سنکیانگ: قومیتوں کے حقوقِ معاش کا تحفظ اور بہتر زندگی کے موضوع پر سیمینار

0
48

بیجنگ:اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے پچاسویں اجلاس کے آن لائن ضمنی اجلاس میں “سنکیانگ میں مختلف قومیتوں کے حقوقِ معاش کا تحفظ اور بہتر زندگی ” کے موضوع پر سیمینار منعقد کیا گیا جس میں ،چین،پاکستان،برازیل اور کیمرون سمیت دیگر ممالک کے ماہرین اور دانشوروں نے سنکیانگ میں حقوقِ معاش اور انسانی حقوق کی ترقی پر تبادلہ خیال کیا۔

اتوار کے روز چینی میڈ یا کے مطا بق چین کی ریاستی کونسل کے دفترِ اطلاعات کے ہیومن رائٹس ڈویلپمنٹ اینڈ ایکسچینج سینٹر کے ڈائریکٹر زوو فینگ نے کہا کہ چین کے سنکیانگ نے ہمیشہ انسانی حقوق کے عوام کو اولین اہمیت دینے والے تصور پر عمل کیا ہے، جس سے تمام قومیتوں کے لوگ اصلاحات اور ترقی کے ثمرات سے استفادہ کر سکتے ہیں اور انسانی حقوق کے تحفظ میں مسلسل نئی پیش رفت جاری رہتی ہے۔لیکن بعض ممالک نے سنکیانگ سے متعلق جھوٹ پھیلایا اور یک طرفہ پابندی لگاکر عالمی انسانی حقوق کے تحفظ کو نقصان پہنچایا ہے۔عالمی برادری کو انسانی حقوق کے عالمی انتظام و انصرام کو مشترکہ طور پر فروغ دینا چاہیئے اور بنی نوع انسان کا ہم نصیب معاشرہ تشکیل دینے کی کوشش کرنی چاہیئے۔

سنکیانگ سے متعلقہ مسائل کو امریکہ کی طرف سے بڑھاوا دینے کے بارے میں، پیکنگ یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ فار گلوبل ایکسچینج اینڈ انڈرسٹینڈنگ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر وانگ دونگ کا خیال ہے کہ امریکہ کا “انسانی حقوق” کا کارڈ کھیلنے کا قلیل مدتی مقصد اپنی پارٹی کی داخلی کشمکش اور اقتدار پر قبضے کی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے ہے، جب کہ اس کی طویل مدتی حکمت عملی کا مقصد چین کو نئی سرد جنگ کا ہدف بنانا ہے تاکہ چین کو دبانے اورامریکہ کی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لیے “اخلاقی حمایت” مل سکے گی۔سیینٹر فار چائنا اینڈ گلوبلائزیشن کی پاکستانی ریسرچر زون احمد کا کہنا ہے کہ چین کی حاصل کردہ کامیابی ،خاص طور پر سنکیانگ کی ترقی اور کامیابیاں ، ترقی پذیر ممالک میں انسانی حقوق کے تحفظ کی ایک مثال ہیں۔

ہانگ کانگ کی مادر وطن کو واپسی کی 25 ویں سالگرہ کے موقع پر برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے “چین برطانیہ مشترکہ اعلامیے ” کے تحت برطانیہ پرہانگ کانگ کیباشندوں کی “تاریخی ذمہ داری “ہے اور “ہانگ کانگ سے دست بردار نہ ہونے ” کا مضحکہ خیز سیاسی شو کیا ہے۔یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ” سابق سامراج” اس حقیقت کو قبول کرنے کو تیار نہیں کہ ان کی وہ “سلطنت جس میں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا”تھا، ایک مدت سے ختم ہو چکی ہے اور وہ ابھی تک ہانگ کانگ سمیت چین کے داخلی معاملات میں مداخلت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اتوار کے روز چینی میڈ یا کے مطا بق چینی اور برطانوی حکومتوں نے دسمبر 1984 میں چین برطانیہ مشترکہ اعلامیے پر دستخط کیے تھے۔ بیان کے مطابق یکم جولائی 1997 کو ہانگ کانگ کی مادر وطن میں واپسی کے بعد، برطانیہ کے پاس ہانگ کانگ پر اختیار، حکمرانی یا نگرانی کا کوئی حق نہیں ہے، یعنی اب برطانیہ کو ہانگ کانگ کے معاملات میں مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے۔ اب ہانگ کانگ دنیا کی سب سے آزاد معیشت، ایک بین الاقوامی مالیاتی و تجارتی مرکز اور شپنگ سینٹر ہے۔ 25 سال قبل مادر وطن میں واپسی کے بعد سے، ہانگ کانگ کی ترقیاتی کامیابیاں سب پر عیاں ہیں۔ “ایک ملک، دو نظام” کو بے حدکامیابی حاصل ہوئی ہے جو کہ پوری دنیا میں تسلیم کی جاتی ہے۔

آج ہانگ کانگ کے معاشرے میں، ملک اور ہانگ کانگ سے محبت کرنا عوامی استصوابِ رائے بن چکا ہے اب برطانوی سامراج کی جانب سے یہاں بگاڑ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ برطانیہ میں سکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ کی برطانیہ سے الگ ہونے کی آوازیں بے حد بلند ہو چکی ہیں ۔بورس جانسن حکومت کا یہ دعوی کہ وہ “ہانگ کانگ سے دست بردار نہیں ہوگا ” صرف داخلی تنازعات سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے، لیکن ایسا کرنا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ ہانگ کانگ چین کا ہانگ کانگ ہے اور اس کا برطانیہ سے اب کوئی تعلق نہیں ہے۔

ادھر چین کی تین بڑی ایئر لائنز، چائنا سدرن ،ایئر چائنا اور چائنا ایسٹرن نے اعلان کیا کہ تینوں کمپنیز نے ایئربس کے ساتھ طیاروں کی خریداری کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ جس کے مطابق A320NEO سیریز کے کل 292طیارے خریدے جائیں گیاور خریداری کی کل رقم 37 اعشاریہ257 بلین امریکی ڈالر، یعنی تقریبا 249 اعشاریہ1 بلین یوآن تک پہنچ جائے گی۔

اتوار کے روز چینی میڈ یا کے مطا بق تینوں ایئر لائنز نے کہا کہ ہوائی جہازوں کی یہ خریداری ،کمپنی کے “14ویں پانچ سالہ منصوبے” کے ترقیاتی منصوبے اور مارکیٹ کی طلب کے مطابق ہے۔کمپنی کو سول ایوی ایشن انڈسٹری کے مستقبل کی ترقی پر اعتماد کی بنیاد پر،پہلے سے ہی صلاحیت بڑھانے کے لیے تیار رہنے کی ضرورت ہے۔

ایئربس نے ایک بیان جاری کیا کہ یہ نئے آرڈرز ، ایئربس پر چینی صارفین کے مضبوط اعتماد کو ظاہر کرتے ہیں، جبکہ چائنا ایئرلائنز کی مارکیٹ کی مثبت بحالی اور خوشحال مستقبل کا مظہر ہیں ۔ رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکی طیارہ ساز کمپنی بوئنگ نے اس حوالے سے کہا کہ جغرافیائی سیاسی اختلافات کے باعث امریکی طیاروں کی برآمدات کامحدود ہونا مایوس کن ہے ، کمپنی نے اس امید کا اظہار کیا کہ امریکہ اور چین نتیجہ خیز بات چیت جاری رکھیں گے۔

Leave a reply