تجدیدِ عہد کا دن تحریر: ابوھریرہ عاشق علی بخاری

تجدیدِ عہد کا دن
تحریر ابوھریرہ عاشق علی بخاری

زندگی کے نظام میں کچھ دن ایسے آتے ہیں جنہیں اگر سونے کے پانی سے بھی لکھا جائے تو ان کی اہمیت پوری نہیں ہوتی. مثلا اگر انسان امتحان میں کامیاب ہوجائے یا کاروبار ترقی کرنا شروع کردے، یا پھر اللہ تعالیٰ سالوں بعد کسی پیارے سے ملادے یا پھر اولاد جیسی نعمت حاصل ہو تو انسان ان دنوں کو کبھی نہیں بھولتا، اس کی یادوں میں وہ دن خوشیوں کے انمول دن ہوتے ہیں.
ان سے کہیں زیادہ وہ عظیم ہے جس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت عطا کی گئی اور یقیناً وہ دن بھی بڑا ہی خوشی کا دن ہوگا جس دن اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان کیا ہوگا "اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے، اور جو اس کے علاوہ دین لے کر آئے گا، قبول نہیں کیا جائے گا(مفہوم)” اسی طرح وہ دن بھی مسلمانوں کے نزدیک بڑا ہی خوبصورت دن ہے جب اللہ تعالیٰ نے اس دین حنیف کی تکمیل کا اعلان کیا تھا.
پاکستانی مسلمانوں کے لیے 6 ستمبر کے بعد 7 ستمبر بھی بڑا ہی جوش و جذبے سے بھرپور دن ہے جس دن انگریز کے لگائے گئے تھوہر کے درخت قادیانیت کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا گیا.
عقیدہ ختم نبوت مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے جس کا انکاری واجب القتل ہے، اور یہ کام مسلمان حکمرانوں کا اولین کام ہونا چاہیے. اگر اس عقیدے کے عقلی و نقلی دلائل کا جائزہ لیا جائے تو بے شمار ہیں، جنہیں اصطلاحی طور پر متواتر کہا جاتا ہے. اللہ تعالیٰ نے معنوی طور پر بھی توحید و رسالت اور قرآن مجید کو آفاقی اور عالمگیر قرار دیا ہے.
جیسے قرآن مجید کی پہلی سورت سورۃ الفاتحہ میں اللہ تعالیٰ کے لیے رب العالمين اور سورۃ الانبیاء میں آقائے دو جہاں کے لیے رحمۃ للعالمین اور خود قرآن مجید کو سورہ بقرہ میں ھدی للناس کہا گیا ہے. جس طرح اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی رب نہیں، قرآن کے بعد کوئی کتاب نہیں ایسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا. یہ آپ کی ساری دنیا کے لیے نبوت کا اعلان ہے.دیکھا جائے تو ارکان اسلام میں پہلا رکن شہادتین ختم نبوت کی دلیل ہے.
کل شہداء صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ (جنگ یمامہ) کے شہداء کا جائزہ لیا جائے تو ختم نبوت کے لیے لڑی جانے والی اس جنگ میں 1200 صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم نے جام شہادت نوش کیا.جس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اور خلیفہ اول سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی عقیدہ ختم نبوت سے محبت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے.
برصغیر میں جب انگریز نے مسلمانوں کو لڑانے کے لیے مختلف فتنے کھڑے کیے، ان میں قادیانیت کا فتنہ بھی تھا. اس وقت کے تمام علماء سید عطاء اللہ شاہ بخاری، ثناء اللہ امرتسری، انور شاہ کشمیری، پیر جماعت علی شاہ وغیرہ نے متفقہ طور پر اس فتنے کو ختم کرنے لیے جدوجہد کی، یہاں تک مرتد مرزا مردود لعنۃ اللہ علیہ مولانا ثناء اللہ امرتسری کے ساتھ مباہلے کی صورت میں اس دنیا سے اپنے ابدی ٹھکانے کی طرف روانہ ہوا اور مجاہد ختم نبوت ثناء اللہ امرتسری چالیس بعد تک بقید حیات رہے.اس کے علاوہ اب تک تمام مکاتب فکر کے علماء اپنی اپنی جگہ پر ختم نبوت کا دفاع کرتے چلے آرہے ہیں.
آج کا دن 7 ستمبر 1974 کی یاد کا دن ہے، جب عقیدہ ختم نبوت کے انکاری اس فتنے کو غیر قانونی اور اس کے ماننے والوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا گیا. اس جدوجہد میں جہاں حکومت نے اپنا کردار ادا کیا وہیں اس میں علماء کا بھی بہت ہی شاندار کردار ہے.
ضرورت اس بات کی ہے کہ اس فتنے کا تعاقب کیا جائے، اور حکومت وقت بھی آئین کا پاس رکھتے ہوئے ان لوگوں کے خلاف کاروائی کرے. ختم نبوت میں نقب لگانے والوں کے لیے سخت سے سخت سزا متعین کی جائے اور ان کے بیرونی آقاؤں کو بھی منہ توڑ جواب دیا جائے.

Comments are closed.