہا کہ مشرق بینک کے وکیل کے مطابق رقم بھیجنے والی تفصیل ڈیٹا ملنے پر ہی فراہم کی جا سکتی ہے،مشرق بینک متعلقہ معلومات ملنے پر رقم بھیجنے والے کی تفصیلات فراہم کرے،بحریہ ٹاون اور ملیر ڈویلپمینٹ اتھارٹی شواہد کیساتھ رپورٹ پیش کرے، عدالت نے سندھ حکومت، ایم ڈی اے کو زمین کا سروے کرانے کا حکم دے دیا ،عدالت نے کہا کہ بحریہ ٹاون کا نمائندہ بھی سروے ٹیم کے ہمراہ ہوگا،سروے میں سرکاری زمین پر بحریہ ٹاون کے قبضے کے الزمات کا بھی جائزہ لیا جائے،
بحریہ ٹائون کے زیر قبضہ زمین کتنی ہے سپریم کورٹ نے سندھ حکومت سے رپورٹ طلب کرلی،عدالت نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن اور ملیر ڈویلپمینٹ اتھارٹی شواہد کیساتھ رپورٹ پیش کرے عدالت نے سندھ حکومت، ایم ڈی اے اور بحریہ ٹاؤن نمائندہ کیساتھ زمین کا سروے کرانے کا حکم دے دیا،
سپریم کورٹ نے 190 ملین پاؤنڈ اور بحریہ ٹاؤن سے متعلق درخواستیں 23 نومبر کو مقرر کرنے کی ہدایت کر دی،
بحریہ سے پیسے آئے نہیں آپ پہلے ہی مانگنا شروع ہوگئے،سپریم کورٹ کا وزیراعلیٰ سے مکالمہ
بحریہ ٹاؤن میں پولیس مقابلہ، دو ڈاکو ہلاک،پولیس اہلکار زخمی
آپ کی ناک کے نیچے بحریہ بن گیا کسی نے کیا بگاڑا اس کا؟ چیف جسٹس کا استفسار
آپ کو جیل بھیج دیں گے آپکو پتہ ہی نہیں ہے شہر کے مسائل کیا ہیں،چیف جسٹس برہم
کس کی حکومت ہے ؟ کہاں ہے قانون ؟ کیا یہ ہوتا ہے پارلیمانی نظام حکومت ؟ چیف جسٹس برس پڑے
زمینوں پر قبضے،تحریک انصاف نے بحریہ ٹاؤن کے خلاف قرارداد جمع کروا دی
کرونا سے دنیا بھر کی معیشت کو نقصان پہنچا،اقساط جمع کرانا ممکن نہیں،بحریہ ٹاؤن کی عدالت میں اپیل
بحریہ ٹاؤن کی سپریم کورٹ میں جمع رقم پر حق کس کا؟ اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں کیا تجویز دے دی؟
لندن میں بڑی کاروائی، پاکستانی شخصیت کی پراپرٹی منجمد، اثاثے ملیں گے پاکستان کو