یونیورسٹی تعلیم—– از ایس ایم چوہدری

0
20

جیساکہ نام سےہی ظاہرہےکہ ہمارےملک پاکستان میں یونیورسٹی کی تعلیم عموماًمخلوط تعلیم کی شکل میں موجودہے۔مخلوط تعلیم جسےانگریزی میںco.education کہتےہیں اس کامطلب ہےلڑکےاورلڑکیوں کی تعلیم کاایک ہی ادارےمیں پڑھنا۔

یہ نظامِ تعلیم کیوں وجود میں آیا۔۔۔؟؟

اس کےبارے میں تھوڑی سی میں وضاحت کرتی چلی جاؤں ۔ سب سےپہلےدیکھاجائےتوپاکستان ایک غریب ملک ہےجسکےپاس وسائل نہ ہونےکےبرابرہیں ۔تعلیم کےلیئےکوئی خاص بجٹ بھی نہیں رکھاجاتااگررکھابھی جائےتواس کومکمل طورپرعملی میدان میں لانےسےہمیشہ گریزاں ہی رکھاگیاہے۔

اس عنصرکیوجہ سےہماراملک لڑکےاورلڑکیوں کی تعلیم کےلیئےالگ الگ تعلیمی ادارے یعنی یونیورسٹیز کھولنے سےقاصرہے۔دورحاضرکی ضرورتوں کےپیش نظرعورت کی تعلیم سےانکار بھی نہیں کیاجاسکتاکہاجاتاہےکہ
Man and woman are the two wheels of the carriage of life. Education plays an important role in running this carriage smoothly.

مزیدبرآں تعلیم نسواں کی اہمیت کوواضح کرتےہوئےمختلف مفکرین اپنی اپنی آراں پیش کرتےرہے۔

نیپولین کاقول

"تم مجھےپڑھی لکھی ماں دو میں تمھیں پڑھی لکھی قوم دوں گا”
یہ تھی تعلیم نسواں کی ضرورت واہمیت۔اب اس تعلیم سےآگےجورجحان وجود میں آیاوہ یہ کہ جسطرح مرد کام کرتاہےاسی طرح عورت بھی مختلف شعبہ ہائےزندگی میں کام کرسکتی ہےیعنی وہ مردکےشانہ بشانہ کام کرنےکی اہلیت رکھتی ہے ۔یہ ایک مغربی رجحان ہےجس کی اسلام میں اجازت نہیں دیتا۔ اسلام نے مرداورعورت کےلیئےالگ الگ دائرہ کارمتعین کردیئے

31 – اکتوبر کو انتخابات کا اعلان کردیا گیا ، کتنے امیدوار اس دفعہ حصہ لے رہے ہیں رپورٹ آگئی

مسلم مفکرین کاکہناہےکہ اگرعورت علم وہنرکےمیدان میں کوئی کارنامہ نہ بھی سرانجام دےتواس کی عزت ووقارمیں کمی نہیں آتی ۔اس کےلیئےیہ بھی بڑااعزاز ہےکہ عظیم ہستیاں اس کی گودمیں پرورش پاتی ہیں۔
یہ تھی عورتوں کےلیئےتعلیم کی ضرورت واہمیت اوراس کادائرہ کار۔۔۔۔۔
اب سوال یہ ہےکہ یونیورسٹی ایک اعلٰی تعلیمی ادارہ ہے،تونام کی مناسبت سےکیاعمل بھی اعلٰی۔۔۔۔۔۔؟

سب سےپہلےتومیں اس ادارےکےقیام کامقصد بتاناچاہوں گی۔تعلیمی ادارہ خواہ کوئی بھی ہواس کامقصد صرف تعلم ہی نہیں بلکہ اس کےساتھ ساتھ اس کی اعلٰی اخلاقی تربیت بھی ہے۔علم کےمعنی جاننا،واقف ہونا،آگاہی حاصل کرناکےہیں پھرکسی بھی چیزسےواقف ہونےکےبعد اس علم کواپنی زندگی میں عملی طورپراستعمال میں لاناوہ اس علم کی تربیت کانتیجہ ہے۔

المیہ یہ ہےکہ آج ڈگریوں کےانبارلگےہوئےہیں لیکن عمل نہیں ۔عمل کےبغیرعلم کوئی بھی ہووہ بےکارہے۔پھراس سےکےعلاوہ جو ہمارےتعلیمی نظام کی بگاڑ کی وجہ بناوہ یہ کہ ہم نےمغرب کی طرزتعلیم کواپنی کلچرکاحصہ بنالیاجس میں اخلاقیات کاجنازہ نکل رہاہے۔ہم نےیونیورسٹیوں میں مخلوط تعلیم کوترویج دی اوراسےاپنےلیئےباعث فخرقراردیا۔

مولانامودودی

مخلوط تعلیم کی نفی کرتےہوئےکہتےہیں کی کسی بھی تعلیمی سطح پرمخلوط تعلیم کی اسلام اجازت ہی نہیں دیتا۔اس مخلوط تعلیم نےعورت کواس کےاصل مقام سےبےبہرہ کردیا۔آزادی کانعرہ لگاکرسروں سےدوپٹےاتاردیئےگئےاورسرعام زیب وزینت کرکےآناعورت نےاپناحق سمجھ لیا۔پردےکاتصورختم کردیاگیااوراس طرز کوہم نےترقی کاراز قرار دیااسلامی روایات جوہمارےتعلیمی نظام کی روح ہواکرتی تھی وہ مٹادی گئیں۔
*
بقول علامہ اقبال:*

ہم سمجھتےتھےکہ لائےگی فراغت تعلیم
کیاخبرتھی کہ چلاآئےگاالحادبھی ساتھ

پھرجونقصان دیکھنےمیں آیاوہ یہ کہ
تعلیم کا معیارگرانےمیں سمیسٹرسسٹم کاکردار:
چونکہ یونیورسٹی ایک اعلٰی تعلیمی ادارہ ہےاس لیئے اس کاطریقہ تدریس دوسرےثانوی تعلیمی اداروں سےقدرےمختلف ہے۔یونیورسٹیوں میں سمیسٹر سسٹم رائج کردیاگیا۔جسکانقصان یہ ہواکہ ہمارےتعلیمی نظام کامعیارگرگیا۔طالبعلموں کی ساری توجہ اس مقصدسےہٹ گئی جوتعلیمی نظام کی روح ہوتی ہےوہ علم سیکھنےکی بجائےرٹے کوترجیح دینےلگےاور انھوں نےتعلیم کامقصدصرف اورصرف اچھےنمبر لینا اچھاگریڈ حاصل کرنابنالیااور اصل مقصد کو فراموش کردیاگیا۔جو کہ ہمارےتعلیمی نظام کےلئیے بہت بڑانقصان دہ ثابت ہورہاہے۔

 

تحریر از ایس ایم چوہدری

 

Leave a reply