سیالکوٹ کو ڈویژن کی ضرورت کیوں ؟؟ عبدالحنان

سیالکوٹ کے معروف سیاستدان خواجہ آصف صاحب کے والد محترم خواجہ صفدر صاحب کے دور میں ضلع گوجرانوالہ کو ڈویژن بنایا گیا تو پہلے سیالکوٹ کا نام تجویز کیا گیا تھا لیکن اس وقت سیالکوٹ کے ایم این ایز, اور ایم اپی ایز میں کوئی اتنا دم یا لائحہ عمل مرتب کرنے کا تجربہ نہیں تھا جس وجہ سے پیپر ورک کرنے اور سیالکوٹ کی معاشی اور اقتصادی صورتحال پر وزیراعلیٰ کو کیسے بریف کرنا ہے اس پر ناکامی کی وجہ سے سیالکوٹ کی بجائے گوجرانوالہ کو ڈویژن کا درجہ دے دیا گیا تھا خیرجیسے تیسے یہ وقت گزر گیا اور ڈویژن کا تاج گوجرانوالہ کے سر پر پہنا دیا گیا لہذا پھر ایک خبر کی وجہ سے سیالکوٹ کی عوام شدید غم و غصہ کی لہر دیکھی گئی ہے گزشتہ روز خبر شائع ہوئی کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری صاحبان کی انتھک کوششوں اور محنتوں سے گجرات کو ڈویژن بنانے کے لیے پیپرورک تیار کرلیاگیا جلد ہی وزیراعلیٰ پنجاب کے سامنے اس پر عملدرآمد کروانے کے لیے بریفنگ دی جائے گی جس میں گجرات, سیالکوٹ اور منڈی بہاؤالدین کو ملا کر ڈویژن کی شکل دی جائے گی
اور بعدازاں جہلم کو بھی اس میں شامل کرنے کے لیے سوچ بیچار کیا جارہا ہے. پیپرورک سے لیکر منظوری تک کے لئے تمام لائحہ عمل مرتب دیا جاچکا ہے لیکن سیالکوٹ سے کسی بھی سیاستدان حکمران جماعت کے رہنما ڈار صاحبان کی طرف سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے اور نہ سیالکوٹ کے معروف سیاستدان خواجہ آصف صاحب کی طرف سے اس پر ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے ماسوائے سوشل میڈیا پر عوام میں شدید غم وغصہ اظہار دیکھنے میں آیا ہے جس میں سیالکوٹ کی عوام نے گجرات کو ڈویژن بنانے کی شدید مذمت کی ہے سیالکوٹ کی عوام کے ساتھ یہ گھناؤنا کھیل کب تک کھیلا جائے گا اور سیالکوٹ کی عوام کو ان کے حقوق سے محروم رکھنے کی روایت کو برقرار رکھنا ہمارے سیاستدانوں کی فطرت میں شامل ہوچکا ہے
سیالکوٹ پاکستان کا بارہواں بڑا گنجان آباد شہر ہے جس کی تاریخی ثقافتی اور تہذیبی حیثیت منفرد مقام رکھتی ہے ۔جبکہ زرمبادلہ کے حوالے سے دیکھا جائے تو سیالکوٹ سالانہ 2 بلین ڈالرز سے زیادہ کی ایکسپورٹ کرنے والا شہر ہے۔ سیالکوٹ میں صنعتی یونٹس کی بہت زیادہ تعداد ہے جس کی وجہ اس شہر کا بین الاقوامی طور پر رابطے میں رہنا انتہائی ضروری ہے ۔سیالکوٹ کو دنیا بھر میں اعلٰی ترین سپورٹس اور سرجیکل سامان بنانے میں امتیاز حاصل ہے۔دنیا کی کل پیداوار کا ستر فیصد فٹ بال سیالکوٹ میں بنتا ہے جبکہ لیدر اور سرجیکل سامان کی اپنی ڈیمانڈ ہے۔پاکستان کی برآمدات میں چند ہی مصنوعات ایسی ہیں جو عالمی معیار پر پوری اترتی ہیں اور ان میں زیادہ تر سیالکوٹ میں بنتی ہیں۔ سیالکوٹ میں ہر طرح کا کھیلوں کا سامان، کھلاڑیوں کے ملبوسات، چمڑے کی مصنوعات، آلات جراحی اور دیگرعالمی معیار کی مصنوعات بنائی جاتی ہیں۔ گزشتہ سال اس شہر نے 2ارب ڈالر (تقریباً2کھرب روپے)کی برآمدات کیں جو پورے ملک کی برآمدات کا 9فیصد ہیں۔ سیالکوٹ جب سے اچھے اور مخلص سیاستدانوں سے محروم ہوا اس نے اپنا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھانے کی کوشش کی ہے اگر سیالکوٹ کو ایئرپورٹ کی ضرورت محسوس ہوئی تو سیالکوٹ کے صنعتکاروں کی مدد سے اس کو پایا تکمیل تک پہنچایا گیا اور اپنی ائیر لائن کو بھی یہاں سے شروع کیا ہے جو ائیر سیال کے نام جانی اور پہچانی جاتی ہے اس وقت سیالکوٹ میں 6 ہزار سے زائد انڈسٹری ہے جو بیرون ملک میں اپنی پراڈکٹ سیل کررہی ہیں میڈیکل کالجز ویمن یونیورسٹی اور اس کے علاوہ موٹر وے جو ن لیگ کی حکومت نے پروجیکٹ شروع کئے تو وہ پایاتکمیل کے آخری مراحل میں ہیں سیالکوٹ میں سیاستدانوں کے فقدان کے سبب اس کا حق سیالکوٹ سے 2 حصے چھوٹے ضلع کو سونپا جارہا ہے جو سراسر زیادتی ہے کسی بھی صورت میں گجرات کو ڈویژن کا درجہ دینا مناسب نہیں ہے سیالکوٹ کو ہر لحاظ سے ڈویژن کی شکل دی جاسکتی ہے سیالکوٹ ,گجرات, اور نارووال کو ڈویژن بنا کر تینوں اضلاع کے مسائل کو دور کیا جاسکتا ہے سیالکوٹ سے دونوں اضلاع ایک ہی مسافت پر واقع ہیں لہذا دونوں اضلاع میں کسی بھی مسئلے پر بروقت پیش رفت آسان ہوگی

Comments are closed.