Category: متفرق

  • شام اور سعودی عرب؛ سفارتی تعلقات کی بحالی کے اثرات

    شام اور سعودی عرب؛ سفارتی تعلقات کی بحالی کے اثرات

    شام اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی روس کے لیے ایک قابل ذکر جیت ہے لیکن یہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان چین کی ثالثی میں ہونے والے معاہدے کے بعد سامنے آئی ہے جبکہ ولی عہد اور وزیر اعظم محمد بن سلمان کی پالیسی نے سفارتی اڈے کو وسعت دینے کی طرف مائل کیا ہے جو اب تک امریکہ تک محدود تھا، جہاں تک سپر پاورز کی بات ہے وہ روس اور چین دونوں کو اپنے دائرہ کار میں شامل کرنے کی سرشار کوشش ہے۔ تاہم شنگھائی تعاون تنظیم میں شمولیت کا فیصلہ بیجنگ کے قریب آنے کا واضح اقدام ہے۔

    صدر بائیڈن نے 2022 میں اپنے دورہ ریاض کے دوران ولی عہد کو ماسکو اور ریاض کے قریب جانے سے بچنے کے لیے اپنی رائے سے آگاہ کیا تھا تاہم یقینی طور پر واشنگٹن مندرجہ بالا پیش رفت پر خوش نہیں ہو سکتا ہے۔ کیونکہ اہم سوال یہ ہوگا کہ کاموں میں اسپینر پھینکنے کے لیے امریکہ کتنا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے؟ لیکن دوسری طرف واشنگٹن اسے ایک مثبت پیشرفت کے طور پر دیکھ سکتا ہے:

    جبکہ عرب ریاستوں کو امریکہ کے ساتھ دوستانہ بنیادوں پر استوار کرنا اور دمشق کے ساتھ مضبوط قدم جمانا۔ شام میں امریکی افواج کے دستے کے پس منظر اور شام اور ایران کے حمایت یافتہ عسکریت پسندوں کے درمیان جاری جھڑپوں کے پیش نظر، اسد کی حکومت کے ساتھ رابطے کا راستہ کھولنے کے لیے یہ یقینی طور پر مفید ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ بشار الاسد کی حکومت ایک حقیقت ہے.

    تاہم ریاض کو یہ سوال ضرور حل کرنا چاہیے کہ شام میں سفارت خانہ کھولنا امریکہ کی جانب سے شام کے خلاف عائد کردہ پابندیوں کی خلاف ورزی نہیں لیکن ریاض اس مقام سے دمشق کے ساتھ تعلقات کو آگے بڑھانے کے لیے کیسے آگے بڑھے گا؟ اسے احتیاط سے آگے بڑھنا ہو گا واشنگٹن کے لیے اسے لیٹا جانا مشکل ہو سکتا ہے جسے روس اور چین کے بڑھتے ہوئے عالمی اثر و رسوخ کو جگہ دینے کے طور پر دیکھا جائے گا۔ یہ امریکہ کے دوست عرب ممالک پر پابندیاں نہیں لگا سکتا تاہم جنگ زدہ شام پر واشنگٹن کے ایسا ہی کرنے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا ہے.

    علاوہ ازیں آگے بڑھنے کے طریقہ سے متعلق ریاض کا فیصلہ اس بات کو مدنظر رکھے گا کہ ایران کے ساتھ اس کے تعلقات کیسے بڑھتے ہیں اور یمن میں جنگ بندی جاری ہے یا نہیں؟ لہذا اگر دونوں پیش رفت مثبت رہیں تو واشنگٹن پر ریاض کا انحصار کم ہو جائے گا لیکن جہاں تک بات امریکی سلامتی کی ضمانتوں کا تعلق ہے تو وہ جیسا کہ عالمی طاقت کی حرکیات میں تبدیلی آرہی ہے وہ مشرقِ وسطیٰ ایک بلبلا کڑھائی ہے جو ان علاقوں میں نئے کھلاڑی قائم کرے گا جنہیں اب تک امریکی اثر و رسوخ کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔

  • کیا امریکہ کو اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کا جائزہ لینا چاہئے؟

    کیا امریکہ کو اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کا جائزہ لینا چاہئے؟

    عالمی اتحاد کو سامنے رکھتے ہوئے کیا امریکہ کو اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کا جائزہ لینا چاہئے؟

    نیتن یاہوکی وزارت عظمیٰ پر واپسی کے فوراً بعد انہوں نے کہا تھا کہ ان کے ملک کا شمالی مقبوضہ مغربی کنارے میں خالی کرائی گئی بستیوں کی تعمیر نو اور دوبارہ آباد کاری کا کوئی ارادہ نہیں،نتین یاہو کے اس اقدام کی امریکہ نے مذمت کی تھی، اورواشنگٹن میں اسرائیلی سفیر کو طلب کر کے اس اقدام پر شدید برہمی کا اظہار کیا تھا،منسوخ شدہ قانون نے 2005 میں اسرائیلی آباد کاروں کے انخلاء کے بعد اسرائیلی شہریوں کو جنین اور نابلس آنے جانے کی اجازت دی تھی، یہ وہ علاقے ہیں جو سب سے زیادہ تشدد کا شکار ہیں یہ فیصلہ آباد کاروں اور فلسطینیوں کے درمیان مسلح تصادم کا باعث بنے گا۔ مارچ 2023 کے اوائل میں ہی موجودہ اسرائیلی حکومت نے شرم الشیخ میں سیکیورٹی سربراہی اجلاس کے دوران اس عزم کو جاری رکھنے اور اس کو برقرار رکھنے کے لیے رضامندی ظاہر کی تھی جس کی وجہ سے واشنگٹن ناراض ہے،محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل کا کہنا ہے کہ کہ امریکہ اسرائیلی حکومت کی اس خلاف ورزی کا جواب دینے کے لیے مختلف آپشنز پر غور کر رہا ہے

    بدلتے ہوئے عالمی اتحاد کے پس منظر میں، لازم و ملزوم جڑواں شہروں کے درمیان تعلق کوئی معنی نہیں رکھتا،اسرائیل تعلقات کی بہتری کے لئے کوشش نہیں کر رہا یہ بیانیہ فرسودہ ہو چکا کیونکہ اسرائیل نے ہی حال ہی میں کئی ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر کئے، اسرائیل کے مراکش، متحدہ عرب امارات، بحرین اور سوڈان کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ قطر نے اسرائیل کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دینے پر اتفاق کیا ہے۔ سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے امریکا کو شرائط پیش کی ہیں۔ اگرچہ دونوں میں غیر رسمی تعلقات ہیں اس کے علاوہ اسرائیل کے اردن اور مصر کے ساتھ امن معاہدے ہیں۔ دوحہ وہ نشست ہے جسے اسرائیلی ہیروں کے تاجر تجارت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ترکی نے اسرائیل کا ساتھ دیا ہے۔سعودی عرب اور ایران کے درمیان مفاہمت ہوئی،حالات تیزی سے بدل رہے ہیں، اب سعودی عرب شام کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لا رہا ہے، چینی یوآن چین، سعودی عرب اور روس کے لیے کرنسی کے تبادلے کے ایک مضبوط متبادل کے طور پر سامنے آرہا ہے

    پاور گیم کے اصول ،اسرائیل اور امریکا کے تعلقات یقیناً اسرائیل کے لیے موزوں ہیں لیکن امریکا کا کیا ہوگا؟ پس منظر میں نئے اتحادوں کے ساتھ مشرق وسطیٰ میں دوبارہ ابھرتی ہوئی صورتحال میں، کیا امریکہ مسلم ریاستوں بالخصوص تیل کی دولت سے مالا مال ممالک کی امریکی معیشت میں سرمایہ کاری کرنے کی نیک نیتی کو داؤ پر لگا رہا ہے؟امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات بہت پیچھے ہیں۔ اب امریکہ کو تیزی سے بدلتے ہوئے نئے عالمی نظام میں اپنے مفاد کا خیال رکھنے کے لیے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو دوبارہ بہتر کرنے کی ضرورت ہے،

    رجسٹرار سپریم کورٹ کی تعیناتی بلوچستان ہائیکورٹ میں چیلنج، امان اللہ کنرانی وکیل مقرر

    حکومت صدارتی حکمنامہ کے ذریعے چیف جسٹس کو جبری رخصت پر بھیجے،امان اللہ کنرانی

    9 رکنی بینچ کے3 رکنی رہ جانا اندرونی اختلاف اورکیس پرعدم اتفاق کا نتیجہ ہے،رانا تنویر

    چیف جسٹس کے بغیر کوئی جج از خود نوٹس نہیں لے سکتا،

  • کیا حمزہ یوسف پاکستان کا سربراہ بن سکتا ہے؟

    کیا حمزہ یوسف پاکستان کا سربراہ بن سکتا ہے؟

    کیا حمزہ یوسف پاکستان کا سربراہ بن سکتا ہے؟

    سکارٹ لینڈ کے پہلے مسلم سربراہ پاکستانی نژاد حمزہ یوسف نے حلف اٹھا لیا اور اپنے فرائض سرانجام دینا شروع کردئیے ہیں۔ سکارٹ نینشل پارٹی سے تعلق رکھنے والے 37 سالہ حمزہ یوسف کو اپنی جماعت کے علاوہ سکاٹش گرینز پارٹی کے ارکان کی بھی حمایت حاصل ہوئی۔ وہ برطانیہ کی بڑی سیاسی جماعت کی قیادت کرنے والے پہلے مسلمان ہیں۔ اس سے قبل سعیدہ وارثی بھی کنزویٹو پارٹی کی 2010 سے 2012 تک شریک چئیرمین رہ چکی ہیں۔

    حمزہ یوسف کے والد مظفر یوسف کا تعلق پنجاب کے علاقے میاں چنوں (خانیوال) سے ہے انہوں نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسکاٹ لینڈ منتقل ہوگئے جہاں بطور اکاونٹنٹ کام کیا۔ حمزہ یوسف کی والدہ کینیا میں رہائش پذیر ایشائی خاتون شائستہ بھٹہ ہیں۔ 1985 میں پیدا ہونے والے حمزہ یوسف نے گلاسگو یونیورسٹی سے سیاسیات میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ پاکستانی نژاد حمزہ یوسف دس سال قبل اپنے آبائی علاقے ایک شادی کی تقریب میں شرکت کے لئے آئے تھے۔ ان کے رشتے دار اور عزیز و اقارب خوشی منا رہے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہی حمزہ یوسف پاکستان کے سربراہ بن سکتے ہیں؟

    پاکستان میں حمزہ یوسف جیسی شخصیات کا وزیراعظم بننا تو بہت مشکل رکن قومی اسمبلی منتخب ہونا بھی قدرے مشکل ہوگا۔ پاکستانی قوم ویسے بہت جذباتی ہے پاکستانی نژاد شخصیات کی ترقی پر خوش ہوتے ہیں۔ امیدیں وابستہ کرتے ہیں دنیا بھر میں اپنے جھنڈے گاڑے مگر وہی پاکستان میں جمہوریت کے لئے آواز بلند نہیں کرتے۔ پاکستان میں بھوک اور افلاس کی ایک وجہ سیاسی عدم استحکام اور غیر سیاسی افراد کی سیاست میں مداخلت ہے۔ ریاست اور سیاست کے اس کھیل میں چونا صرف عوام کو لگتا ہے۔

    بنیادی جمہوریت نہ ہونے اور سیاسی جماعتوں میں اشرافیہ کا کنٹرول اور موروثی قیادت کسی طور پر بھی مڈل کلاس قیادت کو منتخب نہیں ہونے دے گی۔ گزشتہ دنوں سندھ اسمبلی کے ایک رکن نے بتایا کہ سینیٹ میں ووٹ کے لئے 10 کروڑ روپے کی آفر ہوئی۔ان حالات میں متوسط طبقہ تو کیا کاروباری طبقے سے منسلک لوگ بھی اس کھیل میں شامل نہیں ہوسکتے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پارٹیاں اس طرح ٹکٹ تقسیم کرتی ہیں اللہ کی پناہ۔ گزشتہ حکمران جماعت تحریک انصاف پر الزام ہے کہ2018 کے انتخابات کے لئے دو دو کروڑ تک کے ٹکٹ بیچے گئے۔ جب پارٹی ٹکٹ کی قیمت یہ ہوگی تب انتخابات جیتنے کے لئے 50 کروڑ روپے لگائے جائیں گے۔ اور ایک حلقے میں اگر تین مضبوط امیدوار ہوں تو 1 ارب 50 کروڑ روپے اوسطا خرچ ہونگے۔ ان حالات میں جیتنے یا ہارنے والا اتنی بڑی انوسٹمنٹ کو پورا کرنے کے لئے ہر جائز اور ناجائز طریقہ اپنائے گا وہاں حمزہ یوسف تو کہی گم ہو جائے گا۔

    یہاں بھی ہر شہر میں حمزہ یوسف موجود ہیں۔ وہ سیاسیات کی ڈگری بھی حاصل کرتے ہیں اور سیاسی جماعتوں میں بطور کارکن کام بھی کرتے ہیں۔ پاکستانی حمزہ یوسف نوجوانی میں پارٹی پرچم تھامے چلتے ہیں مگر جب انتخابات کی باری آتی ہے تو ان حمزہ یوسفوں کے اوپر پیسے والے مسلط ہوجاتے ہیں۔ اگر کوئی حمزہ یوسف کسی سیاسی جماعت کا چیف آرگنائزر بن بھی جائے تو وقت آنے پر اس حمزہ یوسف کو اتار کر وہاں اس پارٹی کے قائد کی بیٹی یا بیٹا بیٹھ جاتا ہے۔ ہم بھی کیا اپنے دکھ لے کے بیٹھ گئے بھائی حمزہ یوسف آپ کو بہت مبارکباد شکر ہے آپ پاکستان میں نہیں ہیں ورنہ آپ کھبی بھی پاکستان کے وزیراعظم نہیں بن سکتے تھے۔ اسکاٹ لینڈ کی ترقی کے لئے آپ کے قدم مبارک ہوں۔ اور پاکستان میں بھی اللہ تعالیٰ ایسی قیادت نصیب فرمائے اور پاکستان میں بھی عام آدمی کو وزیراعظم تک کے سفر میں آسانی فرمائے۔

  • رمضان اور یوم پاکستان ،تحریر:محمد نعیم شہزاد

    اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اور احسان ہے کہ ہمیں رمضان المبارک کی مبارک ساعتيں ایک بار پھر میسر ہیں۔ یوم پاکستان اور پہلا روزہ دونوں خوشیاں اکٹھی نصیب ہوئیں مگر فی زمانہ میری ارض پاک، ملک پاکستان کچھ مختلف حالات سے دوچار ہے۔ جہاں ایک طرف اقتصادی طور پر ملک قرضوں کے بوجھ تلے ڈوبا ہے تو دوسری طرف اندرونی خلفشار اس کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ بدقسمتی سے میرے وطن میں اچھے حکمرانوں کا فقدان رہا ہے مگر اس بار خرابی حالات کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ عوام بھی ملکی سلامتی اور اجتماعی مفاد کو بھول کر ایک سیاسی راہنما کی فکر میں محو ہیں۔
    انسان فطری طور پر کمزور ہے اور خواہشات کا اسیر بن کر بہت سے غلط افعال کا مرتکب ہو جاتا ہے مگر کبھی کسی کی اس قدر مخالفت نہیں کرنی چاہیے کہ بات مخاصمت اور مجادلت تک بڑھ جائے۔ چار برس پہلے جب ایک منتخب وزیراعظم کی نااہلی عمل میں آئی اور ایک دوسری پارٹی کو برسر اقتدار آنے کا موقع ملا تو سب کچھ مبنی بر انصاف لگا اور ہر نااہلی عین قانونی اور آئینی معلوم ہوئی مگر جب اگلے چند برسوں کے بعد خود یہ منصب چھوڑنا پڑا تو سب غیر آئینی اور اداروں کی مداخلت نظر آنے لگا۔ وہ ادارے جن کے ساتھ یکجہتی دکھائی گئی انھیں مورد الزام ٹھہرا کر سب سیاہ و سفید کا ذمہ دار قرار دے دیا گیا۔ اپنے حق میں ہونے والی ہر بات کو حق اور اپنے خلاف ہونے والی بات کو باطل تسلیم کر لیا گیا۔ قرض تلے ڈوبی ہچکولے کھاتی معیشت کا مذاق اڑایا جانے لگا اور عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے پاکستان کے ساتھ نازیبا سلوک کو محض موجودہ حکومت کی نالائقی اور ناکامی قرار دیا گیا۔
    بحثیت ذمہ دار شہری ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ ملکی حالات کی نزاکت کا ادراک کرے اور اپنی سیاسی وابستگی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وسیع تر قومی مفاد میں سوچے۔ الزامات کی سیاست کو پروان چڑھانے کی بجائے ہر سیاسی رہنما اور جماعت سے مطالبہ کرے کہ وہ قومی سلامتی اور ترقی کے لیے کام کرے۔ بے جا کسی رہنما یا جماعت کی حمایت نہ کی جائے اور ملک و قوم کو افراد اور جماعتوں سے بالاتر سمجھا جائے۔
    بحثیت مسلمان ہمیں خوب جان لینا چاہیے کہ اس جہان رنگ و بو میں صرف ایک ہی ہستی اقتدار اعلیٰ کی مالک ہے اور وہ سب سے قوی و عزیز تر ہے۔ آج ہی قرآن مجید کا مطالعہ کرتے درج ذیل آیت قرآنی نظر سے گزری تو فوراً ملکی حالات کی طرف خیال گیا۔ سورہ اعراف میں جہاں اللہ تعالیٰ نے فرعون کے دربار میں موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں جادوگروں کی شکست اور رجوع الی اللہ کا بیان کیا اور فرعون کے اپنی طاقت کے نشے میں چور بنی اسرائیل کے مردوں کو قتل کرنے اور خواتین کو زندہ چھوڑنے کا ذکر کیا اس سے متصل دنیا میں حکومت اور آخرت کے حسن انجام کا معاملہ ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے ۔

    قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهِ اسْتَعِیْنُوْا بِاللّٰهِ وَ اصْبِرُوْاۚ-اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰهِ یُوْرِثُهَا مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖؕ-وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِیْنَ (الاعراف ، ۱۲۸)

    موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا: اللہ سے مدد طلب کرو اور صبر کرو ۔بیشک زمین کا مالک اللہ ہے، وہ اپنے بندوں میں جسے چاہتا ہے وارث بنادیتا ہے اور اچھا انجام پرہیزگاروں کیلئے ہی ہے۔

    حاصلِ کلام یہ ہے کہ حکمرانی اور بادشاہت اللہ تعالیٰ کی عطا ہے اور وہ جسے چاہتا ہے عطا کر دیتا ہے مگر حسن عاقبت تو صرف پرہیز گاروں کے لیے ہی ہے۔ تو ہم کیوں اس دنیا کی حکومت کے لیے ہر جائز ناجائز کام کر گزرنے کو تیار ہیں ۔ ہم عمل کے مکلف ہیں مگر اسلامی حدود میں رہتے ہوئے ۔ ہمیں ہر ایسے فعل و عمل سے ضرور بچنا چاہیے جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور ناپسندیدگی کا باعث ہو۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس ماہ مبارک میں ہمارے ملک پر خصوصی فضل و کرم فرمائے اور ارض پاکستان کی حفاظت فرمائے ۔ آمین ثم آمین ۔

  • تمباکو پر ہیلتھ لیوی ٹیکس،سیلاب متاثرین کی بحالی بھی ممکن بنائی جا سکتی ہے

    تمباکو پر ہیلتھ لیوی ٹیکس،سیلاب متاثرین کی بحالی بھی ممکن بنائی جا سکتی ہے

    تمباکو پر ہیلتھ لیوی ٹیکس،سیلاب متاثرین کی بحالی بھی ممکن بنائی جا سکتی ہے

    سال 2022 میں آنے والے سیلاب نے پاکستان میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائی۔ سرکاری اعداوشمار کے مطابق دس لاکھ گھر پانی کی نذر ہوگئے اور تاحال لاکھوں افرادبحالی کے لئے حکومتی اقدامات کے منتظر ہیں مگر ان سیلاب متاثرین کی مکمل بحالی کے حکومت پاکستان کے بس سے باہر ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کہتے ہیں کہ سیلاب متاثرین کی مکمل بحالی کے لئے کئی سو ارب درکار ہیں اور اس سلسلے میں حکومت کی طرف سے جنیوا میں ڈونرز کانفرنس کا انعقاد بھی کیا گیا ہے۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایک طرف جہاں ملکی سطح پر وسائل کی کمی کا رونا رویا جاتا ہے وہیں بیشمار ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ بعض بہت ہی سادہ مگر اہم معاملات کو زیر التو ڈال کر قومی خزانے کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان پہنچایا جاتا ہے مثال کے طور پر اگر صرف تمباکو پر ہی ہیلتھ لیوی ٹیکس لگا دیا جائے تو قومی خزانے میں ہر سال 40 سے 50 ارب روپے جمع کیے جا سکتے ہیں اور اس آمدن کو نہ صرف صحت کے شعبے کی بہتری کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے بلکہ تمباکو پر ہیلتھ لیوی ٹیکس کی شرح کو بڑھا کر سیلاب متاثرین کی بحالی جیسے چیلنج سے نمٹنے کے لئے بھی راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔

    پاکستان میں تمباکو نوشی کے باعث صحت پر اخراجات کی لاگت تقریبا 615 ارب روپے ہے جو کہ پاکستان کی جی ڈی پی کے 1.6 فیصد کے برابر ہے جبکہ تمباکو کی صنعت سے حاصل ہونے والی آمدنی کل لاگت کا صرف 20 فیصد ہے۔صحت عامہ کے حوالے سے بھی دیکھا جائے تو تمباکو نوشی سے انسانی صحت اور معاشرے پر جو مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں اس حوالے سے حاصل ہونے والے تجربات و تحقیقات کے نتیجے میں دنیا کے بیشترممالک کئی سال پہلے ہی اس ناسور سے پیچھا چھڑانے پر کمر بستہ ہوچکے تھے اور تمباکو نوشی کے تدارک کے لئے موثر قانون سازی اور پالیسیاں بنا کر ان پرسختی سے عملدرآمد یقینی بنایا گیا تاہم ہمارے ہاں صورتحال قدرے مختلف ہے اور یہاں کسی بھی عمر کے خواتین و حضرات نہ صرف سگریٹ باآسانی خرید سکتے ہیں بلکہ قانون پر موثر عملداری نہ ہونے کے باعث پبلک مقامات سمیت کہیں بھی سگریٹ نوشی کرتے نظر آتے ہیں۔ دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں تمباکو مصنوعات سستی اور آسانی سے دستیاب ہونے کی وجہ سے بچوں اور نوجوانوں میں تمباکو نوشی کا استعمال خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔پاکستان میں روزانہ 1200 سے زائد بچے تمباکو نوشی شروع کرتے ہیں اور ہر سال 1لاکھ 70ہزار سے زائد افراد تمباکو سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ان اعداو شمار میں ہر سال اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے جو انتہائی تشویش ناک ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ تمباکو نوشی کی بنیادی شکل یعنی (سگریٹ) کے متبادل طریقے جیسے شیشہ، ای سگریٹ اور نکوٹین پائوچز جیسی مصنوعات نوجوان نسل کے لئے تباہ کن ثابت ہورہی ہیں، کینسر کا باعث بننے والے کیمیکل سے بنی یہ مصنوعات نکوٹین پائوچز، اور چیونگم کے طور پر پاکستان کی مارکیٹ میں کھلے عام دستیاب ہیں۔تمباکوانڈسٹری سے وابستہ کاروباری کمپنیوں کے دعووں کے برعکس، جدید مصنوعات نقصان دہ ہیں کیونکہ ان میں نکوٹین ہوتی ہے جو کہ نشہ آور اشیا کے استعمال کی بہت سی دوسری اقسام کے لیے پہلی سیڑھی کا کام کرتی ہے اور نوجوانوں میں جسمانی اور ذہنی صحت کے سنگین مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔ ان پراڈکٹس کو سگریٹ نوشی ختم کرنے میں مدد دینے والی مصنوعات ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے لیکن درحقیقت یہ نشے کی نئی اقسام ہیں۔ بعض تحقیقات میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ مصنوعات سگریٹ کے مقابلے میں کم نقصان دہ ہیں مگر ماہرین صحت نے ان مصنوعات کے نقصانات کے بارے میں تفصیلی طور پر خبردار کیا ہے۔

    ہیلتھ لیوی اور اس کا مختلف ممالک میں نفاذ :

    ہیلتھ لیوی ،حکومت توجہ کرے، تحریر:نایاب فاطمہ

    پاکستان میں تمباکو کی مصنوعات پر ہیلتھ لیوی!!! — بلال شوکت آزاد

    ہیلتھ لیوی کیا ہے اور اس کے کیا فواٸد ہیں:

    ہیلتھ لیوی – کیا؟ کیوں؟ اور کیسے؟ — طوبہ نعیم

    ” ہیلتھ لیوی کے نفاذ میں تاخیر کیوں” تحریر: افشین

    تمباکو جیسی مصنوعات صحت کی خرابی اور پیداواری نقصان کا سبب بنتی ہیں

    ویسے تو ہیلتھ لیوی کی منظوری 2019جون میں ہوچکی ہے

    ہیلتھ لیوی ،تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی

    تمباکو پر ہیلتھ لیوی ٹیکس – ایک جائزہ ،تحریر: راجہ ارشد

    تمباکو کے انسانی صحت پر پڑنے والے اثرات تو ایک طرف سنگین نوعیت کے ہیں ہی دوسری طرف تمباکو مصنوعات کا بے دریغ استعمال ملکی معیشت پر ہرسال کروڑوں روپے کا اضافی نقصان پہنچا رہا ہے اس مد میں تمباکو انڈسٹری سے حاصل یونے والے سالانہ ٹیکسز آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ پاکستان میں تمباکو مصنوعات سستی اور آسانی سے دستیاب ہونے کی وجہ سے روزانہ 1200 سے زائد بچے تمباکو نوشی شروع کرتے ہیں اور ہر سال 1لاکھ 70ہزار سے زائد افراد تمباکو سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اس ناقابل تلافی نقصان کو روکنے، کمزور معیشت کو سہارا دینے اور تمباکو نوشی جیسے ناسور سے چھٹکارا پانے کے لئے ماہرین صحت اور تمباکو نوشی کے خلاف کام کرنے والی تنظیموں کی کوششوں سے سال 2019 میں وفاقی کابینہ نے تمباکو مصنوعات پر ہیلتھ لیوی لگانے کے بل کی منظوری دی تاکہ تمباکو نوشی کے بڑھتے ہوئے رحجان کو کم کرنے کے ساتھ قومی خزانے میں سالانہ 40 سے 50 ارب روپے آمدن کا اضافہ کیا جاسکے تاہم تمباکو کی صنعت کے دباؤ کی وجہ سے یہ بل پارلیمینٹ میں منظوری کیلئے پیش نہیں کیا جا سکا تاہم موجودہ ملکی معاشی صورتحال اور سیلاب متاثرین کی بحالی جیسے مشکل چیلنجز سے نبردآزما ہونے کے ضروری یے کہ حکومت جہاں غیرملکی امداد کی منتظر ہے وہیں تمباکو مصنوعات پر بھاری ٹیکسز لگاکر سالانہ بنیادوں پر آمدن بڑھائے کیونکہ دنیا بھر میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ کئی ممالک نے تمباکو پر بھاری ٹیکسز کے ذریعے نہ صرف اپنی معیشت کو مضبوط بنایا بلکہ تمباکو جیسی لعنت سے اپنے معاشروں کو پاک بھی کیا۔

     تمباکو نوشی کے خلاف کرومیٹک کے زیر اہتمام کانفرنس :کس کس نے اور کیا گفتگو کی تفصیلات آگئیں

    تمباکو سیکٹر میں سالانہ 70 ارب روپے کی ٹیکس چوری کا انکشاف

    جب حکمران ٹکٹ ہی ان لوگوں کو دیں جن کا کاروبار تمباکو اور سگریٹ سے وابستہ ہو تو کیا پابندی لگے گی سینیٹر سحر کامران

    تمباکو نوشی کا زیادہ استعمال صحت کے لئے نقصان دہ ہے،ڈاکٹر فیصل سلطان مان گئے

    تمباکو پر ٹیکس عائد کر کے نئی حکومت بجٹ خسارے پر قابو پا سکتی ہے،ماہرین

    تمباکو اور میٹھے مشروبات پر ٹیکس میں اضافہ آنیوالے بجٹ میں کیا جائے، ثناء اللہ گھمن

    تمباکو پر ٹیکس، صحت عامہ ، آمدنی کے لئے جیت

    سگریٹ مافیا کتنا تگڑا ہے؟ اسد عمر ،شبر زیدی نے کھرا سچ میں بتا دیا

  • بندر کے ہاتھ میں ماچس ،تحریر از :عمر یوسف

    بندر کے ہاتھ میں ماچس ،تحریر از :عمر یوسف

    خیال ایک کوند کی مانند دماغ میں آتا ہے۔ پھر انسان کا اختیار ہوتا ہے کہ اس خیال کو کیچ کرے اور اس پر سوچ و بچار شروع کردے ۔ بہت سارے خیال آرہے ہوں اور کسی کو بھی پکڑنا دشوار ہو تو اسے ذہنی انتشار کا نام دیا جاتا ہے ۔سوشل میڈیا کی متنوع زندگی نے انسان کو اتنے خیال دینا شروع کردیے ہیں کہ انسان کے لیے مشکل ہوتا جارہا ہے کہ وہ کس پر سوچ و بچار کرے ۔ گویا ذہنی انتشار شدت اختیار کرتا جارہا ہے ۔ یہ ایک تشویشناک صورت حال ہے ۔ موجودہ مسائل میں اس کو بھی شمار کیا جاسکتا ہے ۔ سوشل میڈیا کا استعمال جس شدت سے فروغ پا رہا ہے انہیں نفسیاتی مسائل کے باعث ممکنہ طور پر مستقبل میں ماہر نفسیات کافی زیادہ ہوجائیں گے یا یوں کہہ لیں کہ ماہرین نفسیات کی مانگ بہت بڑھ جائے گی ۔کیونکہ اس کیفیت کو کنٹرول کرنے کے لیے اعلی ذہنی شعور درکار ہے ۔ اگر شعور نہ ہو تو یہ صورت حال سنبھالنا خاصا مشکل کام ہے ۔پاکستان کے تناظر میں بات کی جائے تو یہاں شرح خوندگی کافی حد تک کم ہے ۔گویا شعور کی سطح بھی کم ہے ۔

    اس لیے ایسے معاشرے میں ڈیجیٹل گیجٹ اور سوشل میڈیا کے متوازن استعمال کی کوئی امید نظر نہیں آرہی ہے۔ نیا دور ترقیوں کے ساتھ مسائل بھی لے کر آیا ہے اور بڑے شدید قسم کے مسائل ہیں جو انسانیت کو درپیش ہیں۔ ایسی صورت حال میں باشعور افراد خود اپنی عادات و اطوار کو طے کریں اور ماتحت لوگ جیسے گھریلو سطح پر اولاد و دیگر خاندانی افراد اور تعلیمی اداروں میں اساتذہ طلباء کی اس عادت کو کنٹرول کریں اس کے علاوہ کوئی صورت نظر نہیں آتی ہے۔ نفسیاتی مسائل کے علاوہ گردن ، آنکھوں کی بینائی اور کانوں کی سماعت کے مسائل کی ذمہ داری بھی ان گیجٹ پر ڈالی جاسکتی ہے ۔ ظاہر ہے زیادہ ذمہ داری تو اسے جانوروں کی طرح استعمال کرنے والے پر ہی آئے گی ۔ گویا بندر کے ہاتھ ماچس آئی تو اس نے جنگل جلا دیا اور اسی کے بھائیوں کے ہاتھ موبائل آیا تو انہوں نے خود کا بیڑا غرق کرلیا ۔

  • پاکستان کی معاشی مشکلات، تحریر:خادم حسین

    پاکستان کی معاشی مشکلات، تحریر:خادم حسین

    پاکستان کی معاشی مشکلات میں مسلسل اضافہ ہوتاچلا جارہا ہے درآمدات اور ترسیلات زر میں مسلسل کمی آتی جارہی ہی جبکہ درآمدات میں خاطر خواہ کمی نہیں آرہی ہے معیشت ایک ایسے بحران کا شکار ہے جس سے نکلنا دن بدن مشکل ہوتا چلا جارہا ہے مہنگائی کا آفریت دن بدن بڑھ رہا ہے اور عوام کی زندگی مشکل ہوتی جارہی ہے لیکن ملک کی سیاسی صورتحال اس تمام صورتحال کو مزد گھمبیر بنانے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے آج ملک تقریباَ معاشی اشاریوں پر ناکافی سکور کر رہا ہے۔وطن عزیز اس وقت جن گمبھیر مسائل و مشکلات کا شکار ہے ان میں سیاسی عدم استحکام،معاشی ابتری اور دہشت گردی سرفہرست ہے۔پھر ان کی کوکھ سے جنم لینے والے مسائل ہیں جن میں مہنگائی،بے روزگاری،کاروباری بدحالی، کرپشن، روپے کی ناقدری،ترسیلات زر میں کمی، توانائی کی طلب کے مقابلے میں رسد کا فقدان، بڑھتے ہوئے غیر ملکی قرضے، تجارتی عدم توازن،محصولات کی کم ہوتی ہوئی وصولی،زرعی عدم توازن، محصولات کی گھٹتی ہوئی وصولی، زرعی و صنعتی پیداوار میں تنزلی،امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال، بڑھتے ہوئے سٹریٹ کرائمز، ریاستی اداروں کی بے توقیری اور عوام میں عدم تحفظ کا خوف بھی شامل ہے۔یہ ملک کے سب سے بڑے مسائل ہیں جن کے حل کے لیے تمام اداروں اور تمام سیاسی پارٹیوں کو ایک پلیٹ فارم میں یکجا ہونا ہوگا۔

    مضبوط معیشت کیلئے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔درآمدات میں توازن، کرنسی کی بیرون ملک غیر قانونی منتقلی کو روکا جائے۔ کسی ملک کو اپنی سرزمین دہشت گردوں کی پناہ گاہ کے طور پراستعمال کرنے کی اجازت نہ دی جائے،قومی سلامتی کا تصور معاشی تحفظ کے گرد گھومتا ہے، معاشی خودانحصاری کے بغیر قومی خود مختاری پر دباؤ آتا ہے عام آدمی خصوصاً مڈل کلاس کو چیلنجز کا سامنا ہے۔یہ بات قابل اطمینان ہے اب اعلیٰ سطح پر پاکستان کے معاشی مسائل کے حل کے لیے سوچا جا رہا ہے۔اس ملک کے مسائل کے حل کیے لئے اجتماعی فیصلے کرنا ضروری ہیں اسمیں ملک کے لیے بہتری کی کوئی راہ نکل سکتی ہے۔ پاکستا ن اس وقت معاشی ناکامی کے دہانے پر کھڑا ہوا ہے اور اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایسی صوربحال ہم برداشت نہیں کرسکتے ہمیں پاکستان کو آگے بڑھانے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے امید کی جاسکتی ہے کہ پاکستان کی سفارت کاری بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادار کرسکتی ہے اس سلسلے میں تیزی سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

    گزشتہ چند سالوں میں اقتصادی ترقی اور پائیدار امن و امان دونوں میں ملک نے حالیہ برسوں میں نمایاں پیشرفت کی ہے۔لہذا یہ حیران کن ہے کہ پاکستان کی اقتصادی سفارت کاری اس قدر غیر موثر کیوں ہے خاص طور پر یہ دیکھتے ہوئے کہ اس کے پڑوسیوں نے اس کی اتنی تندہی سے حمایت کی اور اسے قبول کیا۔آج ہندوستان دنیاکی تیزی سے ترقی کرنے والے معیشتوں میں سے ایک ہے اور اس نے اس اقتصادی طاقت کو اپنے تمام تجارتی شراکت داروں کے ساتھ سفارتی فائدہ کے طور پر استعمال کیا ہے ایران کے ساتھ اس کے تعلقات قابل ذکر ہیں ایران کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات بڑھتے اور گہرے ہوتے جارہے ہیں اور عرب دنیا کے ساتھ اس کے تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔یہ ایک متوازن عمل ہے جس کی ہم تقلید کرسکتے ہیں بلکہ یہ ہمارے لیے ضروری ہے۔یہاں امریکہ کے ساتھ پاکستان کے اقتصادی تعلقات بھی قابل ذکر ہیں۔گزشتہ 70سالوں سے تمام تر مالی امداد اور دوطرفہ دوستی کے باوجود پاکستان باہمی تجارت پر مبنی تعلقات کو فروغ دینے میں ناکام ہورہا ہے اگرچہ امریکہ پاکستان کے اہم برآمدی شرات داروں میں سے ایک ہے لیکن وہ چین یا بھارت کے برعکس اس طرح کے تعلقات کے ذریعے پیش کیے گئے اقتصادی مواقع سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہا ہے کسی بھی بڑی کمپنی کا نام لیں اور ان کے سی ای او کا ہندوستانی نثراد ہونا تقریباً یقینی ہے گوگل اور مائیکروسافٹ طویل فہرست میں صرف چند مثالیں ہیں۔دوسری طرف چین نے نئے سٹارٹ اپس میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہےCNBCاور بلومبرگ کی حالیہ رپورٹس کے مطابق چین اپنے مفادات کو وسیع کرنے اور ان نئے آغاز کے ذریعے پیش کردہ اہم فوجی ٹیکنالوجی (ملٹری روبوٹکس، مصنوعی ذہانت، راکٹ انجن وغیرہ) سے فائد ہ اٹھانے کے لیے تیزی سے ترقی کرنے والے اٹیک اسٹار اپس میں سرمایہ کاری کررہا ہے۔چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی سفارتکاری کی سب سے مشہور مثال ون بیلٹ ون روڈ اقدام ہے۔پہلے سے زیادہ آپ پاکستان کو معاشی سفارتکاری کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت ہے اور اقتصادی فوائد کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے پڑوسیوں کے ساتھ تجارت اور رابطوں کے اقدامات پر کام کیا جانا چاہیے۔

    خادم حسین
    ایگزیکٹو ممبر لاہور چیمبرز آف کامرس و انڈسٹریز
    ڈائریکٹرز پاکستان سٹون ڈویلپمنٹ کمپنی
    سینئر نائب صدر فیروز پور بورڈلاہور

    فواد چودھری کیخلاف درج ایف آئی آر کی کاپی باغی ٹی وی کو موصول

     فواد چودھری کو گرفتار کر لیا گیا 

    میرا پیغام پہنچا دو….فواد چودھری کے کس سے رابطے؟ آڈیو لیک ہو گئی

    ہ عمران خان کی نازیبا آڈیو لیک ہوئی ہے

    آڈیو لیکس، عمران خان گھبرا گئے،زمان پارک میں جاسوسی آلات نصب ہونے کا ڈر، خصوصی سرچ آپریشن

    عمران خان کی جاسوسی، آلات برآمد،کس کا کارنامہ؟

  • بچوں اورنوجوانوں کو تمباکو نوشی سے روکنے کے طریقے

    بچوں اورنوجوانوں کو تمباکو نوشی سے روکنے کے طریقے

    بچوں اورنوجوانوں کو تمباکو نوشی سے روکنے کے طریقے

    تمباکو نوشی صحت عامہ کا ایک بڑا مسئلہ ہے، اور یہ وہ مسئلہ ہے جو عام طور پر جوانی میں شروع ہوتا ہے۔ 10 میں سے تقریباً 9 سگریٹ نوشی 18 سال کے ہونے سے پہلے شروع کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں کو سگریٹ نوشی سے روکنا بہت ضروری ہے۔
    نوجوانوں کو تمباکو نوشی سے روکنے کے لیے بہت سے کام کیے جا سکتے ہیں۔ ان میں تمباکو پر ٹیکس بڑھانا، عوامی تعلیمی مہم چلانا، اور نابالغوں کے لیے تمباکو کی مصنوعات خریدنا مزید مشکل بنانا شامل ہیں۔
    تمباکو کا استعمال ایک قابل روک صحت کا مسئلہ ہے، اور ہمیں اپنے نوجوانوں کو تمباکو نوشی سے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔

    1. تمباکو کا استعمال دنیا بھر میں قابل روک موت کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

    تمباکو کا استعمال صحت عامہ کا ایک بڑا مسئلہ ہے اور یہ دنیا بھر میں قابل روک موت کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق، تمباکو کا استعمال ہر سال 80 لاکھ سے زیادہ لوگوں کی موت کا ذمہ دار ہے اور کینسر، دل کی بیماری، اور دائمی سانس کی بیماری سمیت متعدد غیر متعدی بیماریوں کا ایک بڑا حصہ ہے۔ انسانی صحت پر ہونے والے نقصانات کے علاوہ، تمباکو کے استعمال کے اہم معاشی اخراجات بھی ہوتے ہیں، بشمول تمباکو سے متعلقہ بیماریوں میں مبتلا افراد کے لیے صحت کی دیکھ بھال کی لاگت اور قبل از وقت موت اور معذوری کی وجہ سے پیداواری صلاحیت میں کمی۔

    تمباکو کے استعمال کو کم کرنے کے لیے متعدد موثر حکمت عملییں ہیں، جن میں تمباکو کی مصنوعات پر ٹیکسوں میں اضافہ، تمباکو کی فروخت اور مارکیٹنگ کو محدود کرنے والے قوانین کا نفاذ اور ان کا نفاذ، اور ایسے افراد کو تعلیم اور مدد فراہم کرنا جو تمباکو نوشی چھوڑنا چاہتے ہیں۔ ان حکمت عملیوں کو نافذ کرنے سے، تمباکو سے متعلقہ بیماریوں اور موت کے بوجھ کو کم کرنا اور دنیا بھر کے افراد اور کمیونٹیز کی صحت اور بہبود کو بہتر بنانا ممکن ہے۔

    2. ہر سال تقریباً 6 ملین اموات سگریٹ نوشی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔

    ہاں، تمباکو کا استعمال صحت عامہ کا ایک بڑا مسئلہ ہے اور دنیا بھر میں بڑی تعداد میں اموات کا ذمہ دار ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق تمباکو کا استعمال ہر سال 80 لاکھ سے زائد افراد کی موت کا ذمہ دار ہے۔ اس میں تمباکو سے متعلقہ بیماریوں سے ہونے والی براہ راست اموات، جیسے کینسر اور قلبی بیماری، اور دوسرے ہاتھ کے دھوئیں سے ہونے والی بالواسطہ اموات دونوں شامل ہیں۔

    انسانی نقصان کے علاوہ، تمباکو کے استعمال کے اہم معاشی اخراجات بھی ہوتے ہیں، بشمول تمباکو سے متعلقہ بیماریوں میں مبتلا افراد کے لیے صحت کی دیکھ بھال کی لاگت اور قبل از وقت موت اور معذوری کی وجہ سے پیداواری صلاحیت میں کمی۔ تمباکو پر قابو پانے کے موثر اقدامات کو نافذ کرنا، جیسے تمباکو کی مصنوعات پر ٹیکس بڑھانا، تمباکو کی فروخت اور مارکیٹنگ کو محدود کرنے والے قوانین کا نفاذ اور ان کا نفاذ، اور ایسے افراد کو تعلیم اور مدد فراہم کرنا جو تمباکو نوشی چھوڑنا چاہتے ہیں، تمباکو سے متعلقہ بیماریوں کے بوجھ کو کم کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ اور موت اور دنیا بھر کے افراد اور کمیونٹیز کی صحت اور بہبود کو بہتر بنائیں۔

    3. تمباکو نوشی 20 گنا سے زیادہ اموات کا سبب بنتی ہے جتنی تمام غیر قانونی منشیات کو ملا کر

    ہاں، تمباکو کا استعمال صحت عامہ کا ایک بڑا مسئلہ ہے اور غیر قانونی ادویات کے مقابلے میں بڑی تعداد میں اموات کا ذمہ دار ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق تمباکو کا استعمال ہر سال 80 لاکھ سے زائد افراد کی موت کا ذمہ دار ہے، جب کہ غیر قانونی ادویات کی وجہ سے ہونے والی اموات کی تعداد بہت کم ہے۔ مثال کے طور پر، ڈبلیو ایچ او کا اندازہ ہے کہ منشیات کا غیر قانونی استعمال ہر سال تقریباً 187,000 افراد کی موت کا ذمہ دار ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمباکو نوشی 20 گنا سے زیادہ اموات کا سبب بنتی ہے جتنی تمام غیر قانونی منشیات کو ملا کر۔

    تمباکو کا استعمال متعدد غیر متعدی بیماریوں کی ایک بڑی وجہ ہے، جن میں کینسر، دل کی بیماری اور سانس کی دائمی بیماری شامل ہیں۔ انسانی نقصان کے علاوہ، تمباکو کے استعمال کے اہم معاشی اخراجات بھی ہوتے ہیں، بشمول تمباکو سے متعلقہ بیماریوں میں مبتلا افراد کے لیے صحت کی دیکھ بھال کی لاگت اور قبل از وقت موت اور معذوری کی وجہ سے پیداواری صلاحیت میں کمی۔ تمباکو پر قابو پانے کے موثر اقدامات کو نافذ کرنا، جیسے تمباکو کی مصنوعات پر ٹیکس بڑھانا، تمباکو کی فروخت اور مارکیٹنگ کو محدود کرنے والے قوانین کا نفاذ اور ان کا نفاذ، اور ایسے افراد کو تعلیم اور مدد فراہم کرنا جو تمباکو نوشی چھوڑنا چاہتے ہیں، تمباکو سے متعلقہ بیماریوں کے بوجھ کو کم کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ اور موت اور دنیا بھر کے افراد اور کمیونٹیز کی صحت اور بہبود کو بہتر بنائیں۔

    4. تمباکو کے استعمال سے عالمی معیشت کو سالانہ $1 ٹریلین سے زیادہ کا نقصان ہوتا ہے۔

    ہاں، تمباکو کے استعمال کے اہم معاشی اخراجات ہوتے ہیں، بشمول تمباکو سے متعلقہ بیماریوں میں مبتلا افراد کے لیے صحت کی دیکھ بھال کی لاگت اور قبل از وقت موت اور معذوری کی وجہ سے پیداواری صلاحیت میں کمی۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق تمباکو کے استعمال کی عالمی اقتصادی لاگت $1 ٹریلین سالانہ سے زیادہ ہے۔ اس میں براہ راست اخراجات شامل ہیں، جیسے تمباکو سے متعلقہ بیماریوں میں مبتلا افراد کے لیے صحت کی دیکھ بھال کی لاگت، اور بالواسطہ اخراجات، جیسے قبل از وقت موت اور معذوری کی وجہ سے پیداواری صلاحیت میں کمی۔

    5. دنیا کے 1.1 بلین تمباکو نوشی کرنے والوں میں سے 80 فیصد سے زیادہ کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں رہتے ہیں

    ہاں، یہ سچ ہے کہ تمباکو نوشی کرنے والوں کی ایک غیر متناسب تعداد کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں رہتی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے مطابق، دنیا کے 1.1 بلین تمباکو نوشی کرنے والوں میں سے 80 فیصد سے زیادہ کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں رہتے ہیں۔ یہ اس حقیقت کی وجہ سے ہے کہ ان ممالک میں تمباکو کا استعمال زیادہ ہوتا ہے، لیکن یہ اس حقیقت کی وجہ سے بھی ہے کہ تمباکو پر قابو پانے کے اقدامات، جیسے کہ تمباکو کی مصنوعات کی فروخت اور مارکیٹنگ کو محدود کرنے والے قوانین اور ضوابط، ان میں اکثر کمزور ہوتے ہیں۔ ممالک

    تمباکو کا استعمال متعدد غیر متعدی بیماریوں کی ایک بڑی وجہ ہے، جن میں کینسر، دل کی بیماری اور سانس کی دائمی بیماری شامل ہیں۔ یہ بیماری کے عالمی بوجھ میں ایک بڑا معاون ہے اور دنیا بھر کے افراد اور کمیونٹیز کی صحت اور بہبود پر اس کے اہم منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ تمباکو پر قابو پانے کے موثر اقدامات کو نافذ کرنا، جیسے تمباکو کی مصنوعات پر ٹیکس بڑھانا، تمباکو کی فروخت اور مارکیٹنگ کو محدود کرنے والے قوانین کا نفاذ اور ان کا نفاذ، اور ایسے افراد کو تعلیم اور مدد فراہم کرنا جو تمباکو نوشی چھوڑنا چاہتے ہیں، تمباکو سے متعلقہ بیماریوں کے بوجھ کو کم کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ اور موت اور دنیا بھر کے افراد اور کمیونٹیز کی صحت اور بہبود کو بہتر بنائیں۔

    6. پاکستان ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں تمباکو نوشی کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔

    ہاں، یہ سچ ہے کہ پاکستان میں تمباکو کے استعمال کی شرح بہت زیادہ ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق، پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ تمباکو نوشی کی شرحوں میں سے ایک ہے۔ 2017 میں، ڈبلیو ایچ او نے اندازہ لگایا کہ پاکستان میں تقریباً 25 فیصد بالغ آبادی کسی نہ کسی شکل میں تمباکو کا استعمال کرتی ہے۔ اس میں تمباکو نوشی اور دھوئیں کے بغیر تمباکو دونوں شامل ہیں۔

    7. تقریباً 60% پاکستانی مرد اور 10% پاکستانی خواتین سگریٹ نوشی کرتے ہیں۔

    ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے مطابق پاکستان میں تمباکو کا استعمال عام ہے، تقریباً 60 فیصد پاکستانی مرد اور 10 فیصد پاکستانی خواتین کسی نہ کسی شکل میں تمباکو کا استعمال کرتی ہیں۔ اس میں تمباکو نوشی اور دھوئیں کے بغیر تمباکو دونوں شامل ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کا اندازہ ہے کہ پاکستان میں تقریباً 25 فیصد بالغ آبادی تمباکو کا استعمال کرتی ہے، جو کہ دنیا کی بلند ترین شرحوں میں سے ایک ہے۔

    تمباکو کا استعمال متعدد غیر متعدی بیماریوں کی ایک بڑی وجہ ہے، جن میں کینسر، دل کی بیماری اور سانس کی دائمی بیماری شامل ہیں۔ یہ بیماری کے عالمی بوجھ میں ایک بڑا معاون ہے اور دنیا بھر کے افراد اور کمیونٹیز کی صحت اور بہبود پر اس کے اہم منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ تمباکو پر قابو پانے کے موثر اقدامات کو نافذ کرنا، جیسے تمباکو کی مصنوعات پر ٹیکس بڑھانا، تمباکو کی فروخت اور مارکیٹنگ کو محدود کرنے والے قوانین کا نفاذ اور ان کا نفاذ، اور ایسے افراد کو تعلیم اور مدد فراہم کرنا جو تمباکو نوشی چھوڑنا چاہتے ہیں، تمباکو سے متعلقہ بیماریوں کے بوجھ کو کم کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ اور موت اور پاکستان میں افراد اور کمیونٹیز کی صحت اور بہبود کو بہتر بنانا۔

    8. پاکستانی نوجوانوں میں سگریٹ نوشی کی شرح

    پاکستانی نوجوانوں میں سگریٹ نوشی کی شرح کا درست اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ اس موضوع پر محدود ڈیٹا دستیاب ہے۔ تاہم، یہ امکان ہے کہ پاکستانی نوجوانوں میں سگریٹ نوشی کی شرح بالغوں کے مقابلے میں کم ہے، کیونکہ نوجوانوں میں سگریٹ نوشی شروع کرنے کا امکان کم ہے اور وہ سگریٹ نوشی مخالف پیغامات کو زیادہ قبول کرتے ہیں۔

    9- نتیجہ

    نوجوانوں کو تمباکو نوشی سے روکنے کے بہت سے طریقے ہیں۔ تعلیم ایک اہم روک تھام کی حکمت عملی ہے۔ نوجوانوں کو تمباکو نوشی کے خطرات کے بارے میں درست معلومات فراہم کرنے سے انہیں سگریٹ نوشی کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں باخبر فیصلے کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اسکولوں اور کام کی جگہوں پر تمباکو نوشی کی پالیسیاں بنانا نوجوانوں کی تمباکو نوشی سے حوصلہ شکنی میں بھی مدد کر سکتا ہے۔

    نوجوانوں کو تمباکو نوشی سے روکنے کے طریقوں کے بارے میں اکثر پوچھے جانے والے سوالات یہ ہیں:

    1- نوجوانوں کو تمباکو نوشی سے روکنے کے لیے سب سے مؤثر حکمت عملی کیا ہیں؟

    نوجوانوں کو تمباکو نوشی سے روکنے کے لیے کچھ موثر ترین حکمت عملیوں میں شامل ہیں:

    1. تمباکو نوشی کے خطرات اور تمباکو سے پاک زندگی گزارنے کے فوائد کے بارے میں تعلیم فراہم کرنا

    2.ایسے قوانین کا نفاذ اور ان کا نفاذ جو نوجوانوں تک تمباکو کی مصنوعات کی فروخت اور مارکیٹنگ کو محدود کرتے ہیں۔

    3. تمباکو کی مصنوعات پر ٹیکسوں میں اضافہ کرنا تاکہ وہ نوجوانوں کے لیے کم سستی ہوں۔

    4. اسکول اور کمیونٹی پر مبنی پروگراموں کے ذریعے نوجوانوں کو مدد اور وسائل فراہم کرنا

    5. والدین کی شمولیت کی حوصلہ افزائی کرنا اور نوجوانوں کے لیے ایک اچھی مثال قائم کرنا

    2- والدین اپنے بچوں کو سگریٹ نوشی سے روکنے میں کس طرح مدد کر سکتے ہیں؟

    والدین اپنے بچوں کو سگریٹ نوشی سے روکنے میں ایک اچھی مثال قائم کر کے، سگریٹ نوشی کے خطرات کے بارے میں اپنے بچوں کے ساتھ کھلی اور دیانتدارانہ گفتگو کر کے، اور اپنے بچوں کو جو چھوڑنا چاہتے ہیں انہیں مدد فراہم کر کے کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ والدین اپنے بچوں کو تمباکو نوشی یا ایسے ماحول میں جانے سے بچنے کے لیے بھی اقدامات کر سکتے ہیں جہاں تمباکو نوشی عام ہے۔

    3- اسکول اور کمیونٹیز نوجوانوں کو تمباکو نوشی سے روکنے میں کس طرح مدد کر سکتے ہیں؟

    اسکول اور کمیونٹیز نوجوانوں کو تمباکو نوشی کے خطرات اور تمباکو سے پاک زندگی گزارنے کے فوائد کے بارے میں تعلیم اور وسائل فراہم کرنے کے لیے مل کر کام کر سکتے ہیں۔ اس میں تمباکو سے پاک پالیسیوں کا نفاذ، تمباکو نوشی چھوڑنے کے خواہشمند طلباء کو مدد فراہم کرنا، اور نوجوانوں کو وسائل اور مدد فراہم کرنے کے لیے کمیونٹی تنظیموں کے ساتھ کام کرنا شامل ہو سکتا ہے۔

    4- میڈیا مہمات اور عوامی خدمت کے اعلانات نوجوانوں کو سگریٹ نوشی سے روکنے میں کس طرح مدد کر سکتے ہیں؟

    میڈیا مہمات اور عوامی خدمت کے اعلانات تمباکو نوشی کے خطرات اور تمباکو سے پاک رہنے کے فوائد کے بارے میں بیداری پیدا کر سکتے ہیں۔ ان مہمات کو مخصوص گروہوں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے، جیسے کہ نوجوان یا افراد جو تمباکو نوشی چھوڑنے پر غور کر رہے ہیں اور تمباکو نوشی سے متعلق رویوں اور طرز عمل کو تبدیل کرنے کا ایک مؤثر طریقہ ہو سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، جیسے فیس بک اور انسٹاگرام، کو بھی معلومات کا اشتراک کرنے اور نوجوانوں کے ساتھ سگریٹ نوشی کے خطرات اور تمباکو سے پاک زندگی گزارنے کے فوائد کے بارے میں مشغول کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

  • منافقت کا دوسرا نام ، تحریر: آصف گوہر

    منافقت کا دوسرا نام ، تحریر: آصف گوہر

    منافقت کا دوسرا نام Flexibility…..
    سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مشہور واقعہ ہے کہ مشرکین مکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا قریش کے سردار ابو طالب کے پاس آئے اور کہنے لگے اپنے بھتیجے سے کہیں کہ اپنے موقف میں تھوڑی Flexibility پیدا کریں اور ہمارے بتوں کو برا بھلا نہ کہیں ہم انکو دولت سے نواز دیں گے جس خاتون سے کہیں گے اس سے ان کا نکاح کروا دیتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر تاریخی الفاظ کہے کہ” اللہ کی قسم ! وہ میرے داہنے ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند لا کر رکھ دیں اور یہ چاہیں کہ میں اللہ کا حکم اس کی مخلوق کو نہ پہنچاؤں، میں ہر گز اس کے لئے آمادہ نہیں ہوں۔ یہاں تک کہ اللہ کا سچا دین لوگوں میں پھیل جائے یا کم از کم میں اس جدوجہد میں اپنی جاں دے دوں‘‘
    اپنے مقصد پر ڈٹے رہنا اور سخت ترین حالات میں بھی استقامت اختیار کرنا بڑے لیڈر رہنما کے اوصاف میں سے ہے
    پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان جو بارہا اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے رول ماڈل ہیں اور دنیا کے سب سے بڑے لیڈر تھے ،
    لازمی بات ہے کہ ایسے شخص کا موقف واضح ہوگا اور وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے ڈٹ جائے گا،
    چند روز پہلے ایک موٹیویشنل اسپکیر نے عمران خان سے ملاقات کی جس کا سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا پر بڑا چرچا ہوا اس نے اگلے ہی روز یہ وزیر اعظم شہباز شریف سے بھی ملے ان ملاقاتوں کا احوال جاننے کے لئے نیوز اینکر نے موصوف سے سوال کیا تو گویا ہوئے کہ فلاں میں Flexibility ہے اور فلاں rigged ہے قیامت کے روز ہونے والے فیصلے کئے بیٹھے ہیں،
    اندازہ لگا لیں کہ جس شخص کو یہ بھی علم نہیں کہ
    غلط کو غلط کہنا اور اپنے عظیم مقصد کے حصول کے لیے استقامت اختیار کرنا ہی حق ہے نہ کہ اپنے موقف میں وقتی فائدے کے لیے لچک پیدا کرلینا ،اب یہ کسی طرح کی motivations اپنے سننے والوں کو فراہم کرتے ہونگے اپ خود فیصلہ کر لیں۔
    عظیم مقصد کے حصول کے لئے ڈٹ جانا ہی حق ہے اور وقتی فائدے کے لیے موقف میں Flexibility اختیار کرنا
    دو رخی اور منافقت کے سوا کچھ بھی نہیں۔
    کالم نگار ،آصف گوہر

  • پاکستان ایک زرعی ملک!!! — آصف گوہر

    پاکستان ایک زرعی ملک!!! — آصف گوہر

    ہم بچن سے مطالعہ پاکستان میں یہ پڑھتے ائے ہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ملک کی 75 فیصد آبادی پیشہ زراعت سے وابستہ ہے
    اگر اس دعوے کو سچ مان لیا جائے تو پھر ہر 3 ماہ بعد ملک میں چینی آٹے اور پیاز ٹماٹر کے بحران کا کیوں سامنا کرنا پڑتا ہے.

    کہیں تو ابہام اور غلطی ہے جس کا خمیازہ ہم بھگتے رہے ہیں اور ہماری آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا.

    میری سمجھ میں جو بات آتی ہے وہ زمینداروں نے لالچ بری بلا کی کہانی کے مصداق روز ایک سونے کا انڈا لینے کی بجائے مرغی ہی کو ذبح کر دیا اور اپنے زرعی مربعے مرلہ کے حساب سے ہاؤسنگ سوسائٹیز مافیا کو فروخت کئے ،اگر لاہور شہر کی بات کی جائے تو ایک وقت تھا فیروز پور روڈ چونگی امرسدھو، جی ٹی روڈ شالیمار باغ، شاہدرہ ، ملتان روڈ، ٹھوکر نیاز بیگ بھیکے وال موڑ اور غازی روڈ سے سے آگے کھیت کھلیان شروع ہوجاتے تھے جو لاہور کی سبزیوں کی ضرورت کے لئے کافی تھے ، آہستہ آہستہ پراپرٹی کے کام نے زور پکڑا اور ہاؤسنگ سیکٹر مافیا سر گرم ہوا اور لاہور کے مضافات میں واقع دیہاتوں کی زرعی زمین دیکھتے ہی دیکھتے ہڑپ کر .

    ڈی ایچ اے لاہور کو ہی دیکھ لیں یہ گاؤں امرسدھو، کماہاں، جامن ،لیل گوونڈی مانوالہ اور ان گنت دیہاتوں کی زمین پر پاک بھارت بارڈر تک کی زرعی زمین نگل چکا ہے، اس کے علاوہ چھوٹے بڑے کئ ہاؤسنگ ڈویلپرز نے لاہور کے زرعی رقبہ پر بےشمار ہاؤسنگ سوسائٹیز بنا دی ہیں، یہی حال ملک کے دیگر اضلاع کا ہے.

    اب سوال یہ ہے کہ اس کا حل کیا ہے؟

    نقل مکانی اور دیگر وجوہات کی بنا پر اس جن کو بوتل میں بند کرنا ممکن نہیں، اب انفرادی طور پر ہم اپنے روزمرہ کی ضرورت کچن گارڈنینگ سے پوری کر سکتے، بنگالیوں نے اپنے گھروں میں خالی جگہوں پر عقب میں سبزیاں وغیرہ لگا رکھی ہوتی ہیں راقم نے سعودی عرب قیام کے دوران یہ مشاہدہ کیا کہ وہاں پر بنگالی لیبرز نے اپنے کنٹینرز نما کمروں کے پیچھے لہسن، سبز مرچیں، پالک وغیرہ لگا رکھی تھی وہ بازار سے مچھلی لاتے اور اپنے کچن گارڈن سے ضرورت کی سبزی توڑ لیتے.

    ہم بھی اپنے گھروں پر کچن گارڈنینگ کرسکتے ہیں ہماری تھوڑی سی توجہ سے ہم اپنے آپ کو مصروف بھی رکھ سکتے ہیں اور اپنی ضرورت کی سبزی بھی حاصل کر سکتے ہیں۔

    لاہور میں ہمارے ایک دوست رانا نعیم نے اپنے گھر کی ناکار چیزوں کو استعمال کرکے گھر کی چھت پر باقاعدہ کچن گارڈن بنا رکھا ہے اور اس میں ٹماٹر، بند گوبھی بروکلی بینگن کدو لہسن اور سبز مرچیں لگا رکھی ہیں جہاں سے اپنی ضرورت کے مطابق روز کچھ نہ کچھ توڑ کر آرگینک سبزیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

    اس کے علاوہ رانا نعیم نے Rooftop gardening with rana کے نام سے یوٹیوب چینل بنا رکھے ہیں جہاں وہ چھوٹے گھروں کے مکینوں کو چھت پر کچن گارڈنینگ ٹاور گارڈنینگ لگانے کی مفید معلومات اور رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔

    آپ اگر اپنے گھر کے لان اور چھت پر کچن گارڈنینگ کا سیٹ اپ لگانا چاہتے ہیں تو ان سے رابطہ کرسکتے ہیں.