پیشاب کے ٹیسٹ سے لبلبے کے کینسر کی تشخیص

پیشاب کے ٹیسٹ سے لبلبے کے کینسر کی تشخیص
تحقیق کاروں نے پیش گوئی کی ہے کہ لبلبے کے سرطان کا سراغ لگانے والے دنیا کے پہلے پیشاب کے ٹیسٹ سے بڑی تعداد میں مریضوں کی۔جان بچائی جا سکے گی یہ بات قابل ذکر ہے کہ جومریض لبلبے کے کینسر میں مبتلا ہوتے ہیں دیگرکینسرز کے مقابلے میں ان کے زندہ بچنے کے امکانات کم ہوتے ہیں جن مریضوں میں اس بیماری کی۔تشخیص ہو جاتی ہے ان میں سے تقریباً پانچ فیصد تشخیص کے پانچ سال بعد تک زندہ رہ پاتے ہیں پیشاب کا یہ ٹیسٹ کوئن میری یونیورسٹی آف لندن نے تیار کیا ہے جو بیماری کے ابتدائی مراحل میں اس کی انتباہی علامتوں کو واضح کردیتا ہے سائنسدانوں کو امید ہے کہ اس خاموش قاتل بیماری کا شکار ہونے والے مریضوں کی پانچ فیصدزندہ بچ جانے والی شرح اس ٹیسٹ کے ذریعے ساٹھ فیصد تک لے جائی جا سکے گی جس کی تشخیص عموماً دیر سے ممکن ہوتی ہے
https://baaghitv.comncreas-ko-clean-karney-wali-ghazayen/
اس ٹیسٹ کے ابتدائی تجربات میں دیکھا گیا کہ نوے فیصد ٹیسٹ کے نتائج بالکل درُست تھے اور اس ٹیسٹ کے ذریعے علامات ظاہر ہونے سے پانچ سال پہلے بیماری کا سراغ لگانا مُمکن ہے ٹیسٹ کے نتائج چوبیس گھنٹوں کے اندر مل جاتے ہیں پروفیسر تاتجانہ جورسیوک پچھلے دس سالوں سے اس ٹیسٹ ٹیوب کو بنانے میں ڈیولپ کرنے میں مصروف تھیں۔جس کا ابھی فی الحال کوئی نام نہیں رکھا گیا انہوں نے بتایا کہ لبلبے کے سرطان کی افزائش میں عموماً دس سال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ لگ جاتا ہے اس لیے پیشاب کے اس ٹیسٹ کے ذریعے ہم بہت پہلے اس کا پتہ لگا سکتے ہیں فی الحال اس کینسر کی تشخیص اس وقت ہوتی ہے جب یہ آخری مراحل میں ہوتا ہے اور ہم کچھ نہیں کر سکتے اگر ہم اس سرطان کا سرغ پہلے لگا لیں جب اس کا آپریشن ممکن ہو اور رسولیاں دیگر اعضاء تک نہ ہھیل چُکی ہوں تو مریض کے زندہ بچ جانے کے امکان کافی روشن ہو سکتے ہیں جورسولیاں ایک سینٹی میٹر یا اس سے بھی چھوٹی ہوں اگر ان کا نکال کر کاٹ دیا جائے تو پانچ سال تک بچنے کی شرح کو ساٹھ فیصد تک لے جایا جا سکتا ہے پیشاب کے اس ٹیسٹ میں تین پروٹینز کی مقدار کی پیمائش کی جاتی ہے جو لبلبے کا سرطان جسم میں خارج کرتا ہے اوت وہ پیشاب میں موجود ہوتے ہیں ایک الگورتھم استعمال کرتے ہوئے خطرے کے اسکور کا حساب لگایا جاتا ہے جو یہ بتاتا ہے کہ آیا کہ مریض کے مزید ٹیسٹ لینے کی ضرورت ہے یا نہیں یہ کوئی تشخیصی ٹیسٹ نہیں بلکہ تشخیص میں مدد دینے والا ٹیسٹ ہے

چالیس سال کے بعد آہستہ چلنا وقت سے پہلے بڑھاپے کی نشانی


کوئن میری یونیورسٹی کی ٹیم نے انسانی سیمپلز پر ان بایومارکرز کو ٹیسٹ کیا ہے اور اب جن مریضوں کے لبلبے میں سرطان کی مشتبہ علامتیں دیکھی جائیں گی یا جن کے خاندان میں اس سرطان کے مریض پہلے موجوف ہوں گے انہیں اس ٹیسٹ سے گزارا جائے گا اورتین ہزار مریض اس ٹیسٹ سے گُزریں گے جسمیں اندازً چارسال لگ سکتے ہیں اگر یہ ٹیسٹ کامیاب ہوا تو پھر فوری طور پر استعمال کرنا مُمکن ہوگا پروفیسر تاتجانہ نے بتایا کہ لبلبے کے سرطان کے دس فیصد مریضوں میں یہ ایک موروثی مسئلہ پایا گیا ہے اس وقت اس قسم کے مریضوں میں تشخیص کے لیے سی ٹی سکین ایم آر آئی یا انڈوسکوپ الٹرا ساونڈ سکین کے ساتھ بایوسپی سے بھی تشخیص واضح نہیں ہو پاتی ہے ا۔نہوں نے کہا الٹرا ساونڈ سکین بہت نا خوشگوار تجربہ ہوتا ہے اور مریض کو بے ہوش کرنا پڑتا ہے ای یو یس کے دوران ایک پتلی لچکدار نالی منہ کے ذریعے معدے میں تک پہنچائی جاتی ہے اور ان حصوں کی تصاویر حاصل کی جاتی ہیں جہاں ممکنہ طور پر کینسر کا شُبہ ہوتا ہے واضح رہے کہ ہر سال برطانیہ میں نوہزار ایک سو افراد اور امریکا میں پانچ ہزار چھ سو ستر مریض لبلبے کے سرطان کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں اس قسم کے ایک چوتھائی مریض تشخیص کے ایک ماہ کے اندر ہی انتقال کر جاتے ہیں جبکہ تین چوتھائی ایک سال کے اندر دوسری دنیا کوچ کر جاتے ہیں

Comments are closed.