معاہدہِ لوزان اور حجازِ مقدس کی میزبانی تحریر: محمد اسعد لعل

0
154

ارطغرل غازی کے بیٹے عثمان نے خلافتِ عثمانیہ کی بنیاد رکھی تھی۔ یہ بڑے تگڑے اور پکے مسلمان تھے۔ انہوں نے سوا چھ سو سال تک اپنے اصولوں کے مطابق حکمرانی کی اور خلافت چلائی۔ مسلمانوں اور اسلام کا جھنڈا انہوں نے ہمیشہ بلند رکھا۔ جنگیں لڑ کر بہت سارے علاقے فتح کیے اور اسلام کو بے شمار علاقوں تک پھیلایا۔ لیکن اُس کے بعد پھر زوال آیا اور سو سال کے بعد اب وہ معاہدہ ختم ہونے جا رہا ہے جس کو معاہدہِ لوزان کہتے ہیں۔

جب عثمانیہ خلافت کا خاتمہ ہوتا ہے تو برطانیہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ترکی کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنی حدود کے اندر ہی بند ہو جائے، اور کچھ شرائط رکھتا ہے جن کو آج بھی فرانس کے اندر ایک مخصوص جگہ پر لکھ کر سنبھال کے رکھا ہوا ہے۔

اور یوں ترکی کو سو سال کے معاہدے میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ یہ معاہدہ جن شرائط پر ہوا وہ شرائط یہ ہیں۔۔۔

خلافتِ عثمانیہ ختم کر دی جائے گی۔ عثمانیہ خلافت جب ختم ہوئی تو اس کے جانشینوں کو قتل کیا گیا، انہیں غیب کیا گیا، ان کو جلاوطن کیا گیا اور ان کے اثاثے ضبط کر لیے گئے۔ یہ اثاثے جب ضبط کیے گئے تو تین براعظموں کے اندر بے شمار مال و دولت تھی، بہت ساری جائیدادیں تھیں جو ساری برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کے پاس چلی گئیں۔

اس کے بعد ترکی کو ایک سیکولر ریاست بنا دیا گیا۔ اُس میں سے اسلام کو ختم کر دیا اور خلافت کے اوپر پابندی لگا دی گئی۔

اس کے بعد ایک اور پابندی یہ لگائی گئی کہ ترکی پیٹرول نہیں نکال سکتا۔ یعنی ترکی نہ تو اپنے ملک سے معدنیات نکال سکتا ہے اور نہ ہی اپنے ملک سے باہر کہیں سے معدنیات نکال سکتا ہے۔ یہ بہت بڑی زیادتی تھی۔ کیوں کہ ترکی کی زمین کے اندر تیل موجود ہے، اس کے باوجود وہ دوسرے ممالک سے تیل خریدنے پر مجبور ہے۔

ترکی کے پاس ایک باسفورس سمندر ہے اور ساحل سمندر ایک بہت ہی زبردست بندرگاہ ہے، اُس کو بین الاقوامی قرار دے دیا گیا۔ یعنی کوئی بھی یہاں سے اپنی مرضی سے آ جا سکتا ہے، اور ترکی کسی سے بھی ٹیکس نہیں لے سکتا۔ یہ بہت بڑی پابندی تھی جو ترکی پر لگا دی گئی۔

نہر سوئز کو دنیا بھر کی تجارت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے، اسی طرح باسفورس تجارت کے حوالے سے دوسری سب سے اہم جگہ ہے۔ اور آنے والے وقت میں یہ پہلے نمبر پر آ جائے گی۔

اگر آپ نے کبھی عمرہ کیا ہو یا حج کیا ہو تو آپ ترکوں کو وہاں پر عمرہ یا حج پر آتے ہوۓ دیکھیں تو ان کے ہاتھ میں ایک نقشہ ہوتا ہے۔ کیوں کے انہوں نے بہت عرصے تک حجاز مقدس پر اپنی ذمہ داری ادا کی ہے۔ مدینہ اور مکہ میں آنے والے لوگوں کی میزبانی کی ہے۔ اس جگہ سے ان کا اتنا زیادہ اُنس اور لگاؤ ہے کہ جب بھی سعودی عرب وہاں نقشے میں تبدیلی کرتا ہے تو وہ معاہدے کے مطابق ایک ایک پتھر واپس ترکی لے جا کر ایک بہت بڑے میوزیم میں سنبھال کر رکھتے ہیں تاکہ ان کے لوگوں کو یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ اور مسجدِ نبوی کی میزبانی کی ذمہ داری ان کے پاس سوا چھ سو سال تک رکھی تھی۔

وہاں جب ترک جاتے ہیں تو ان کے پاس نقشہ ہوتا ہے اور انہیں اس نقشے کو دیکھ کر پتہ چل جاتا ہے کہ کون سے صحابہ کا گھر کہاں ہے۔

پچھلے سو سالوں سے ترک خانہ کعبہ میں اللہ تعالیٰ سے رو رو کر یہ دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ہم سے ناراضگی ختم کر دیجئے، جو میزبانی کا شرف ہمیں دیا تھا وہ واپس دے دیں۔ یہ ذمہ داری اس وقت آل سعود کے پاس ہے۔ ترک یہ کہتے ہیں کہ یہ ذمہ داری ہم سے چھین لی گئی تھی اور ہمیں اس کا شدید افسوس اور دکھ ہے۔

دونوں ہی پاکستان کے برادر ملک ہیں، ترکوں کی اپنی ایک خواہش ہے جس کا ہم احترام کرتے ہیں اور جو ذمہ داری آلِ سعود کے پاس ہے اس کا بھی احترام کرتے ہیں۔ لیکن ان دونوں میں سے اس کا اہل کون ہے اس کا فیصلہ آپ سب اپنی جگہ پر کر سکتے ہیں۔

@iamAsadLal

twitter.com/iamAsadLal

Leave a reply