کیا یہ کھلا تضاد نہیں ؟ تحریر : ریحانہ جدون

0
46
rehana jadoon ریحانہ جدون

غریبوں کے بچے خواب دیکھنے کی بجائے زندہ رہنے کے لئے مزدوری کررہے ہیں اور پیسے اور وسائل پر چند فیصد لوگ برا جمان ہیں اور اس کے برعکس غریب دیہاڑی کے لئے ترس رہا ہے
حقیقت یہی ہے پاکستان میں سرمایہ داروں نے حکمرانوں نے جم کے ترقی کی.
ترقی تو وہ ہوتی ہے جس میں عوام کو سہولیات میسر ہوں خواندگی کی شرح میں اضافہ ہو.
پر
جہاں کچرے سے کاغذ چن کے انکو بیچ کر بھوک مٹائی جائے وہاں ترقی نہیں ہوتی.
میں روز صبح کام پر جاتے ہوئے دو معصوم بچوں کو دیکھتی ہوں جن کے نازک کندھوں پر پرانا تھیلا لٹکا ہوتا ہے
معمول کے مطابق جب میں بس سٹاپ پر پہنچی تو پتا چلا کہ گاڑی لیٹ ہے اس لئے میں پیدل چلنے لگی تو وہی بچے میرے سامنے تھے جن کو میں روز دیکھتی تھی
ان میں سے ایک بچہ لگ بھگ 7 سال کا تھا وہ اپنے چھوٹے بھائی کا ہاتھ تھامے کچرے کے ڈھیر سے کاغذ چن رہا تھا اور اسکا وہ معصوم چھوٹا بھائی بھی اپنے کام میں ماہر لگ رہا تھا.
میں ان کے قریب گئی تو مجھے یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ اس معصوم کے پیروں میں جوتے تک نہیں تھے اور اس سردی میں بنا جوتوں کے وہ کچرے میں سے کاغذ اور پلاسٹک کی بوتلیں ڈھونڈ ڈھونڈ کے اپنے تھیلے میں جمع کر رہے تھے, میں نے اس چھوٹے بچے کا ہاتھ پکڑ کر سائیڈ میں لے آئی تو اس کا 7 سالہ بھائی کسی محافظ کی طرح میرے پاس آیا اپنے بھائی کا ہاتھ چھڑایا اور چل نکلا
میں نے کہا بیٹا اس کے جوتے کہاں ہیں ؟
تو اس نے نفی میں سر کو ہلا کے جواب دے دیا
آپ کا نام کیا ہے پر اس نے میرے کسی سوال کا جواب نہیں دیا اور اپنے بھائی کا ہاتھ تھامے چل پڑا

وہاں کھڑے ایک شخص سے میں نے پوچھا کہ یہ کون ہیں تو اس نے بتایا کہ یہ لوگ ادھر پاس ہی کرائے کے مکان میں رہتے ہیں باپ دیہاڑی لگاتا ہے اور یہ بچے ہر روز کاغذ چنتے ہیں پھر کباڑ میں فروخت کرکے جو پیسے ملتے ہیں گھر لے جاتے ہیں.
یہ سن کر میں تیز قدموں سے ان کے پاس پہنچ گئی جو سڑک کے کنارے ایک کوڑے دان کے پاس کھڑے تھے پر کوڑے دان ان کے قد سے بڑا تھا
میں نے بڑے بچے کو پیار سے کہا بیٹا آپکے بڑے بہن بھائی ہیں تو پھر اس نے نفی میں سر ہلایا
کتنے پیسے اس ردی کے مل جاتے ہیں میں نے اس کے تھیلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا تو اس نے معصومیت سے جواب دیا 50 روپے.
میں نے 100 روپے کا نوٹ اس بچے کو دکھاتے ہوئے کہا یہ آپ کی کمائی, اب آپ گھر جائیں ٹھنڈ بہت ہے تو اس نے ہچکچاتے ہوئے پیسے لے لیے.

یہ بچے جب بڑے ہونگے تو ان کو اپنا بچپن یاد ہوگا ؟
کیا ان بچوں کی پسند نا پسند نہیں ؟
کیا ان کے خواب نہیں ؟
بالکل ہیں اور ہونگے کیونکہ والدین کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ ان کے بچے ایک قابل اور کامیاب انسان بنیں مگر اپنی غربت کے ہاتھوں وہ اپنے خوابوں کا گلہ گھونٹ دیتے ہیں. کئی ایک ایسے ہیں جو خود مشکل سے گزر بسر کرکے بچے کو اعلیٰ تعلیم دلواتے ہیں مگر ڈگری پاس ہونے کے باوجود اس کو کہیں اچھی نوکری نہیں ملتی.
کچھ دن پہلے سوشل میڈیا پر ایک نوجوان کی ویڈیو دیکھنے کو ملی جو ایم ایس سی ریاضی ہے پر دو وقت کی روٹی کے لئے خاکروب کی ملازمت کرنے پر مجبور ہوگیا ہے. تین سال مسلسل نوکری کی تلاش کے باوجود اسے مایوسی ہوئی اور مایوس ہونے کے بعد انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی میں خاکروب کی نوکری کرلی وہ بھی صرف ڈیلی ویجز پر.
ملک میں اب بھی کئی لوگ جھگیوں میں رہنے پر مجبور ہیں اور دوسری طرف کئی کنال پر مشتمل محلوں میں کچھ خاندان بستے ہیں کیا یہ کھلا تضاد نہیں ؟؟
معاشرے میں امیر اور غریب کا فرق مزید بڑھتا جارہا ہے مسلسل مہنگائی نے ناصرف غریب کی کمر توڑی ہے بلکہ امیر اور غریب کے اس فرق کو خطرناک حد تک پہنچا دیا ہے .
@Rehna_7

Leave a reply