تابش کی تشنگی !  تحریر : تابش عباسی

0
35

اکتوبر 2013 کو پاکستان کی عام عوام میں ایک نئی امید روشن ہوئی کہ شاید کوئی مسیحا آ نکلا ہے جس کو اپنے آپ سے زیادہ ، عام عوام کی فکر ہے – مہنگائی ، بےروزگاری ، دہشتگردی اور اس طرح کے اور کہیں مسائل سے نبرد آزما عام عوام کو ایک امید سی ہو چکی تھی کہ گویا اب جلد ہی سب ٹھیک ہو گا ۔ پوری قوم اس لیڈر کے پیچھے چل پڑی ، محنت کا ثمر ملتے ملتے پانچ سال گزر گئے اور 2018 کے عام انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پاکستان میں قائم ہوئی۔ عام عوام کے ذہنوں میں یہ بات نقش کی گئی کہ آج سے پہلے سب حکمران ، سب حکومتیں چور تھیں اور اب "امانت دار ، نیک ، صادق و امین ” حکومت قائم ہوئی ہے – پوری قوم کی امیدیں وابستہ تھیں کہ اب ان کے لیے بھی کوئی بہتری ہو گی ۔ 

پر گزرتا دن عام عوام کے لیے کچھ نہ کچھ تکلیف دہ خبر لے کر ہی آتا – تاریخ گواہ ہے جس جس چیز کا نوٹس لیا گیا وہ مہنگی سے مہنگی ترین ہوئی اور ایک مخصوص طبقہ امیر سے امیر ترین ہوا ۔ 

آج نومبر 2021 ، ضرورت روزمرہ اشیاء زندگی کی قیمتیں آسمان پر ہیں ، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ہر دوسرے ہفتے بڑھتی ہیں ! والدین اپنے بچوں کو بھوک و افلاس کی وجہ سے اپنے ہاتھوں سے قتل کرتے ہیں ، خود خود کشیاں کرتے ہیں ! متوسط طبقے کے لوگ بھی غربت کی لکیر تک پہنچ گئے ہیں – چوریاں اور ڈکیتیاں عام ہیں ، اور اکثر چور جب پکڑے جاتے ہیں اور بات کھلتی ہے معلوم پڑتا ہے کہ "پیٹ کی آگ” نے اس گناہ پر مجبور کیا – کہاں گئی وہ "ریاست مدینہ ” جو کا خواب دکھلا کر پوری قوم کو امید دکھائی گئی تھی ! کہاں وہ حکمران جو دریا دجلہ کے کنارے مرنے والی بکری پر بھی خود کو ذمہ دار سمجھتے تھے اور کہاں یہ ریاست مدینہ جس کے حکمران کو خبر ہی نہیں کہ روز غربت کتنوں کو کھا جاتی ، سانحہ ساہیوال ہو گا موٹروے کا واقعہ ! کہاں ہیں ہمارے حکمران ؟ 

وطن عزیز کی عام عوام کی حالت یہ کر دی گئ ہے کہ اب ” یہاں سب ہی سب سے ڈرتے ہیں”۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر سابقہ حکومت پر معن طعن کرنے والے اپنی حکومت کے 3 سال مکمل ہونے کے بعد بھی انصاف نہ دے پائے – 

آپ خواہ بین الاقوامی پالیسی جتنی بھی بہترین کر لیں ، یا کبھی بھی کر لیں جب تک آپ کی حکومت غریب آدمی کو ریلیف نہیں پہنچا سکتی آپ کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتے – آخر کیا وجہ ہے کہ لوگ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ” ان صادق و امین سے وہ چور حکومت ہی اچھی تھی ” جس میں مہنگائی تو اتنی نہ تھی – یہ عام آدمی کی آواز ہے اور عام آدمی کی امید اگر اس حکومت سے ٹونٹی تو شاید آیندہ یہ لوگ کسی پر امید نہ رکھ پائیں ، اس کا نقصان موجودہ حکومت کو تو ہو گا ہی پر جمہوری اقدار بھی تنزلی کا شکار ہونگے –

حکومت وقت کو یہ بات سوچنا ہوگی کہ مہنگائی کا جن ان کی حکومت کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے اور اگر سال بعد آمدہ انتخابات میں دوبارہ حکومت بنانے کا خواب ہے تو اس جن کو بند کر کے بوتل میں قید کریں – جیسے گزشتہ حکومتیں کرپشن و اقربا پروری کی بدولت آج اپنا بویا کاٹ رہی ہیں کل موجودہ حکومت کو مہنگائی کی بدولت نہ رونا پڑے-

بہت سے اچھے اقدامات بھی اس حکومت میں شروع ہوئے جن میں غریب آدمی کی مدد کرنے کی کوشش کی گئی ( احساس پروگرام وغیرہ ) مگر یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ ان اقدامات کا فائدہ عام آدمی کو بھی ہوا یا صرف سیاست کی بھینٹ چڑھا دی گیا اس کو بھی – کامیاب جوان سکیم پر پورے ملک سے آوازیں اٹھیں کہ اس پروگرام کو سیاسی رنگ دیا جا رہا ہے – 

نا امیدی کفر ہے ، امید تو ہے کہ یہ حکومت ، آخری سال میں عوام کی بہتری و فلاح پر کام تیز کرے گی ، خصوصاً مہنگائی کا جن قابو کر لیا جائے گا – 

Leave a reply