اسلامی جمہوریہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کا مقصد جہاں اسلامی قوانین کا نفاذ تھا وہی اس کے پیچھےایک نظریہ بھی تھا۔ کہ اگر ہم بات کریں دو قومی
ایسا لگتا ہے کہ ملک میں نوٹوں کی گڈیوں سے وزارتوں اور عہدے باٹنے کا سلسلہ بھی شروع گیا ہے ۔ کیونکہ سیاست کے اپنے اصول ہیں ۔ بیڈ گورننس
1974 میں ذولفقار علی بھٹو کی زیر صدارت ایک اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کی گئ، جس میں اس وقت کے نامور حکمرانوں شاہ فیصل، کرنل قذافی، صدام حسین سمیت کثیر
ہم پاکستانی قوم بھی بڑی عجیب ہیں ہمیشہ وہ چیز کو دیکھتے اور جو ہمارے سامنے چل رہی ہو جیسے کے میاں محمد نواز شریف کا دور حکومت ۔ نواز
سوچا کہ اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق اس پر کچھ لکھوں سانپ کی زہر اس کے منہ میں ہوتی ہے جسے وہ اپنے دانتوں کی مدد سے مخالف پر استعمال
ہمیں سرائیکی نہیں پنجابی وزیر اعلیٰ پنجاب چاہیے۔ چلو مان لیتے وہ کام نہیں کرتے تو زیادہ تکلیف تو نہیں ہوتی تھی جب سرائیکی وزیر اعلی آ گیا تھا تو
خاندانی سیاست کے بادشاہ خود کو سمجھنے والے بلاول بھٹو کی قیادت میں آج سندھ پرحکومت کررہی پیپلز پارٹی کراچی والوں کے لیے بڑے بڑے اعلان تو ہیں لیکن صرف
تغافل کی آغوش میں سورہے ہیں تمہارے ستم اور میری وفائیں — ہر شہر اور صوبے کو وہاں رہنے والے لوگوں سے منسوب کیا جاتا ہے ۔ جیسے پشاور کو
سینئر ایڈوکیٹ بشیر قاضی صاحب نے ایک بار کہا تھا کہ بندہ دو وجوہات سے دھوکہ کھاتا ہے ۔ پہلی وجہ لالچ اور دوسری وجہ اعتماد یعنی آپ جس سے
افغانستان سے امریکی اتحادی فوجوں کے اچانک انخلا کے بعد خطے کی موجودہ سکیورٹی حالات خاصے غیر متزلزل دیکھائی دے رہیں ۔ ایک طرف امریکہ کے بھاگ نے سے افغانستان








