190 ملین پاونڈ اسکینڈل،ریاستی ملکیت ریکارڈ شہزاد اکبر نے غائب کر دیا
190 ملین پاونڈ اسکینڈل کی نیب تحقیقات میں اہم انکشافات سامنے آئے ہیں
نیب رپورٹ کے مطابق این سی اے کے ساتھ خط و کتابت کا ریکارڈ اثاثہ جات ریکوری یونٹ سے غائب ہے،190 ملین پاونڈ سیٹلمنٹ سے پہلے ملک ریاض کی شہزاد اکبر کے ہمراہ سابق وزیراعظم سے ملاقات کی بھی تصدیق ہوئی ہے، محرر پی ایم ہاوس ریکارڈ کیمطابق ملاقات11 جولائی 2019 کو ہوئی تھی،غائب ہونے والا ریکارڈشہزاد اکبر اور ضیا المصطفی نسیم کے پاس تھا، ریکارڈ ریاست پاکستان کی ملکیت تھا،ریکارڈ کو سیاہ کاریاں چھپانے کیلئے غائب کیا گیا، ریکارڈ کا غائب ہونا تفتیش میں رکاوٹ ڈالنے کیلئے تھا،کابینہ ڈویژن ریکارڈ غائب ہونے کی انکوائری کروا چکا،انکوائری میں ریکارڈ گم ہونے کی ذمہ داری شہزاد اکبر اور ضیا المصطفی نسیم پر عائد ہو چکی،
اسلامی شرعی احکامات کا مذاق اڑانے پر عمران نیازی کے خلاف راولپنڈی میں ریلی نکالی
ویڈیو آ نہیں رہی، ویڈیو آ چکی ہے،کپتان کا حجرہ، مرشد کی خوشگوار گھڑیاں
خاور مانیکا انٹرویو اور شاہ زیب خانزادہ کا کردار،مبشر لقمان نے اندرونی کہانی کھول دی
ریحام خان جب تک عمران خان کی بیوی تھی تو قوم کی ماں تھیں
خاور مانیکا کے انٹرویو پر نواز شریف کا ردعمل
واضح رہے کہ عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں عدالت نے سزا سنائی تھی،عمران خان کو زمان پارک سے گرفتار کر کے اٹک جیل منتقل کیا گیا تھا، اسلام آبادہائیکورٹ نے عمران خان کی سزا معطل کی تو عمران خان کو سائفر کیس میں گرفتار کر لیا گیا، عمران خان اب اڈیالہ جیل میں ہیں، سائفر کیس میں عمران خان پر فرد جرم عائد ہو چکی ہے تا ہم اسلام آباد ہائیکورٹ نے جیل ٹرائل کو کالعدم قرار دیا ہے،
عمران خان نے القادر ٹرسٹ کیس میں ضمانت کیلئے ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل دائر کررکھی ہے، ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ نے اپیل سپریم کورٹ میں دائر کی،سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ عمران خان توشہ خانہ کیس میں گرفتار تھے،ٹرائل کورٹ نے عدم حاضری پر ضمانت خارج کردی، اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی ضمانت خارج کا فیصلہ برقرار رکھا، ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیکر ضمانت بحال کی جائے،
نیب کی سفارش پر 190 ملین پاونڈ اسکینڈل میں چئیرمین پی ٹی آئی سمیت 29 افراد کو ای سی ایل میں ڈالا گیا ہے، عمران خان، شہزاد اکبر، ذلفی بخاری ، فرح گوگی،ملک ریاض، سمیت 29 افراد کا نام ای سی ایل میں ڈالے گئے، 190 ملین پاؤنڈ کیس میں نیب نےعمران خان اور دیگر ملزمان کے خلاف ریفرنس دائرکر رکھا ہے،ریفرنس میں عمران خان کے علاوہ بشری بی بی، فرح گوگی، شہزاد اکبر اور دیگر شامل ہیں،ملزمان میں زلفی بخاری، بیرسٹر ضیاء اللہ مصطفٰی نسم ،ملک ریاض اور علی ریاض شامل ہیں، نیب راولپنڈی کی جانب سے دائر ریفرنس میں کل 8 ملزمان کے نام شامل ہیں،ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی نے تفتیشی افسر میاں عمر ندیم کے ہمراہ ریفرنس دائر کیا
قومی احتساب بیورو (نیب) کے مطابق ملک کے معروف بزنس ٹائیکون نے سابق وزیرِاعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ کو القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کے لیے جہلم میں 458کنال 4 مرلے اور 58 مربع فٹ زمین عطیہ کی جس کے بدلے میں مبینہ طور پر عمران خان نے بزنس ٹائیکون کو 50 ارب روپے کا فائدہ پہنچایا تھا۔
گزشتہ سال اکتوبر 2022 میں نیب نے تحقیقات شروع کردی تھی۔ نیب دستاویزات کے مطابق 3 دسمبر 2019ء کو عمران خان کی زیرِ صدارت کابینہ اجلاس میں بزنس ٹائیکون کو برطانیہ سے ملنے والی 50 ارب روپے کی رقم بالواسطہ طور پر واپس منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔ رقم این سی اے کی جانب سے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض سے منی لانڈرنگ کے الزامات پر ضبط کی گئی تھی۔
عمران خان نے چار سال قبل ریئل اسٹیٹ ڈویلپر کے حوالے سے کابینہ کے فیصلے کے چند ہفتوں کے اندر القادر یونیورسٹی پروجیکٹ کے لیے ٹرسٹ رجسٹر کیا تھا جو بعد میں یونیورسٹی کے لیے ڈونر بن گیا۔ نیب کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق ٹرسٹ کی رجسٹریشن سے صرف 3 ہفتے پہلے عمران خان کی کابینہ نے نیشنل کرائم ایجنسی کے ذریعے پاکستان کو ملنے والی رقم واپس ملک ریاض کو بالواسطہ طور پر واپس کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
نیب راولپنڈی نے اس معاملے میں کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز کا نوٹس لیتے ہوئے نیب آرڈیننس 1999 کے تحت پرویز خٹک، فواد چوہدری اور شیخ رشید سمیت 3 دسمبر 2019 کی کابینہ اجلاس میں موجود تمام ارکان کو علیحدہ علیحدہ تاریخوں پر طلب کیا تھا۔2019 میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے بزنس ٹائیکون کے خلاف تحقیقات کیں اور پھر تحقیقات کے نتیجے میں بزنس ٹائیکون نے تصفیے کے تحت 190 ملین پاؤنڈ کی رقم این سی اے کو جمع کروائی۔ اس تصفیے کے نتیجے میں حاصل ہونے والی 190 ملین پاؤنڈز کی رقم ریاستِ پاکستان کی ملکیت ہے جسے پاکستان منتقل کردیا گیا۔
تاہم پاکستان میں پہنچنے پر کابینہ کے فیصلے کے تحت رقم قومی خزانے کے بجائے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ تک پہنچی جس میں بزنس ٹائیکون کراچی کے مقدمے میں سپریم کورٹ کو 460 ارب روپے کی تصفیے کے ذریعے قسطوں میں ادائیگی کر رہے ہیں۔ نیب کے مطابق ملزم سے ضبط شدہ رقم واپس اسی کو مل گئی جبکہ یہ رقم ریاستِ پاکستان کی ملکیت تھی مگر اسے ملک ریاض کے ذاتی قرض کو پورا کرنے میں خرچ کیا گیا۔
2019 میں عمران خان کی سربراہی میں کابینہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا اور معاملے کو حساس قرار دے کر اس حوالے سے ریکارڈ کو بھی سیل کردیا گیا تھا۔