سپریم کورٹ کا بحریہ ٹاون کی جمع کرائی گئی رقم حکومت سندھ کو دینے کا حکم

0
211
supreme court01

سپریم کورٹ ،بحریہ ٹاؤن عدم ادائیگی کا معاملہ ،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی

چیف جسٹس نے بحریہ ٹاؤن کراچی کیس کا فیصلہ لکھوایا،حکمنامہ میں کہا گیا کہ بحریہ ٹاون کے وکیل نے بتایا انہیں عدالتی فیصلے کی روشنی میں سولہ ہزار ایکڑ سے زیادہ زمین ملنا تھی، اکیس مارچ 2019 کا سپریم کورٹ کا فیصلہ بحریہ ٹاون کی رضامندی پر تھا،بحریہ ٹاؤن نے سات سال میں 460ارب روپیے ادا کرنا تھے،وکیل بحریہ ٹاؤن کے مطابق زمین مکمل نہ ملنے پر ادائیگیاں روکی،وکیل بحریہ ٹاؤن کے مطابق جو زمین دی گئی اس پر ہائی پاور بجلی کی تاریں گیس پائپ لائنز، نالے اور کئی گوٹھ ہیں،سندھ حکومت نے لندن سے سپریم کورٹ کو موصول رقم پر بھی دعویٰ کردیا اور کہا کہ برطانیہ سے آئی رقم بھی سندھ حکومت کو دی جائے،سروے رپورٹ کے مطابق بحریہ ٹاؤن کا تین ہزار ایکڑ سے زائد زمین پر قبضہ ہے۔ بحریہ ٹاؤن نے یکطرفہ طور پر اقساط کی ادائیگی روک دی،بحریہ ٹاؤن نے اضافی زمین پر بھی قبضہ کررکھا ہے۔متعلقہ حکام کی مدد کے بغیر ایسا نہیں ہوسکتا تھا۔سرکاری حکام نے عوام اور صوبے کے مفاد کو سرینڈر کیا۔سرکاری حکام نے اپنے آفس کا غلط استعمال کیا۔سرکاری حکام کا کام عوام کی خدمت کرنا ہے۔ایڈوکیٹ جنرل یقین دہانی کروائی کہ غفلت کے مرتکب افسران کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔

سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاون کی جمع کرائی گئی رقم حکومت سندھ کو دینے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ایڈوکیٹ جنرل سندھ سے متفق ہیں یہ رقم سپریم کورٹ اپنے پاس نہیں رکھ سکتی، سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کی درخواستیں مسترد کر دیں،سپریم کورٹ نے حکمنامے میں کہا کہ کل 65ارب میں سے بیرون ملک سے آئے 35 ارب وفاقی حکومت کو ملیں گے،بحریہ ٹاون کی جانب سے جمع 30 ارب روپے سندھ حکومت کو ملیں گے،سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کو 460 ارب سات سال میں ادا کرنے کا سپریم کورٹ کا حکم برقرار رکھا، ترمیم کی بحریہ ٹاؤن کی درخواست سپریم کورٹ نے مسترد کردی.

بحریہ ٹاؤن کیس کے دوران 190ملین پاؤنڈز سرکاری خزانے میں جمع کرانے کی درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے خارج کر دی ،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ نیب پہلے ہی اس کیس کی انکوائری کر رہا ہے، عدالت کی آبزرویشن نیب تحقیقات پر اثرانداز ہوسکتی ہے، نیب کو آزادانہ تحقیقات کرنے دیں،وکیل درخواست گزار نے کہا کہ برطانیہ سے آئے 190 ملین پاؤنڈ ملک ریاض کے نہیں عوام کے ہیں،عوام کا پیسہ سرکاری خزانے میں جمع کرانے کا حکم دیا جائے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدالت کا تعلق صرف 460 ارب روپے کی ادائیگی سے ہے،سپریم کورٹ کا اکاؤنٹ جانے اور عدالت جانے، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ درخواست گزار نے معلومات دینی ہیں تو نیب کو دے، وکیل درخواست گزار نے کہا کہ برطانیہ نے ملک ریاض کا ویزا منسوخ کرکے داخلے پر پابندی عائد کی، برطانیہ نے 140 ملین پاؤنڈ اور نو بنک اکاؤنٹ منجمند کیے،منجمند کیے گئے اثاثوں میں پچاس ملین پاؤنڈ کی جائیداد بھی شامل تھی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ رقم جمع کرانے والوں کو نوٹس کر چکے ہیں،درخواست گزار کا حق دعوی نہیں بنتا، درخواست میں سپریم کورٹ کو معزز عدالت لکھا ہوا ہے،یہ معزز عدالت نہیں سپریم کورٹ آف پاکستان ہے،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ جج جج ہوتا ہے جج صاحب نہیں ہوتا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ساتھی جج لگتا ہے مجھے چھیڑ رہے ہیں،

قبل ازیں سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بینچ نے سماعت کی،جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ بھی بینچ میں شامل تھے،سپریم کورٹ کی احکامات کی روشنی میں کمشنر کراچی کی سربراہی میں 10 رکنی سروے ٹیم نے اپنی رپورٹ جمع کروا دی ہے،مشرق بنک کے وکیل راشد انور روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ نیشنل کرائم ایجنسی کے خط کے مطابق لندن کے ویسٹ منسٹر عدالت کے مجسٹریٹ نے اکاؤنٹ فریزنگ آرڈر کالعدم قرار دیے تھے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اکاونٹ ہولڈر کون ہے؟ وکیل مشرق بینک نے کہا کہ اکاونٹ ہولڈر مبشرہ علی ملک، ملک ریاض کی بہو ہیں، اکاؤنٹ ہولڈر مبشرہ علی ملک نے رقم نیشنل کرائم ایجنسی کے کہنے پر نہیں بلکہ خود سے پاکستان بھجوائی تھی،مبشرہ علی ملک نے مشرق بنک لندن برانچ سے 19 ملین سے پاونڈز سے زائد رقم سپریم کورٹ کے اکاونٹ میں منتقل کرائی،وکیل راشد نور نے کہا کہ مبشرہ علی ملک نے 6 نومبر 2019 کو 19 ملین پاونڈ سے زائد رقم برطانیہ سے پاکستان بھجوائی، تفصیلات حاصل ہونے پر عدالت نے مشرق بنک کی حد تک معاملہ نمٹا دیا،عدالت نے حکمنامہ میں کہا کہ مشرق بنک کی جانب سے متفرق درخواست دائر کی گئی،متفرق درخواست 18 اکتوبر کے عدالتی حکمنامے کی روشنی میں دائر ہوئی، مشرق بنک کے وکیل نے عدالت کو بتایا لندن کے مجسٹریٹ کے حکم کی روشنی میں نیشنل کرائم ایجنسی برطانیہ نے اکاؤنٹ بحال کیا،اکاؤنٹ بحالی کے بعد بنک نے 190ملین پاؤنڈ کی رقم مبشرہ علی ریاض کے اکاؤنٹ میں آئی، مبشرہ علی ریاض کے زریعے رقم رجسٹرار سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں آئی، مشرق بنک کے وکیل نے کہا بھیجی گئی 190ملین پاؤنڈ کی رقم بینک کا کوئی دعویٰ نہیں ہے،مشرق بنک کی مزید نمائندگی درکار نہیں ہے، عدالت نے مشرق بنک کو نوٹس دینے کی حد معاملہ نمٹا دیا

بحریہ ٹاؤن کراچی سے متعلق رپورٹ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے پڑھ کر سنا دی ،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ آپ سرکاری زمین کی بات کر رہے ہیں یا اس میں بحریہ ٹاؤن کی نجی زمین بھی شامل ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ نجی زمین بحریہ ٹاؤن کے پاس موجود بھی ہے یا نہیں،جو اضافی زمین ہے اس پر ڈپٹی کمشنر سے پوچھیں اس کی ملکیت کس کی ہے؟ جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر آپ ریاست کے افسر ہیں سیدھا جواب دیں،ڈپٹی کمشنر صاحب صاف بتائیں کتنی زمین سرکاری ہے اور کتنی پرائیویٹ ، ڈی سی ملیر نے عدالت میں کہا کہ 1775 ایکڑ زمین سرکاری ہے جبکہ 37.2 ایکڑ نجی زمین اضافی زمین میں شامل ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بحریہ ٹاؤن کی زمین پر کوئی نشان لگے ہوئے ہیں کہ کہاں سے شروع اور کہاں ختم ہوتی ہے؟ ڈی سی ملیر نے کہا کہ باؤنڈری وال زمین پر موجود ہے،

سروے آف پاکستان کے حکام عدالت میں پیش ہوئے، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ آپ ہمیں تکنیکی طور پر بتائیں سروےکیسے کرتے ہیں۔ حکام نے کہا کہ ہم گلوبل نیویگیشن سیٹلائٹ سسٹم سے سروے کرتے ہیں۔عدالت نے استفسار کیا کہ آپ اس سروے ریکارڈ سے مطمئن ہیں؟ حکام نے کہا کہ جی ہم اس سروے سے مطمئن ہیں۔ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ بحریہ ٹاون نے نیشنل پارک کی زمین پر قبضہ نہیں کیا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پھر تو مسئلہ ہی نہیں ہے، نیشنل پارک پر قبضہ کے خلاف درخواست دائر کرنے والے شہریوں کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین ویڈیو لنک پر پیش ہوئے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ صلاح الدین صاحب سروے کہہ رہا نیشنل پارک کی زمین پر کوئی قبضہ نہیں ہوا،وکیل صلاح الدین نے کہا کہ میں اس سروے رپورٹ کا تقابلی جائزہ لوں گا،

عدالت نے بحریہ ٹاؤن کے وکیل سلمان اسلم بٹ کو روسٹرم پر بلا لیا ،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ نے عدالت کے سامنے ایک غلط الزام لگایا تھا،آپ نے کہا کم زمین ملی لیکن آپ کے پاس تو زیادہ زمین نکلی ،آپ درخواست لائے تھے کہ ہمیں کم زمین ملی،آپ کے پاس زیادہ زمین ہونے کی اس سروے رپورٹ کو کس بنیاد پر مسترد کریں،آپ کے پاس کیا شواہد ہیں کہ آپ کو کم زمین ملی،چیف جسٹس نے وکیل بحریہ ٹاؤن کی سرزنش کر دی

وکیل بحریہ ٹاؤن نےمیمو گیٹ کا حوالہ دیا، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ یہاں سیاسی تقریر نہ کریں،ہم آپ سے بحث کرنے نہیں بیٹھے،وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ مجھے شواہد فائل کرنے دیں گے تو کچھ کروں گا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ تین چار سال گزر گئے ہیں آپ کب فائل کریں گے، آپ اپنی جو درخواست لائے تھے اسے اب آگے چلائیں،وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ اجازت دیں تو میں آپ کا آٹھ نومبر کا آرڈر پڑھوں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل سلمان اسلم بٹ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ جو مرضی پڑھیں،اب اگر آپ نے جازت دیں کے الفاظ استعمال کیے تو میں جرمانہ کروں گا،ہم تھک گئے ہیں یہ الفاظ سن سن کر،ہم سن رہے ہیں آپ سنائیں،وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ مجھے اس سروے رپورٹ پر جواب کا وقت دیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بحریہ ٹائون کی کم زمین دینے کی درخواست خارج کر دینگے، وکیل سلمان بٹ نے کہا کہ دلائل سنے بغیر درخواست کیسے خارج کی جا سکتی ہے؟رپورٹ پر اعتراض کرنا ہر فریق کا حق اور قانونی طریقہ ہے، میمو کمیشن رپورٹ پر بھی اعتراضات جمع ہوئے تھے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سیاسی تقریر باہر جا کر کریں، وکیل بحریہ ٹاؤن نے کہا کہ یہ سیاسی تقریر نہیں قانونی بات ہے،وکیل سلمان بٹ نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ پہلے آپ بول لیں پھر جواب دوں گا، آپ کا احترام کرتا ہوں اس لئے درمیان میں نہیں بولوں گا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ احترام چھوڑیں قانون کے مطابق کارروائی آگے بڑھائیں،

وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ عدالتی آڈرکے مطابق سرے 16 ہزار 8 سو ایکڑ کا ہونا تھا وہ ملی یا نہیں،رپورٹ کے مطابق وہ سروے تو کیا ہی نہیں گیا،میرا حق ہے مجھے سروے رپورٹ پر جواب کا وقت دیا جائے، میں نے ابھی رپورٹ پڑھی بھی نہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کے سامنے ہم نے یہاں رپورٹ پڑھی آپ کہہ رہے ہیں ابھی نہیں پڑھی، آپ خود اس کیس میں عدالت آئے تھے کہ ہمیں کم زمین ملی،آپ نے کوئی چیز فائل نہیں کی ہم نے اس پر سروے کروا لیا،اعلی سطح کی ٹیم نے وہ سروے کیا آپ اسکا حصہ تھے،دس حکومتی افسران نے رپورٹ پر دستحط کئے کیا ساری دنیا آپ کے خلاف ہے؟ آپ بس ہر چیز پر اعتراض کررہے ہیں،عدالت آپ کو کوئی اضافی وقت نہیں دے گی، بات ختم،کئی سالوں سے عملدرآمد کیس مقرر نہیں ہوا تو آپ نے جلد سماعت کی درخواست کیوں نہیں دائر کی؟ بحریہ ٹاون کو اس کیس کے مقرر ہونے میں کوئی دلچسپی تھی ہی نہیں،وکیل سلمان بٹ نے کہا کہ کئی ایسے کیسز جانتا ہوں جہاں سو سو جلد سماعت کی درخواستیں دائر ہوئیں لیکن مقرر نہیں ہوئے،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ آپ روز جلد سماعت کی درخواست کرتے تو بوجھ عدالت پر ہوتا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیی نے کہا کہ حکومتی اداروں نے وقت لگا کر سروے کیا،آپ اس مشق کا حصہ تھے آپ نے تب اعتراض کیوں نہیں کیا؟اب ایک چیز آپ کے خلاف آگئی تو آپ اس پر اعتراض کررہے ہیں۔وکیل نے کہا کہ ایک رپورٹ آگئی ہے مجھے اس پر جواب کا وقت دیں صرف یہ گزارش ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ نہیں عدالت آپکو مزید وقت نہیں دے گی۔وکیل سلمان بٹ نے کہا کہ آپ میرا فئیر ٹرائل کے تحت حاصل کیا ایک حق پھر ختم کردیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ضروری نہیں ہم اپ کی ہر بات سے اتفاق کریں۔وکیل نے کہا کہ میں نے چالیس سال وکالت میں ایسا واقع نہیں دیکھا،ایک رپورٹ آئی ہو اس پر اعتراضات داخل کرنے کا وقت بھی نہ دیا جائے۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ آپ اعتراض بھی صرف اس پر کررہے ہیں کہ آپ نے نجی زمین پر قبضہ نہیں کیا۔آپ کے پاس دستاویزات ہیں۔

دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے اکاونٹس میں آئے پیسے مزید رکھے نہیں جا سکتے، اگر کوئی بھی فریق سپریم کورٹ کے اکاونٹ میں آئی رقم کا دعوی نہیں کرتا تو حکومت پاکستان کو ٹرانسفر کر دیں گے، پیسہ سرکار کے پاس جائے تو سرکار جانے اور بحریہ ٹاون جانے، سپریم کورٹ کا بحریہ ٹاون کی مد میں آئے پیسے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کا اپنے اکاونٹ میں یوں پیسے رکھنا غیر آئینی عمل ہے.وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ یہ پیسہ زمین مالکان کو جانا چاہیے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک مثال ہے جس کا آپ برا نہ منائیے گا، ایک ڈاکا پڑتا ہے اور ڈاکو پیسے بحریہ ٹاون کی جگہ سپریم کورٹ کے اکاونٹ میں ڈال دیتا ہے،کیا سپریم کورٹ ڈاکے کے پیسے رکھ کر شریک جرم بن سکتی ہے؟ جو پیسے مشرق بنک کے ذریعے آئے وہ تو ضبط شدہ رقم تھی،وکیل بحریہ ٹاؤن نے کہا کہ ابھی تک کوئی جرم ثابت ہی نہیں ہوا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم آپ کی نہیں کر رہے ایک مفروضے کی بات کر رہے ہیں،وکیل بحریہ ٹاؤن ے کہا کہ برطانیہ سے وہ رقم ملک ریاض اور بحریہ ٹاؤن کے لیے آئی تھی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وہ رقم آپ کی نہیں تھی وہ ضبط ہوئی تھی،وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ نہیں میں وہ آرڈرز پڑھ دیتا ہوں ایسا نہیں ہوا تھا،

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےوکیل بحریہ ٹاؤن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ باتوں کو بار بار مت دہرائیں،آپ کسی چیز سے رنجیدہ ہیں تو متعلقہ فورم سے رجوع کریں،آپ سینئر وکیل ہیں پیچھے بیٹھے جونیئر وکلا نے بھی آپ سے سیکھنا ہے،وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ میں کہہ رہا ہوں آپ جس فیصلے پر عملدرآمد کروا رہے ہیں وہ درست نہیں ،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم عملدرآمد نہیں کروا رہے آپ خود اس معاہدہ میں شامل ہوئے تھے،وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ اس رضامندی سے ہوئے معاہدہ کو ختم کر دیں ،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم اس فیصلے کے ایک لفظ کو بھی نہیں بدل سکتے،وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ کو اختیار حاصل ہے وہ کسی بھی فیصلے کو واپس کرسکتی ہے، وکیل بحریہ ٹاون نے دوہزار پندرہ کے فیصلے کا حوالہ دیاجس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وہ نظرثانی کے دائرہ اختیار میں ہوسکتا ہے،وکیل نے کہا کہ کہیں کسی کےساتھ زیادتی ہورہی ہو تو عدالت خود فیصلہ واپس لے سکتی ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہوئی،آپ کے ساتھ بات کرنے کے لیے جدوجہد کرنا پڑتی ہے،پوری بات سن لیں،آپکے پاس کوئی شواہد نہیں کہ آپکے ساتھ زیادتی ہوئی،وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ میں نے دستاویز لگا رکھے کہ معاہدے کے مطابق زمین ہمیں نہیں ملی،

دوران سماعت چیف جسٹس فائز عیسیٰ اور بحریہ ٹاؤن کے وکیل سلمان بٹ کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا، وکیل بحریہ ٹاؤن نے کہا کہ آہستہ آواز میں بات کریں تو جواب دوں گا، مجھے یہ گوارا نہیں کہ عدالت سمیت کوئی بھی مجھ پر چلائے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ ہمیں چلانے پر مجبور کر رہے ہیں، ہم چلا نہیں رہے تحمل سے سوال پوچھ رہے ہیں، سینئر وکلاء کا یہ رویہ ہے تو وکالت کے شعبہ پر ترس آ رہا، جج پر انگلی اٹھانا آسان اور اپنی غلطی تسلیم کرنا سب سے مشکل کام ہے، بحریہ ٹاؤن نے کم زمین ملنے کا دعویٰ 2019 میں کیا تھا،درخواست کےساتھ جو شواہد دکھا رہے ہیں وہ 2022 کے ہیں،جو نقشہ آپ دکھا رہے ہیں اس پر کسی کے دستخط ہیں نہ ہی مہر، جو نقشہ آپ دکھا رہے ہیں اس پر کسی کے دستخط ہیں نہ ہی مہر، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ نیب نے کارروائی شروع کی تو بحریہ ٹائون 460ارب روپے پر آمادہ ہوا، بحریہ ٹائون نے 460 ارب پر رضامندی کچھ سوچ سمجھ کر ہی دی ہوگی، وکیل بحریہ ٹاؤن نے کہا کہ سرکار کے منظور کردہ نقشوں سے ثابت کر رہا ہوں کہ پوری زمین نہیں ملی، معاہدے کے تحت 16896 ایکڑ کا قبضہ ملنا تھا لیکن 11547 ایکڑ زمین ملی، انصاف کا تقاضا ہے کہ سروے رپورٹ پر موقف سنا جائے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ انصاف کی باتیں باہر میڈیا پر جا کر کریں، وکیل سلمان بٹ نے کہا کہ میڈیا پر کبھی بولا نہ ہی کبھی میڈیا کیلئے عدالت میں بات کرتا ہوں، مناسب ہوگا کہ آج مزید سماعت نہ کی جائے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سماعت آج ہی مکمل کرینگے، اتنے عرصے بعد درخواستیں مقرر ہوئی ہیں تو کیس چلائیں،وکالت کے دوران سندھ میں مقدمہ مقرر ہونے پر ہی ہم بہت خوش ہوتے تھے، مقدمہ کا فیصلہ جو بھی ہو وہ بعد کی بات ہوتی تھی،مجھے قانون کے شعبے سے وابستہ ہوئے 41 سال ہو گئے ہیں،کچھ عزت دیں ،آپ ایسے ہی جاری رکھیں گے تو نتائج کیلیے بھی تیار رہیں،آپ کو ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے کے آوٹ منظوری کا خط کب جاری کیا؟ وہ خط جاری نہیں کر رہے تھے تو آپ انہیں لکھ دیتے،وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ آپ 16 ہزار ایکڑ زمین سے متعلق دوبارہ آرڈر کردیں اس کا جائزہ لیا جائے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم اور کوئی آرڈر نہیں دیں گے،آج ہی کیس مکمل کریں گے،ہم رات تک بیٹھے ہیں،وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ میں مزید کھڑا نہیں رہ سکتا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم آپکو کرسی دے دیتے ہیں،بیٹھ کر دلائل دے دیں،چیف جسٹس نے عدالتی اسٹاف کو وکیل سلمان اسلم بٹ کو کرسی دینے کی ہدایت دی،وکیل بحریہ ٹاؤن نے کرسی کی آفر قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے کوئی کرسی نہیں چاہیے،

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل سے کہا کہ آپ یہاں قانون کی بات کریں،باقی باتیں کرنی ہیں تو باہر میڈیا پر جاکر کریں،سلمان صاحب پلیز دلائل دیں کیوں اس کو پیچیدہ بنارہے ہیں،وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن کے ساتھ غیر منصفانہ برتاؤ کیا جارہا ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جو بات سپریم کورٹ کے فیصلے سے متعلق نہیں وہ ہم نہیں سنیں گے،وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ آپ نہیں سننا چاہتے تو میں بند کر کے بیٹھ جاتا ہوں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ بیٹھ جائیں بے شک، وہ زمانے گئے جب کیس اپنی مرضی سے چلایا جاتا تھا،آپ کہتے ہیں کسی اور کو زمین مفت دے دی تو آپ کو بھی حکومت مفت دے،آپ کو زمین مفت نہ ملی تو کیا یہ آپ سے غیر منصفانہ ہو گیا،وکیل نے کہا کہ درخواست ہے کہ باہر سے آئی رقم پر نیب تحقیقات کر رہا ہے،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ جس معاملے پر نیب تحقیقات کر رہا ہے تو مناسب ہو گا اس پر ہم بات نہ کریں،وکیل نے کہا کہ بس میری بھی یہ ہی استدعا تھی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آج آپ ایک سچ بول دیں کہ حکومت سندھ بہت کمزور ہے،کرپٹ عناصر مضبوط ،کرسیوں پر لوگ صرف مال بنانے بیٹھے ہیں ،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ 16 ہزار ایکڑ سے زیادہ جس زمین پر تجاوز کیا گیا وہ آپ واپس لے لیتے،ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ ہم قانون کیمطابق کارروائی کریں گے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سندھ میں ایک مختار کار بھی حکومت سے زیادہ مضبوط ہوتا ہےکیا ہم اپنے بچوں کو یہ معاشرہ دینا چاہتے ہیں ،سندھ حکومت شاید لوگوں کی خدمت نہیں کرنا چاہتی،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ کیا ریاست الیٹ کی خدمت کیلئے ہیں،

عدالت نے بحریہ ٹاؤن کے نمائندے کو روسٹرم پر بلا لیا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ جب کوئی پلاٹ خریدے تو اسے کیا دیتے ہیں،نمائندہ بحریہ ٹاؤن نے کہا کہ الاٹمنٹ دیتے ہیں اور مکمل ادائیگی پر قبضہ بھی دیتے ہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے لیگل ایڈوائزر پر بھی برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی سے کسی چیز کی تنخواہ لیتے ہیں،؟ دنیا میں حکومتوں کا مقصد لوگوں کی خدمت کرنا ہوتا ہے۔یہاں حکومت کا مقصد شاید افسران کو امیر بنانا ہے، ایک شیخص پلاٹ خریدے اسے کاغذ کا ایک ٹکڑا ملتا ہے،کل کوئی دوسرا کہہ دے یہ پلاٹ میرا ہے سندھ حکومت اسے کیا تحفظ دے گی،جسٹس اطہرمن اللہ نے لیگل ایڈوائیزر ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہہمارے لیگل جسٹس سسٹم کی ریٹنگ 130 نمبر پر درست ہی ہوئی ہے،ہمارے ملک میں کسی بھی قانون پر عمل نہیں کیا جاتا،بڑے آدمی کا گھر ریگولرائز ہوجاتا ہے عام آدمی کی جھونپڑی گرا دی جاتی ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کوئی بھی ڈویلپر ایک پلاٹ کی الاٹمنٹ دو سو لوگوں کو دے کر نکل جائے تو کیا تحفظ ہے؟ بیرسٹر صلاح الدین نے کہاکہ بحریہ ٹاون الاٹمنٹ کا ایک کاغذ کا ٹکڑا دیتا ہے جس کا ریکارڈ بھی بحریہ کے پاس ہی ہوتا ہے،کئی لوگ پلازے پہلے بیچ دیتے ہیں،اور زمین پھر الاٹمنٹ سے حاصل پیسے سے بعد میں خرید رہے ہوتے ہیں،ججز مشاورت کیلئے کمرہ عدالت سے اٹھ گئے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مشاورت کے بعد فیصلہ تحریر کریں گے

بینک نے بحریہ ٹاؤن کراچی کیس سے متعلق سپریم کورٹ میں دستاویزات جمع کرادیں

بحریہ سے پیسے آئے نہیں آپ پہلے ہی مانگنا شروع ہوگئے،سپریم کورٹ کا وزیراعلیٰ سے مکالمہ

بحریہ ٹاؤن میں پولیس مقابلہ، دو ڈاکو ہلاک،پولیس اہلکار زخمی

آپ کی ناک کے نیچے بحریہ بن گیا کسی نے کیا بگاڑا اس کا؟ چیف جسٹس کا استفسار

آپ کو جیل بھیج دیں گے آپکو پتہ ہی نہیں ہے شہر کے مسائل کیا ہیں،چیف جسٹس برہم

کس کی حکومت ہے ؟ کہاں ہے قانون ؟ کیا یہ ہوتا ہے پارلیمانی نظام حکومت ؟ چیف جسٹس برس پڑے

زمینوں پر قبضے،تحریک انصاف نے بحریہ ٹاؤن کے خلاف قرارداد جمع کروا دی

کرونا سے دنیا بھر کی معیشت کو نقصان پہنچا،اقساط جمع کرانا ممکن نہیں،بحریہ ٹاؤن کی عدالت میں اپیل

بحریہ ٹاؤن کی سپریم کورٹ میں جمع رقم پر حق کس کا؟ اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں کیا تجویز دے دی؟

لندن میں بڑی کاروائی، پاکستانی شخصیت کی پراپرٹی منجمد، اثاثے ملیں گے پاکستان کو

Leave a reply