
"ہیلتھ لیوی”
بچے ہمارا مستقبل ہوتے ہیں۔ سادہ دور میں بچوں کی تربیت والدین مل کر کیا کرتے تھے، ماں کی گود پہلی درسگاہ تھی،
ماں کی زمہ داری اولاد کو اچھے برے کی تمیز سکھانا بینادی اسلامی تعلیمات سے روشناس کروانا تھا، بیٹوں کو باپ مساجد میں لے جاتے پانچ وقت کا نمازی بناتے قران پاک کی تعلیم دیتے تھے، سیکھے علوم کو اپنی زندگی میں شامل کرتے اور زندگی اس کے مطابق گزارنے کی کوشش کرتے جس میں کافی حد تک کامیاب رہتے۔ پھر وقت بدلا ضروریات بدلیں اور اور باپ کو کمانے کے لیے شہر سے دوردرزا کما کر لانا پڑتا جسکی وجہ سے وہ اتنا وقت نہیں دے پاتا بچوں کو، اور یوں ساری زمہ داری ماں پر آگئی، گوکہ ماں نے بھرپور توجہ دی لیکن وہ باپ کی زمہ داری اس لحاظ سے پوری نا کرپائی کہ بچے گھر سے باہر کس طرح کی صحبت اختیار کرتے ہیں یا صحبت میں رہتے ہیں۔ یوں کچھ بچے تو احساس زمہ داری کے ساتھ رہے لیکن کچھ بچوں کے رویوں میں تبدیلی آئی اور وہ گھر کے ماحول کو گھٹن زدہ سمجھنے لگ گئے کچھ باغی ہوئے تو کچھ بری صحبت میں پڑ گئے پھر دنیوی تعلیم کی جدت نے بجائے انکے رویوں کو نرم کرنے کے بلکہ سخت کردیے
آزادی ملی گھر سے باہر دور نکلنے کی اور "آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل” والی بات ہوگئی لیکن معاملات پھر بھی کسی حد تک قابو میں رہے، معاشرے کے بدلتی روایات اور تغیر نے انسانوں کو ایک مشین کی مانند بنا دیا، وہ انسان جو انسانیت کے جذبے سے بھرپور تھا اس میں تلخی مادیت اور دنیا پرستی آگئی، وقت کچھ اور بدلا تو باپ کے ساتھ ماں بھی گھر سے باہر کام کرنے لگی اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس سے پہلے عورت پر پابندیاں تھیں یا باہر نکلتی نہیں تھی بلکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ تعلیم کے نام پر فیشن کے نام پر آزادی کے نام پر سٹیٹس اپگریڈ رکھنے کے نام پر جب کمانے نکلی تو بچے اس دور میں نا ماں کی ترجیحات میں شامل رہے اور نا باپ کی ترجیحات میں۔ باپ پیسے کمانے کے چکر میں یوں پڑا کہ بھول ہی گیا بچے کو پیسے کے علاوہ توجہ محبت اور ساتھ چاہیئے وقت چاہیئے جبکہ ماں بھی کچھ ایسا ہی مصروف ہوئی اور بچے متاثر ہونے لگے۔ بچے ملازمین کے ہاتھوں پلنے لگے، جو اچھی بری باتوں کو والدین نے بتانا تھا وہ معاشرے سے پتہ لگنے لگیں، اور جب تربیت کی زمہ داری والدین چھوڑ دیں معاشرہ لے لے تو بچے ہر اس بری عادت میں بھی پڑنا شروع کردیتے ہیں جہاں والدین نہیں چاہتے ہرگز نہیں چاہتے۔ترقی کے نام پر جس طرح معاشرے میں نئی نئی دریافتوں نے در کھولے وہیں انسان زہنی طور پر پرسکون نا رہا اور اس سکون کو تلاش کرنے کے لیے وہ در، بدر پھرا اور کچھ ایسی عادات میں پڑ گیا جس سے حال اور مستقبل دونوں تباہ ہوئے، ایک وقت تھا جب زہنی سکون کے لیےلوگ نماز پڑھتے تھے اور اب ادویات کھاتے ہیں سگرہٹ پیتے ہیں نشہ آور اشیاء کا استعمال کرتے ہیں جس سے صحت تباہ ہوتی ہے معاشرے میں ناانصافی پھیلتی ہیں ان اعادات کی وجہ سے گھر برباد ہوجاتے ہیں۔ پھر علاج کے نام پر جہاں لاکھوں خرچ ہوتے ہیں وہیں معاشرے میں عزت بھی جاتی رہتی ہے۔۔ ان اشیاء میں سگریٹ، پان، چرس، آئس، اور کچھ میٹھے مشروبات ہیں،ان چیزوں کا سب سے زیادہ نقصان یہ ہے کہ یہ تیرہ چودہ سال کے بچوں کی بھی پہنچ میں ہیں یہ چیزیں سکول، کالجز میں عام مل رہی ہیں پھر فیشن کے نام پر لڑکے تو ایک طرف لڑکیاں بھی اس، میں عادی ہوگئیں، ان تمام چیزوں کو دیکھتے ہوئے جب تک ٹھوس اقدامات نہیں کیے جائیں گے تب تک نا صرف ان سے چھٹکارہ مشکل ہے بلکہ مستقبل میں یہ زیادہ گھمبیر صورتحال اختیار کرجائیں گے۔ان چیزوں مکمل طور پر اگر بین نہیں بھی کیا جاسکتا تو کم از، ان پر ٹیکس اتنا ضرور ہو کہ یہ بچوں کی پہنچ سے دور رہیں۔ اس ضمن میں 2021 مئی میں ایک سمری وزارت خزانہ کو بھیجی گئی جس میں سگریٹ، اور میٹھے مشروبات پر ہیلتھ لیوی کے نام سے ٹیکس عائد کرنے کی سفارش کی گئی کیونکہ ہیلتھ لیوی سے دو فائدے ہونگے ایک تو یہ بچوں کی پہنچ سے دور ہونگے دوسرا یہ ریونیو اربوں میں دے سکتی ہے جو کہ یقیناً فائدہ مند ہوگا۔ویسے تو ہیلتھ لیوی کی منظوری 2019جون میں ہوچکی ہے کابینہ سے اور وزارت خزانہ نے اس پر اعتراض بھی نہیں کیا کسی قسم کا۔ لیکن نفاز تاخیر کا شکار ہوا کیونکہ یہاں بھی ایک مافیا بیٹھا ہے جسے بچوں اور انکے مستقبل سے زیادہ اپنا پیسہ اور کاروبار سے مطلب ہے۔ ہیلتھ لیوی کا معاملہ تاخیر کا شکار ہونے کی وجہ سے سالانہ تقریبا 38ارب کا نقصان ہورہا ہے۔وفاقی کابینہ کی منظوری کے باوجود تقریباً دو سال سے تاخیر ہورہی ہے، ملٹی نیشنل کمپنیوں کا سیگریٹ کی فروخت کا شئر 90فیصد ہے، جس کی وجہ سے ہیلتھ لیوی کے لیے کابینہ سے بل منظور کروایا گیا لیکن آج تک اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا ہے۔ایف بی ار نے اربوں روپے کے اس ریونیو کے بارے میں کہا ہے کہ 18ویں ترمیم کے بعد چونکہ صحت صوبائی معاملہ ہے اس لیے وفاقی کابینہ کا منظور شدہ کوئی ٹیکس عائد نہیں کیا جا سکتا۔جبکہ وزارت صحت یہ کہتی ہے کہ ہیلتھ لیوی ایک جنرل ٹیکس ہے اسکا صوبائی محکمہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پہلے اسکا نام بھی کافی سخت یعنی "گناہ ٹیکس” تھا لیکن بعد میں بحث ومباحثہ کے بعد اسکا نام بدل کر ہیلتھ لیوی رکھ دیا۔ہیلتھ لیوی کے نفاز میں تمباکو، صنعت اور سیگریٹ تیار کرنیوالی کمپنیوں کی جانب سے دباؤ اور اثر رسوخ کی وجہ سے ہیلتھ لیوی بل پر کوئی خاطر خواہ پیشرفت نہیں ہو رہی ہے اور وزیراعظم اور کابینہ کی منظوری کے باوجود تاخیر کا شکار ہے۔ وزارت صحت کی تجویز کے مطابق ہیلتھ لیوی بل میں سیگریٹ کی 20سٹک کے حامل فی پیکٹ پر دس روپے اور میٹھے مشروبات کی 250ملی لیٹر بوتل پر ایک روپے ہیلتھ لیوی ہونا چاہیئے۔ اس سے سالانہ تقریباً 38ارب روپے سے زیادہ ریونیو حاصل ہوگاجسے دوسرے صحت کے معاملات پر خرچ کیے جاسکتے ہیں۔ دوسال کے التواء سے تقریباً اربوں کا نقصان ہوچکا ہے۔ پاکستان میں صحت پر اٹھنے والے اخراجات تقریباً 600ارب روپے سے زائد ہےہیلتھ لیوی کے نفاز سے صحت کے شعبے کو سہولیات فراہم کرن کتنا آسان ہوجائے گا۔صرف پاکستان میں یہ کوشش نہیں کی گئی بلکہ کئی اور ممالک میں ہیلتھ لیوی کے طرز کے ٹیکسز عائد ہیں۔ جن ممالک میں ہیں یہ ٹیکس ان میں تھائی لینڈ، برطانیہ، سعودی عرب، یو اے ای، میکسیکو، فرانس، فلپائن شامل ہیں۔ ان ممالک میں ان ٹیکسز یا لیوی کے وجہ سیگریٹ نوشی میں کمی ہوئی ہے، ماہرین صحت اور عام عوام کا بھی یہی خیال ور مطالبہ ہے کہ اس تاخءر کا نوٹس لیا جائے اور اور نفاذ کی راہ ہموار کی جائے تاکہ یہ ناسور ہمارے بچوں سے دور رہے۔
تحریر و تحقیق
ارم شہزادی
@irumrae
”باغی ٹی وی”کاٹویٹراکاونٹ بلاک کرنےکی ٹویٹرکی دھمکیاں ناقابل قبول:بھارت نوازی بند کی جائے:طاہراشرفی
:وزیرخارجہ ٹویٹرکی طرف سے بھارتی ایما پردھمکیوں کا نوٹس لیں:باغی ٹی وی کا شاہ محمود قریشی کوخط
ٹویٹر کے غیر منصفانہ اقدام پر باغی کے ساتھ ہمدردیاں جاری رہیں گی ، عمار علی جان
باغی ٹی وی تحریری مقابلہ،پوزیشن ہولڈرز میں انعام تقسیم
آل پاکستان قائداعظم میموریل برج ٹورنامنٹ کا آغاز،باغی ٹی وی کی ٹیم بھی شامل
بچوں کو اغوا کرنے والی گینگ کی خاتون باغی ٹی وی کے دفتر کے سامنے سے اہل محلہ نے پکڑ لی