یہ اس وقت کی بات ہے جب ھم کالج میں پڑھتے تھے سردیوں کی رات تھی اور دوستوں کے ساتھ ہاسٹل کے کمرے میں بیٹھ کر غمگیں ٹپے سن رہے
منٹو اس معاشرے کے حساس اور نامور لکھاری کہیں نا کہیں اپنی ہی بہتر نصف کے معاشی تقاضوں کو نظر انداز کرتے رہے صفیہ نے کیا نہیں کیا تھا منٹو
قبل از اسلام اخلاقی اقدار کے انحطاط کا یہ عالم تھا کہ لوگ زمانۂ جاہلیت میں زنا کا اقرار بھی کیا کرتے تھے اور زنا عربی معاشرے میں بڑے پیمانے
وہ اپریل کی ایک خوشگوار سی صبح تھی، میں فیس بک کی تانکا جھانکی میں لگا ہوا تھا کہ میری نظر سے کسی خاتون کی ایک تحریر گزری، میں شاید
پہلے زمانے کے لوگ بہت خوش و خرم زندگی گزارتے تھے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ یہ بات بالکل درست ہو انکے بھی مسائل ہوتے ہوں گے ایسا کیسے ہو
ماں۔۔۔۔۔میری پیا ری ماں ازقلم :عظمی ربانی پیاری ما ں تیرے شفیق چہرے کی چمک دل نے تو کیا روح نے بھی......... تجھ سے ہی محبت کی ہے میں جہاں
یار کو ہم نے جابجا دیکھا کہیں ظاہر کہیں چھپا دیکھا کہیں وہ بادشاہ تخت نشیں کہیں کاسہ لیے گدا دیکھا عشق کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اس
نہ یہ عمران کا پاکستان نہ یہ نواز کا پاکستان نہ یہ زرداری کا پاکستان نہ یہ عمران کا پاکستان ہے ۔۔۔۔نہ یہ نواز کا پاکستان ۔ ۔نہ یہ زرداری
ڈھونڈتے ہیں اُسے ہر گلی ، ہر نگر کھو گیا ہے مرا وہ فقیرِ شہر جِس کی باتوں میں تھی کس قدر سادگی اُس نے اُمید کی ہم کو دی
تشدد کا رستہ شریعت نہیں ہے ازقلم:محمد یوسف واصفی محبت کا دعوٰی محبت نہیں ہے تشدد کا رستہ شریعت نہیں ہے محبت نبی ؐ کی خدا کی عطا ہے فقط