سپریم کورٹ کا فیصلہ، سیاسی جماعتوں کا ردعمل،پی ٹی آئی خوش،حکومتی اتحاد پریشان

supreme

مخصوص سیٹوں پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سیاسی جماعتوں کا ردعمل سامنے آیا ہے،تحریک انصاف نے فیصلے کو خؤش آئند قرار دیا ہے تو وہیں ن لیگ ، پیپلز پارٹی، اے این پی ،ایم کیو ایم نے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے

فیصلے سے آئین، قانون اور جمہوریت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ،مصطفیٰ کمال
ایم کیو ایم کے رہنما مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے آج کے فیصلے سے آئین، قانون اور جمہوریت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے، سپریم کورٹ کا آج کا فیصلہ ملک کی جمہوریت، آئین وقانون کی بالا دستی کے مطابق نہیں ہوا،سنی اتحاد کونسل کے سربراہ اپنی پارٹی سے الیکشن ہی نہیں لڑے سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں پر الیکشن کمیشن کو فہرست ہی جمع نہیں کرائی۔

ثابت ہوگیا کہ الیکشن کمیشن آئینی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہا۔اسد قیصر
تحریک انصاف انصاف کے رہنما اسد قیصر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن فارم 47 سے متعلق پٹیشنز پر جلد فیصلہ دے،سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے پر پوری قوم مبارکباد کی مستحق ہے،آج جمہوریت کی فتح اور آئین و قانون کی بالادستی قائم ہوئی، فیصلے سے ثابت ہوگیا کہ الیکشن کمیشن آئینی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام ، 8 فروری کے انتخابات پر ہمارے تحفظات آج بھی برقرار ہیں،اے این پی
اے این پی کے مرکزی ترجمان احسان اللّٰہ کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کو مخصوص نشستوں کے ساتھ وہ ریلیف دیا گیا جو مانگا ہی نہیں تھا،سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں، 8 فروری کے انتخابات پر ہمارے تحفظات آج بھی برقرار ہیں، یہ تاریخ کے سب سے زیادہ دھاندلی زدہ اور متنازع انتخابات تھے،الیکشن کمیشن اپنی ذمے داریاں پوری کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے، مخصوص نشستوں سے متعلق بھی الیکشن کمیشن نے ڈرامہ کیا، آئینی ماہرین اس پر روشنی ڈالیں کہ جو معاملہ سپریم کورٹ میں تھا ہی نہیں، اس پر فیصلہ کیسے کیا گیا؟ آئین کی بالا دستی کے لیے عدلیہ میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے، مخصوص نشستیں ان کا حق ہے جن کے اراکین اسمبلیوں میں ہیں۔

میرے خیال میں آئین کو دوبارہ لکھا گیا ہے، آئین اور قانون سے بالاتر کوئی نہیں ہے۔فیصل واوڈا
سینیٹر فیصل واوڈا کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا نقصان پی ٹی آئی کو ہوگا، چند دنوں میں اپوزیشن کے مزید ٹکڑے ہوجائیں گے کہ اِنہیں سنبھالنا مشکل ہو جائے گا، پی ٹی آئی مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگی، اس کیس میں جو استدعا کی ہی نہیں گئی اس پر بھی فیصلہ آ گیا ہے،میرے خیال میں آئین کو دوبارہ لکھا گیا ہے، آئین اور قانون سے بالاتر کوئی نہیں ہے۔

تحریک انصاف کی قیادت اس فتح کوسیاسی مکالمے کےآغاز سےمنائیں،عشرت العباد
سابق گورنر سندھ عشرت العباد کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کےفیصلے نے آئین کی پاسداری کی توثیق کی ہے، مضبوط جمہوریت کی بنیاد آزاد عدلیہ،جمہوری پارلیمنٹ،قابل انتظامیہ پرقائم ہوتی ہے،جمہوری اصولوں کےحقیقی نفاذ کیلئے تمام سیاسی جماعتیں بامقصد بات چیت کریں،سیاسی جماعتیں عوام کو ریلیف کیلئے کام کریں اور قومی مفاد میں نظم و ضبط بحال کریں، تحریک انصاف کی قیادت اس فتح کوسیاسی مکالمے کےآغاز سےمنائیں، پی ٹی آئی قیادت استحکام کا مضبوط ستون بنے۔

تحریک انصاف کے رہنما شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ آج کا فیصلہ 11/2 کا فیصلہ ہے، 11 ججز نے کہا کہ پی ٹی آئی ایک پارٹی تھی اور ہے، الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کی، الیکشن کمیشن جوجرائم کی آماجگاہ بنا ہوا ہے گھر جائے گا،

ایسے فیصلوں سے معاشی عدم استحکام بڑھتا ہے،طلال چودھری
مسلم لیگ (ن) کے رہنما طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ ایسے فیصلے پاکستان کے سیاسی استحکام کو نقصان دیتے ہیں اور ایسے فیصلوں سے معاشی عدم استحکام بڑھتا ہے، اس فیصلے سے حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑے گا، الیکشن کمیشن کو ڈکٹیٹ نہیں کرنا چاہیے، انہیں ان کا کام کرنے دینا چاہیے، ہر دفعہ الیکشن کمیشن ہی کیوں غلط ہوتا ہے ، الیکشن کمیشن ایک آزاد ادارہ ہے، الیکشن کمیشن کے کام میں مداخلت کیوں کی جاتی ہے، تمام اداروں کو الیکشن کمیشن کے فیصلوں کو سپورٹ کرنا چاہیے، ان کے ساتھ چلنا چاہیے، تمام سیاسی جماعتوں کا فیصلہ ہے کہ پاکستان میں ایسا ماحول بننا چاہیے جس سے سیاسی اور معاشی استحکام آئے۔

ماہرِ قانون اشتر اوصاف کا کہنا ہے کہ عدالتی فیصلے سے قانونی ابہام دور ہونے کے بجائے اور بڑھ گیا ہے،کیس تو سارا سنی اتحاد کونسل کا تھا، مخصوص نشستوں پر دعویٰ بھی ان ہی کا تھا، عدالت کے سامنے پی ٹی آئی کا کیس ہی نہیں تھا،افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ قانونی ابہام دور ہونے کے بجائے اور بڑھ گیا ہے، معاملہ پارلیمنٹ کی طرف جانا چاہیے تھا، عدالتی فیصلے سے حکومتی اتحاد کو کوئی فرق نہیں پڑے گا

طاقتور ستون جو پہلے ساس کے کنٹرول میں تھا ، ٹرکوں کے زیر اثر تھا اب “ڈیجیٹل دہشت گردوں “کے قابو آ چکا،وقار ستی
صحافی وقار ستی کہتے ہیں کہ تلخ حقائق !!!جمہوریت کا تماشا بنانے یا اس کا گلہ دبانے میں کس ادارے کا کیا کردار ہے آج واضع ہوگیا۔افسوسناک صورتحال ہے کہ ریاست کا ایک سب سے طاقتور ستون جو پہلے ساس کے کنٹرول میں تھا ، ٹرکوں کے زیر اثر تھا اب “ڈیجیٹل دہشت گردوں “کے قابو آ چکاہے۔ کیا ریاست کے لیے اس سے بڑا خطرہ کوئی ہوسکتا ہے ؟ ایسے حالات اور ایسا ماحول پیدا کرنا ملک کو انارکی ، مارا ماری بےیقینی اور افراتفری کی طرف لے کر جانے کے مترادف ہے۔یہ حالات ملک کو عدم استحکام کی طرگ دھکیل رہے ہیں ۔ سیاسی تعلق سے بالاتر ہوکر سوچئیے کیا یہ ماحول پاکستان کے مفاد میں ہے یا اس کے نقصان میں۔ ؟؟

صحافی نصر اللہ ملک کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے معاملہ مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ آرٹیکل 51 کی شق ڈی بالکل واضح ہے کہ خواتین اور اقلیتی نشستیں صرف ان جماعتوں کو دی جاسکتی ہیں جو فہرست میں شامل ہیں اور جنہوں نے ای سی پی کو فہرستیں فراہم کی ہیں۔پی ٹی آئی نے نہ تو دفعہ 104 کے تحت مخصوص نشستوں کے لیے درخواست دی تھی اور نہ ہی پی ٹی آئی نے ای سی پی میں مخصوص نشستوں کے لیے چیلنج کیا تھا۔ پی ٹی آئی کا بنیادی معاملہ یہ تھا کہ پی ٹی آئی کے امیدوار ایس آئی سی میں شامل ہو چکے ہیں اور اب ایس آئی سی کے حقدار ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 51 اور 106 کی تشریح کرنے کے بجائے انہیں دوبارہ لکھا۔اگر ایس آئی سی میں شامل ہونے والے پی ٹی آئی امیدوار مستقبل میں دوبارہ پی ٹی آئی میں شامل ہوتے ہیں تو مزید قانونی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔ پی ٹی آئی کو وہ ریلیف دیا گیا جس کا اس نے دعویٰ بھی نہیں کیا۔ سپریم کورٹ جب 185 کے تحت کسی بھی چیز کا جائزہ لیتی ہے، تو یہ عام طور پر ان درخواستوں تک محدود ہوتا ہے جو نچلی عدالت سے سپریم کورٹ تک پہنچتی ہیں۔ سپریم کورٹ نے دیگر جماعتوں کو دی گئی مخصوص نشستوں کے اراکین کو سنے بغیر پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو ایک طرف رکھ دیا۔ عدالت میں جن 80 ارکان کا ذکر کیا گیا وہ نہ تو عدالت میں پیش ہوئے اور نہ ہی دعویٰ کیا کہ ان کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے۔فیصلہ آئین کے مطابق نہیں ہے۔ یہ پارلیمنٹ کا استحقاق ہے۔ اسے پارلیمنٹ سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔ یہ ایک منفرد فیصلہ ہے جو آئین سے بالاتر ہے۔ انہوں نے پی ٹی آئی کو ایک سیاسی جماعت کے طور پر قبول کر لیا ہے جبکہ اس کے اراکین نے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا تھا۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نشان پر الیکشن لڑنے والی سیاسی جماعتوں کی قدر ختم ہو جائے گی۔ آزاد امیدوار اس فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے پارٹیاں تبدیل کر سکیں گے۔ اس قسم کے فیصلے کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ایک ایسا نیا سسٹم سامنے آئے گا جس کی قانون اور آئین میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ بدقسمتی سے فیصلے آئین و قانون کے مطابق دینے کی بجائے سیاسی جماعتوں اور انکی سوشل میڈیا ٹیموں کو دیکھ کر دئیےجا رہے ہیں.

صحافی و اینکر حامد میر کہتے ہیں کہ اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کچھ بھی کہیں لیکن تحریک انصاف سے اسکا انتخابی نشان تو انہوں نے ہی چھینا تھا اب وہ کہتے ہیں میرے فیصلے کی غلط تشریح ہوئی لیکن طاقتور حلقوں کے کچھ ترجمان تو بہت پہلے سے کہہ رہے تھے کہ تحریک انصاف کو بلا نہیں ملے گا انہیں کیسے پتہ تھا؟ قاضی صاحب کا فیصلہ تو بہت بعد میں آیا یہ سب کیا تھا؟

سپریم کورٹ فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کا چیف الیکشن کمشنر کیخلاف کاروائی کا مطالبہ

سپریم کورٹ،مخصوص نشستیں،پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار

سپریم کورٹ،مخصوص نشستیں، سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

کچھ ججز دانا ہوں گے، میں اتنا دانا نہیں، پاکستان کو ایک بار آئین کے راستے پر چلنے دیں، چیف جسٹس

نشان نہ ملنے پر کسی امیدوار کا کیسے کسی پارٹی سے تعلق ٹوٹ سکتا؟ چیف جسٹس

انتخابات بارے کیا کیا شکایات تھیں الیکشن کمیشن مکمل ریکارڈ دے، جسٹس اطہر من اللہ

سنی اتحادکونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق اپیل پر سماعت 24 جون تک ملتوی

سپریم کورٹ، سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کیخلاف کیس کی سماعت ملتوی

مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کا فیصلہ،ملک ایک اور آئینی بحران سے دوچار

حکومت کو کوئی خطرہ نہیں،معاملہ تشریح سے آگے نکل گیا،وفاقی وزیر قانون

Comments are closed.