طیارہ حادثہ: تفتیشی ٹیم میں ایئرفورس عملے کی اکثریت پر پائلٹس کو تحفظات،مگرکیوں ؟

0
47

اسلام آباد: طیارہ حادثہ: تفتیشی ٹیم میں ایئرفورس عملے کی اکثریت پر پائلٹس کو تحفظات،مگرکیوں ؟،اطلاعات کے مطابق پائلٹ ایسوسی ایشن اور ایوی ایشن ماہرین نے پی آئی اے طیارہ حادثے کی تحقیقات کے لیے حکومت کی جانب سے تشکیل کردہ تفتیشی ٹیم میں ایئرفورس کے افراد کی اکثریت پر تحفظات کا اظہار کردیا ہے۔

ذرائع کے مطابق پاکستان ایئر لائنز ایسوسی ایشن (پالپا) کے سیکریٹری کیپٹن عمران ناریجو نے ایک نجی ٹی وی سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تفتیشی ٹیم متوازن نہیں کیونکہ اس میں کمرشل پائلٹس کی نمائندگی کی کمی ہے، کمرشل پائلٹس کمرشل جیٹ لائنرز کے حادثات کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں

وفاقی حکومت نے طیارہ حادثے کی تحقیقات کے لیے چار رکنی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی ہے جس میں تین کا تعلق ایئرکرافٹ ایکسیڈنٹ انویسٹی گیشن بورڈ سے ہے، جن میں سے دو پاک فضائیہ کے افسران ہیں جبکہ چوتھے رکن پاکستان ایئر فورس سیفٹی بورڈ سے تعلق رکھتا ہے، اس ٹیم میں کوئی کمرشل پائلٹ شامل نہیں جہاں اس ٹیم کو کم سے کم وقت میں تفتیش کے نتائج جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔

پالپا کے ایک اور آفیشل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کسی بھی واقعے کی تحقیقات کے لیے انتہائی اہم ہے کہ جس طرح کے طیارے کا حادثہ ہوا ہو، اس کے ‘ریٹڈ’ پائلٹ کو تفتیش کا حصہ بنایا جائے۔ماضی میں پی آئی اے میں سینئر مینجمنٹ کے عہدے پر فائش رہنے والے ایک اور سینئر پائلٹ نے بھی اس مؤقف سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ اس مخصوص طرز کے طیارے کے پائلٹ کی تحقیقات میں عدم موجودگی تفتیش میں ایک اہم کمی محسوس ہو گی۔

تفتیشی ٹیم کے امتزاج پر تحفظات کی وجہ ان کا تجربہ اور جہاز کے خصوصی معلومات کی کمی ہونے کے ساتھ ساتھ اسے مفادات کے ٹکراؤ کے طور پر بھی دکھا جا رہا ہے کیونکہ پی آئی اے کے سربراہ ایک موجودہ ایئر مارشل ہیں اور ان کے کام کے طریقہ کار اور جہازوں کی حالت سمیت متعدد چیزوں پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔

پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹو ایئر مارشل ارشد ملک نے جمعہ کر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسافر طیارہ فلائٹ کے قابل تھا اور عملے کو مناسب تربیت فراہم کی گئی تھی۔پائلٹس اور ایوی ایشن ماہرین کا ماننا ہے کہ پائلٹس کی عالمی نمائندہ تنظیم پالپا اور دیگر تجربہ کار پائلٹس کو اس تفتیشی ٹیم میں شامل کیا جانا چاہیے تھا تاکہ حقائق کی جانچ کی جاسکے اور درست نتائج اخذ کیے جا سکیں۔کیپٹن ناریجو نے کہا کہ اس کا مقصد کسی کو ذمے دار ٹھہرانے کیے بجائے مستقبل میں اس طرح کے حادثات سے بچنا ہے۔

پی آئی اے کا طیارہ اے 320-214 میں 99 افراد سوار تھے اور دوبارہ لینڈ کرنے کی کوشش کے دوران طیارہ تباہ ہو گیا تھا جبکہ طیارے میں سوار 97 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ دو افراد معجزانہ طور پر بچ گئے تھے۔تفتیش کے دوران جہاز کی تباہی کو مختلف زاویوں سے دیکھا جائے گا جس میں پائلٹ کی ذہنی اور جسمانی حالت کا جائزہ لیا جائے گا، طیارہ اڑان بھرنے کے قابل تھا یا نہیں، لینڈنگ کے دوران طیارے میں کوئی فنی خرابی تو نہیں ہوئی اور حادثے کا ممکنہ طور پر سبب بننے والی دیگر وجوہات پر بھی غور کیا جائے گا۔

پائلٹ اور ایئر کنٹرول ٹاور کے درمیان ہونے والے گفتگو کے مطابق طیارہ معمول سے زیادہ اونچائی پر تھا، یہ پانچ میل کے فاصلے پر ساڑھے تین ہزار فٹ کی بلندی پر تھا، جب پائلٹ کو اونچائی کے حوالے سے کنٹرول ٹاور نے خبردار کیا تو اس نے کہا وہ اس سے مطمئن ہے اور رن وے 25 آئی پر پہنچنے والا ہے۔پائلٹس نے کہا کہ اس موقع پر طیارے کو ایک ہزار 600 فٹ کی بلندی پر ہونا چاہیے تھا۔

یہاں پر دو سوالات جنم لیتے ہیں کہ جہاز اتنی اونچائی سے اس طرح نیچھے کیوں آ رہا تھا اور کیا پائلٹ کا غیرمعمولی اونچائی کے باوجود ایک چکر لگانے کے بجائے لینڈنگ کا فیصلہ درست تھا؟

ان کے ساتھ کام کرنے والے پائلٹس کا ماننا ہے کہ ‘مؤثر’ طریقے سے اڑان انجام دینے کے مینجمنٹ کے دباؤ کے سبب ہو سکتا ہے کہ پائلٹ نے یہ فیصلہ کیا ہو اور اس نے سوچا ہو کہ اگر اس نے ایک اور چکر لگایا تو فلائٹ ڈائریکٹوریٹ اس سے اس بارے میں سوال پوچھ سکتا ہے۔دوسری جانب پائلٹ کی کنٹرول ٹاور سے گفتگو کے دوران جس وقت انہیں لینڈنگ کے لیے کلیئرنس دی جا رہی تھی اس وقت کاک پٹ میں الارم کی آواز کو سنا جا سکتا ہے۔

ایک سینئر پائلٹ نے الارم کو ‘ماسٹر وارننگ’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کا تعلق ترتیب (configuration) کے مسائل سے ہے، کیا آیا اس وقت طیارے کی رفتار لینڈنگ کے لحاظ سے زیادہ تھی یا اس کے لینڈنگ گیئر میں فنی خرابی ہوئی، الارم ہائیڈرالک سسٹم کی دہری ناکامی یا انجن میں آگ لگنے کی وجہ سے بھی بج سکتا ہے۔یہاں یہ بات جاننا بھی ضروری ہے کہ الارم بجنے کی وجہ کیا تھی اور کیا وجہ تھی کہ کنٹرول ٹاور سے اس وقت تک گفتگو کے دوران پائلٹ کو فنی خرابی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے نہیں سنا گیا۔

بالآخر پائلٹ نے ‘گو اراؤنڈ’ (دوبارہ چکر لگانے) کا فیصلہ کیا اور بتایا کہ وہ 25 آئی پر واپس آئے گا، گو اراؤنڈ ایک تکنیکی لفظ ہے جس کا مطلب ہے کہ پائلٹ نے لینڈنگ کا فیصلہ تبدیل کر لیا ہے اور لینڈنگ میں مسائل کی وجہ سے یا تو پائلٹ اس کی درخواست کرتا ہے یا پھر اسے کنٹرول ٹاور کی جانب سے یہ ہدایات دی جاتی ہیں۔

پائلٹ سے کہا گیا کہ طیارے کو 3 ہزار فٹ اوپر اٹھائے اور بائیں جانب مڑ کر 110 کی راہ لے، البتہ چند منٹ بعد ٹاور نے پائلٹ کو بتایا کہ اس کی اونچائی کم ہو کر 2 ہزار فٹ ہو گئی ہے، اس کے جواب میں پائلٹ نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے کہا کہ وہ اونچائی برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے، اس کے بعد اس نے انجن کی خرابی کا تذکرہ کیا اور کہا کہ وہ براہ راست آ رہا ہے مطلب کہ وہ کریش لینڈنگ کر رہا ہے۔

کنٹرولر نے کلیئر کرتے ہوئے اسے دونوں دستیاب ٹاوز 25 آئی اور 25 آر پر لینڈ کرنے کی اجازت دے دی البتہ پائلٹ کو بے چینی کی حالت میں ‘مے ڈے، مے ڈے، مے ڈے’ پکارتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔

اس تمام صورتحال سے یہ بات نکل کر سامنے آتی ہے کہ آر اے ٹی ایئر ٹربائن نصب کردیے تھے جو اس بات کا عندیہ ہے کہ دونوں انجن نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا، پائلٹس کا کہنا ہے کہ ٹربائن ہائیڈرالک کی فنی خرابی کی صورت میں جہاز کو مستقل کام کی سہولت فراہم کرتا ہے لیکن ایک پائلٹ کے مطابق اس صورتحال میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فلائٹ کنٹرول کی حالت جزوی یا سست روی سے کام کر رہا تھا۔

تحقیق کرنے والوں کو یہ دیکھا ہوگا کہ کیا وجہ تھی کہ دونوں انجن نے کام کرنا چھوڑ دیا، یہ کسی پرندے کے ٹکرانے سے بھی ہوسکتا ہے یا پائلٹ نے حادثاتی طور پر غلط انجن بند کردیا، ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ دونوں انجن یکے بعد دیگرے کام کرنا بند کردیں۔

Leave a reply