ہیلتھ لیوی ،تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی

ہیلتھ لیوی ،تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی
اقوام متحدہ کا 1948 کاآرٹیکل 25 انسانی حقوق سے متعلق ہے جس میں صحت اور فلاح و بہبود بشمول کھانا ، لباس ، رہائش اور طبی دیکھ بھال اور ضروری معاشرتی خدمات ہرشہری اوراس کے خاندان کابنیادی حق تسلیم کیا گیاہے،پاکستان کے آئین میں عوام کا بنیادی حق صرف تسلیم کیا گیاہے،لیکن آئین میں ایک ایساسقم بھی موجود ہے جو تشویش کاباعث ہے کہ آج تک آئین میں صحت کوبنیادی حق کا درجہ نہیں دیا گیا ، آئین کے مطابق صحت صرف ایک اصولی حق ہے۔ یہ سقم عوام کو صحت کی سہولیات کی فراہمی میں مسائل سے دو چار کرتا ہے اورافسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری حکومتیں WHOکی سفارشات کے مطابق صحت کا بجٹ مختص نہیں کرتیں اور جوبجٹ مختص ہوتا ہے اسے بھی ایمانداری سے استعمال نہیں کیاجاتاجوکہ کرپشن کی نظرہوجاتا ہے ۔

پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات اور نت نئی بیماریوں کی دریافت سے ایک پریشان کن صورتحال پیداہوچکی ہے ،غربت اوربے روزگاری کی شرح بڑھ چکی ہے ،عوام ذہنی و معاشی پریشانیوں میں مبتلاہے،وہیں علاج معالجہ کی مناسب سہولیات کا فقدان ہے، سرکاری ہسپتالوںکی حالت ایسی ہے کہ جہاں مریضوں اوران کے لواحقین کوہروقت اذیت کاسامناکرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں کینسر،چھاتی اور دل کی مختلف بیماریاں عام لوگوں کی ہلاکت کی سب سے بڑی وجہ بن چکی ہیں،ان بیماریوں میں مبتلا ہونے کی کئی وجوہات ہیں ،اس بات میں کوئی شک نہیں کہ steroidکا استعمال خطرناک حد تک ہورہا ہے، جوکینسر میں اضافے کی ایک اہم وجہ ہے۔ اس کے علاوہ گٹکے، پان، چھالیہ اور مین پوری کی وجہ سے گلے کا کینسر بھی بڑھ رہا ہے۔ جب کہ ان سب سے خطرناک صورتحال تمباکو نوشی کی وجہ سے پیدا ہوچکی ہے ، پاکستان میں ہر سال تقریبا ایک لاکھ سے زائد افراد تمباکو سے پیدا ہونے والی مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو کرمرجاتے ہیں۔ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں تمباکو نوشی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے بڑی تعداد میں لوگ مرتے ہیں۔ان بیماریوں میں منہ، حلق، سانس کی نالی اور پھیپھڑوں کا کینسر شامل ہیں۔ایک تحقیق کے مطابق ملک بھر کی تقریباََ 32 فیصد بالغ مردسگریٹ نوشی کرتے ہیں جبکہ سگریٹ نوش بالغ خواتین آبادی کا کل آٹھ فیصد ہیں۔ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر یہی رجحان جاری رہاتو2030 میں تمباکو نوشی سے منسلک وجوہات کی بنا پر مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر کم از کم 80لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ اور یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ دل کے امراض میں مبتلا ہونے والے 25فیصد افراد اور پھیپھڑوں کے کینسرزدہ 75فیصد افراد کی ہلاکت کا براہ راست تعلق سگریٹ نوشی سے ہوتاہے دوسری طرف تمباکو نوشی کا بینائی پر اثر ہونا ایک معلوم حقیقت ہے تاہم ایسوسی ایشن آف آپٹومیٹرسٹس کا کہنا ہے کہ ہر پانچ تمباکو نوش افراد میں سے صرف ایک فرد اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ تمباکو نوشی اندھے پن کا بھی باعث بن سکتی ہے۔اعداد و شمار کے مطابق تمباکو کی کم قیمتوں کی وجہ سے 10.7 فیصد پاکستانی نوجوان جن میں 6.6 فیصد لڑکیاں اور 13.3 فیصد لڑکے شامل ہیں، تمباکو کی مصنوعات استعمال کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ تقریباََ 1200 سے زائدپاکستانی بچے روزانہ سگریٹ نوشی شروع کرتے ہیں۔بچوں کو سگریٹ نوشی کے نقصانات کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہوتا ،بچے توصرف شوقیہ سگریٹ پیتے ہیں ،اس کی ذمہ دار ہماری حکومتیں ہیں ، 80 ارب روپے سالانہ تقریبا سگریٹ پر پھونک دیئے جاتے ہیں 2019 ،کی ایک ریسرچ کے مطابق ملک کوان بیماریوں اور اموات کی وجہ سے 615ارب کا نقصان ہو رہا ہے۔

ایک ایسی لیگل انڈسٹری جو ہمیں سالانہ اتنا نقصان دے رہی اسے کیوں سہولتیں دی جا رہی ہیں، ٹیکس کی مدمیں اس تمباکو انڈسٹری سے سالانہ150 ارب اکٹھا ہوتا ہے جبکہ نقصان زیادہ ہو جاتا ہے۔ پوری دنیا سگریٹ پر ٹیکس لگاتی ہے ،عمران خان کی حکومت میں اس کی کابینہ نے ہیلتھ لیوی بل منظورکیا لیکن ایف بی آر کی کالی بھیڑوں نے یہ کہہ کر سگریٹ پر ہیلتھ لیوی کا اطلاق نہ ہونے دیا کہ آئینی اور قانونی ماہرین کے مطابق صحت کاشعبہ صوبائی حکومتوں کے دائرہ میں آتاہے اس لئے وفاق تمباکوکے استعمال پر صحت ٹیکس یا ہیلتھ لیوی نافذہی نہیں کرسکتا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرسابق حکومت کامنظورشدہ بل کے مطابق سگریٹ پر ہیلتھ لیوی نافذکردی جائے تو اس مد میں حکومت 40سے 50 ارب سالانہ ٹیکس لے قومی خزانے میں جمع کرسکتی ہے۔لیکن اس وقت ٹوبیکومافیاحکومت پراثرانداز ہے اوراتناطاقتورہے کہ وہ اپنی پالیسیاں بناکرحکومت سے نافذ کرارہے ہیں،یہاں تک کہاگیا کہ ایک وفاقی وزیرصاحبہ کاخاوندایک انٹرنیشنل ٹوبیکوکمپنی کاکنٹری ہیڈ ہے جس کی وجہ سے پالیسی میکرزگونگے ،بہرے اور اندھے بنے بیٹھے ہیں ،ہم سب پاکستانیوں کو یک زبان اورایک آوازہوکر ان پالیسی میکرزکوبتانا ہوگا اور تمباکو کی مصنوعات پر ہیلتھ لیوی کو لاگو کراکے اپنے بچوں کو تمباکو کے استعمال سے بچانے کے لیے ایک قدم آگے بڑھنا ہوگا۔زندہ قومیں ہمیشہ اپنے مستقبل کیلئے پہلے سے ہی منصوبہ بندی کرلیتی ہیں ،ایک خبرکے مطابق نیوزی لینڈ میں ایک نئے قانون کی منظوری دی گئی ہے جس کا مقصد آنے والی نسل کے لیے سگریٹ خریدنا قانونی طور ناممکن بنانا ہے، منظور کیے گئے قانون کے تحت 14 سال یا اس سے کم عمر افراد کے لیے زندگی بھر کے لیے سگریٹ خریدنا ناممکن بنایا جائے گا،نیوزی لینڈ کی ایسوسی ایٹ وزیر صحت عائشہ ورال نے بتایا کہ قانون کی منظوری سے ہزاروں افراد زیادہ لمبی اور صحت مند زندگی گزار سکیں گے جبکہ تمباکو نوشی سے ہونے والی بیماریوں جیسے کینسر، ہارٹ اٹیک اور فالج سمیت دیگر پر خرچ ہونے والے اربوں ڈالرز بچ سکیں گے۔اس قانون کے مطابق یکم جنوری 2009 یا اس کے بعد پیدا ہونے والے افراد کو کبھی بھی تمباکو فروخت نہیں کیا جاسکے گا،یعنی 50 سال بعد بھی کوئی فرد نیوزی لینڈ میں سگریٹ خریدنے کی کوشش کرے گا تو اسے اپنے شناختی کارڈ سے ثابت کرنا ہوگا کہ وہ کم از کم 63 سال کا ہے،نئے قانون میں کہا گیا ہے کہ سگریٹ میں نکوٹین کی مقدار میں ڈرامائی حد تک کمی کی جائے گی جبکہ ان کی فروخت عام دکانوں کی بجائے مخصوص ٹوبیکو اسٹورز میں ہوگی۔عائشہ ورال نے پارلیمان میں خطاب کے دوران کہا کہ ایسی پراڈکٹ کو فروخت کی اجازت دینے کی کوئی اچھی وجہ نظر نہیں آتی جس کو استعمال کرنے والے 50 فیصد افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اس قانون کی منظوری کے بعد ہم مستقبل میں اس لت کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

دنیا اپنے بچوں کو لمبی اورصحت مندزندگی دینے کیلئے کتناسنجیدگی کامظاہرہ کررہی ہے، لیکن پاکستان میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے کیونکہ ٹوبیکو انڈسٹری نے پوری طاقت لگا کر حکومت میں بیٹھے کرپٹ لوگوں کے ساتھ ملکر ساز باز کی اور تمباکو کی مصنوعات پر ٹیکس لاگو نہیں ہونے دیا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ آج ہمارا یہ عالم کہ ہے کہ ہم دنیا سے پیسے مانگ رہے ہیںلیکن ہمارے خود غرض حکمران اور پالیسی میکر سیگریٹ پرٹیکس کیوں نہیں لگاتے،حالانکہ پیسہ موجود ہے ٹیکس لگائیں، پیسہ کنزیومر نے دینا ہے، ہیلتھ لیوی کا بنیادی مقصد ٹوبیکو کے استعمال کی حوصلہ شکنی کرنا ہے ،جبکہ پاکستان میں سگریٹ نوشی سے روزانہ 500 کے قریب اموات ہوتی ہیں۔

شکاگو میں یونیورسٹی آف الینوائے، انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ ریسرچ اینڈ پالیسی کے پروفیسر فرینک جے چلوپکا کا کہنا ہے کہ تمباکو پر ٹیکسوں میں اضافے کو بڑے پیمانے پر تمباکو کے استعمال اور اس کے نتائج کو کم کرنے کے لیے ایک انتہائی موثر حکمت عملی سمجھا جاتا ہے، 100 سے زیادہ تجربات سے یہ ثابت ہواہے کہ، بشمول کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کی بڑھتی ہوئی تعداد واضح طور پر یہ ظاہر کرتی ہے کہ تمباکوپر بھاری ٹیکس، تمباکو کے استعمال کو کم کرنے کے لیے ایک طاقتور ذریعہ ہے جبکہ ساتھ ہی ساتھ حکومت کو آمدنی کا ایک قابل اعتماد ذریعہ بھی فراہم کرتا۔ تمباکو کے ٹیکسوں میں نمایاں اضافہ جو تمباکو کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرتا ہے موجودہ تمباکو استعمال کرنے والوں کو استعمال کرنے سے روکنے اور ممکنہ نئے صارفین کو تمباکو کے استعمال کو کم کرنے کی ترغیب دیتا ہے، جس کا سب سے زیادہ اثر نوجوانوں اور غریبوں پر پڑتا ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے تمباکو پر ٹیکس لگانے کو سگریٹ نوشی کی روک تھام کیلئے بہترین طریقوں میں شامل کیا ہے

نتیجہ کے طور تمباکو پر ٹیکسوں میں نمایاں اضافہ تمباکو کنٹرول کی ایک انتہائی موثر حکمت عملی ہے اور صحت عامہ میں نمایاں بہتری کا باعث بنتی ہے۔ صحت پر مثبت اثرات اس وقت بھی زیادہ ہوتے ہیں جب تمباکو ٹیکس میں اضافے سے حاصل ہونے والی آمدنیوں میں سے کچھ کو تمباکو کنٹرول، صحت کے فروغ اور/یا صحت سے متعلق دیگر سرگرمیوں اور پروگراموں میں مدد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ عام طور پر، مخالفانہ دلائل کہ زیادہ ٹیکس سے نقصان دہ معاشی اثرات مرتب ہوں گے، یہ سب غلط دعوے ہیں یا پھرحد سے زیادہ انہیں بڑھاچڑھا کربیان کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں سگریٹ اتناسستاہے کہ ایک ڈبی کی قیمت ایک ڈالرسے بھی کم ہے ،سگریٹ کی قیمت کم ہونے کی وجہ ہیلتھ لیوی لاگونہ ہوناہے اب وزیراعظم پاکستان میاں شہبازشریف کوچاہئے کہ تمباکونوشی کے معاملے کوسنجیدہ لیکرسگریٹ پر بھاری ایکسائزٹیکسز کے ساتھ ہیلتھ لیوی کے نافذکرنے کااعلان کریں ،پاکستان کے کل کومحفوظ بنانے کی خاطراپنے کسی وزیر مشیر کے ذاتی مفاد کو نہ دیکھیں فی الفورسگریٹ پرہیلتھ لیوی لگاکرٹیکس وصولی پرعملدآم دکرائیں،ہیلتھ لیوی اور دیگرٹیکس بڑھنے سے سگریٹ کی قیمت بڑھ جائے گی تو اس کے استعمال میں خودبخود کمی واقع ہو گی اورسگریٹ نوشی کی وجہ سے موت کے منہ میں جانے والی ہماری نوجوان نسل بھی ہلاکت سے بچ جائے گی۔ حکومت کے اس اقدام سے سالانہ اضافی ریونیو کے علاوہ بیماریوں پرخرچ ہونے والے اربوں روپے کی بچت بھی ہوگی ۔سیلاب نے جس طرح پاکستان میں تباہی مچائی اس سے پاکستان کی معیشت تباہ ہوگئی،اور اس وقت پاکستان کوخطرناک معاشی بحران کاسامنا ہے، ہیلتھ لیوی نافذ ہونے سے حکومت کو معاشی بحران پرقابوپانے میں کافی حدتک معاون ثابت ہو گی ،پاکستان کے معاشی حالات کودیکھتے ہوئے تمباکو پرہیلتھ لیوی کانفاذازحدضروری ہوچکا ہے ۔

باغی ٹی وی اور کرومیٹک کے زیر اہتمام تحریری مقابلے میں ڈاکٹر غلام مصطفیٰ بڈانی نے تیسری پوزیشن حاصل کی ہے

باغی ٹی وی تحریری مقابلہ،پوزیشن ہولڈرز میں انعام تقسیم

آل پاکستان قائداعظم میموریل برج ٹورنامنٹ کا آغاز،باغی ٹی وی کی ٹیم بھی شامل

بچوں کو اغوا کرنے والی گینگ کی خاتون باغی ٹی وی کے دفتر کے سامنے سے اہل محلہ نے پکڑ لی

حکومت پاکستان ٹویٹرکی بھارتی نوازی کا معاملہ عالمی سطح پراٹھائے”باغی ٹی وی”کےاکاونٹ کوبلاک کرنےکا نوٹس لے

”باغی ٹی وی”کاٹویٹراکاونٹ بلاک کرنےکی ٹویٹرکی دھمکیاں ناقابل قبول:بھارت نوازی بند کی جائے:طاہراشرفی 

بھارت کی ایما پر”باغی ٹی وی”کا ٹویٹراکاونٹ بند کرنےکی ٹویٹرکی دھمکیوں ‌کی مذمت کرتےہیں‌:وزرائےگلگت بلتستان اسمبلی

باغی ٹی وی کا ٹوئیٹر اکاؤنٹ بند کئے جانے کی درخواست دینے پر پاسبان کے چیئرمین الطاف شکور و دیگر عہدیداران کا رد عمل

 بجلی نہ ہونے کی خبر دینے پر شرپسند افراد نے باغی ٹی وی کے رپورٹر فائز چغتائی کو تشدد کا نشانہ بنا ڈالا

:وزیرخارجہ ٹویٹرکی طرف سے بھارتی ایما پردھمکیوں کا نوٹس لیں:باغی ٹی وی کا شاہ محمود قریشی کوخط 

ٹویٹر کے غیر منصفانہ اقدام پر باغی کے ساتھ ہمدردیاں جاری رہیں گی ، عمار علی جان

Leave a reply