میرا جسم میری مرضی، طاہر اشرفی بھی میدان میں آ گئے، عورت مارچ منتظمین کو دی "دعوت”

0
55

میرا جسم میری مرضی، طاہر اشرفی بھی میدان میں آ گئے، عورت مارچ منتظمین کو دی "دعوت”

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان علماء کونسل کے سربراہ علامہ طاہر محمود اشرفی نے کہا ہے کہ پاکستان علماء کونسل عورت مارچ کے منتظمین کو خواتین کو وراثت کا حق دینے، ان کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹوں ، جہیز اور گھریلو تشدد کے خاتمے کیلئے مذاکرات کی دعوت دیتی ہے،

علامہ طاہر اشرفی کا مزید کہنا تھا کہ اسلامی اور پاکستانی اقدار کے خلاف نعروں سے ملک میں صورتحال کشیدہ ہورہی ہے،پاکستان کی نظریاتی اساس اور معاشرتی اقدار کو پامال کرنے والےملک و قوم کےخیرخواہ نہیں ہوسکتے،اسلامی جمہوریہ پاکستان میں’’ میرا جسم میری مرضی ‘‘جیسے بیہودہ نعروں کی اجازت نہیں دی جاسکتی، ایسی سوچ اور ذہنیت رکھنے والے لوگ فکری انتشار کا شکار اور معاشرے میں اضطراب پیدا کرنےکی کوشش کر رہے ہیں،ملک میں اس نئے فتنے کی وجہ سے تصادم کی کیفیت پیدا ہوچکی ہے.

علامہ طاہر محمود اشرفی نے مزید کہا کہ جسم اللہ کی امانت ہے،اس پر اللہ ہی کی مرضی چلے گی ،اس کے علاوہ جو بات بھی کی جائے گی وہ اللہ کی نافرمانی اور بغاوت ہوگی،میرا جسم میری مرضی کابیہودہ نعرہ لگانے اور اس کی حمایت کرنے والوں کو کبھی اس بات کی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ عورت کے وراثت میں حق کی بات کریں،جہیز کی لعنت پر آواز اٹھائیں،عورت کی تعلیم و تربیت کی بات کریں۔

علامہ طاہر محمود اشریف کا مزید کہنا تھا کہ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کا نعرہ لگانے والے چند افراد عورتوں کے حقوق کے نام پر بےراہ روی کا راستہ کھولنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو ان شاء اللہ پاکستان جیسے معاشرے میں ممکن نہیں۔ نظریہ پاکستان ، ہماری تہذیب اور کلچرسے بیزارچند عناصرناصرف معاشرتی اقدار کو پامال کر رہےہیں بلکہ ہمارے مضبوط خاندانی نظام کی جڑوں کو کاٹنے کے درپے ہیں،انہیں کسی صورت ایسے بیہودہ پروگراموں کے انعقاد کی اجازت نہیں دی جاسکتی جس سے ہماری اقدار پامال ہوں ،اس تصادم کی کیفیت کو ختم کرنے کے لیے پوری قوم کو متحدہوکر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جانا چاہیے ،

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ’عورت مارچ‘ کو رکوانے کے خلاف دائر کی گئی اسلام آباد کے 8 شہریوں کی درخواست کو ناقابل سماعت قرار دے کر اسے خارج کردیا۔

خیال رہے کہ خواتین رہنماؤں نے لاہور سمیت اسلام آباد، کراچی، حیدرآباد، سکھر، راولپنڈی اور دیگر شہروں میں عالمی یوم خواتین کے موقع پر 8 مارچ کو عورت مارچ منعقد کرنے کا اعلان کر رکھا ہے اور پاکستان میں گزشتہ 2 سال سے ان مارچ کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔

اس سال ’عورت مارچ‘ شروع ہونے سے قبل ہی اس پر بحث شروع ہوگئی ہے اور جہاں کئی افراد اس مارچ کی حمایت کر رہے ہیں، وہیں کچھ افراد اس کی مخالفت بھی کر رہے ہیں۔

عورت مارچ کی حمایت کرنے والے افراد کا ماننا ہے کہ ’عورت مارچ‘ خواتین کی خودمختاری اور حقوق کے لیے اہم قدم ہے جب کہ اس کی مخالفت کرنے والے افراد کا مؤقف ہے کہ یہ مارچ معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے، خواتین کو بے راہ روی اختیار کرنے اور فحاشی پھیلانے کا سبب ہے۔

گزشتہ سال پہلی مرتبہ پاکستان کے مختلف شہروں میں ’عورت مارچ‘ منعقد ہوا تھا جس میں بڑی تعداد میں خواتین شامل ہوئی تھیں اور ان مارچ میں شامل خواتین کی جانب سے اٹھائے گئے بینرز پر سخت تنقید کی گئی تھی۔

کراچی سے لے کر لاہور اور اسلام آباد سے حیدرآباد تک ہونے والے عورت مارچ میں خواتین نے درجنوں منفرد نعروں کے بینر اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن میں کچھ بینرز پر مختلف طقبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے تنقید بھی کی تھی۔

Leave a reply