منشیات اور تعلیمی ادارے تحریر- محسن ریاض

0
45

منشیات کا استعمال اس وقت ملک کے طول وعر ض میں پھیل چکا ہے اس کو مکمل روکنا تو ایک لحاظ سے ناممکن ہے مگر کسی حد تک اس کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے شروع شروع میں تو اس کی چکھنے کی حد تک یہ صرف مختصر وقت کی لذت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے مگر آہستہ آہستہ یہ مجبوری بن جاتی ہے اور اس سے جان چھڑانا ایک لحاظ سے ناممکن ہو جاتا ہے اس وقت پاکستان کے سکولوں اور کالجوں میں منشیات کا گڑھ بن چکا ہے شہریار آفریدی کے بقول اسلام آباد کے سکولوں میں نوے فیصد کے قریب بچے آئس کے نشے میں مبتلا ہیں یہ ایک انتہائی گھمبیر صورتحال ہے کیونکہ یہ اعداد و شمار موجودہ ایک وزیر کے ہیں-آئس ایک ایسا نشہ ہے جس کو استعمال کرنے کے بعد انسان اپنی جاگنے کی مقررہ حد سے کئی زیادہ وقت چاک و چوبند رہ سکتا ہے مگر جس وقت اس کا نشہ اترتا ہے تو اس وقت ان افراد کی حالت قابل ترس ہوتی ہے-آئس بیچنے والوں کے باقاعدہ طور پر سکولوں اور کالجوں میں نیٹ ورک موجود ہوتے ہیں جن کا کام نئے لوگوں کو گھیر کر نشے کا عادی بنانا ہوتا ہے اور باقاعدہ طور پر ان کو اس کام کی تنخواہ دی جاتی ہے اس کام کو بخوبی سرانجام دینے کے لیے ان سٹوڈنٹس کو یہ بات کہہ کر اس طرف راغب کرتے ہیں کہ اس کو استعمال کر کہ آپ بہت زیادہ وقت آسانی سے جاگ سکتے ہیں اس طرح آپ اپنی پڑھائی کو زیادہ وقت دے کر اچھے گریڈز حاصل کر سکتے ہیں اور اس طرح یہ سٹوڈنٹس کو اپنے جال میں پھنسا لیتے ہیں اس کے علاوہ اور کئی طرح کے نشے مارکیٹ میں اس وقت باآسانی دستیاب ہیں جن میں چرس ،افیون ، شراب اور ایم ڈی ایم شامل ہیں جن کے بارے میں حکومت جانتے بوجھتے ہوئے کوئی قدم اٹھانے میں بے بس نظر آتی ہے سٹوڈنٹس کی بڑی تعداد نشے کی عادی ہوچکی ہے اور ان کے عادی ہونے کی بنیادی وجوہات میں سے امتحانات میں فیل ہو جانا ، گھر والوں کا دباؤ ، بے روزگاری ، نوکریوں کو تناسب کم ہونا اور اس کے علاوہ بہت زیادہ پڑھائی کا پریشر ہونا اور اس دباؤ کو کم کرنے کے لیے وہ نشے میں سکون تلاش کرتے ہیں میری ایسے ہی ایک طالبعلم شاہزیب عارف سے بات ہوئی جو جامعہ پنجاب میں قانون کا طالبعلم ہے اور اس نے بہت زیادہ دباؤ کی وجہ سے نشہ کرنا شروع کر دیا اور اس میں وہ سکون حاصل کرنے لگا-شائد نشہ کرنے والے افراد یہ بات سوچنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ اس کا انجام بہت برا ہو گا یا پھر وہ یہ بات سمجھتے ہوں مگر وہ اپنے آپ کو کنٹرول نہ کر پاتے ہوں کہ وہ اس کو ترک کر سکیں مگر حقیقت میں اس کے اثرات بہت برے ہوتے ہیں جن میں بعض اوقات بات خودکشی تک جا پہنچتی ہے قائداعظم یونیورسٹی کےطالبعلم وسیم عباس نے گزشتہ سال منشات کے ہاتھوں مجبور ہو کر خودکشی کی کوشش کی مگر قسمت نے یاوری کی اور وہ محفوظ رہا مگر ہر کسی کی قسمت وسیم جیسی نہیں ہوتی اس کے علاوہ منشیات کے نقصان میں غربت ، بے ردزگاری ، وقت کا زیاں اور سرمائے کے نقصان کے علاوہ اور کئی طرح کے عیب شامل ہیں اس لیے طالبعلموں کو چاہئے کہ اس سے جہاں تک ہو سکے اجتناب کریں اس کے علاوہ حکومت کو بھی چاہیے کہ اس طرح کے قانون بنائے جائیں جو تعلیمی اداروں میں منشیات کی فراہمی کو روک سکیں – موجودہ اعداو و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان میں چالیس لاکھ کے قریب منشیات کے عادی افراد موجود ہیں اور ان میں طالبعلموں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے ان افراد کی بحالی کے لیے سینٹرز بنائے جائیں جہاں ان کو بحالی کے عمل سے گزار کر ایک باعزت شہری بنایا جا سکے-

ٹویٹر-mohsenwrites@

Leave a reply