ملازمین کو نکالنے کا عمل درست تھا،سپریم کورٹ کے ریمارکس

0
116
سپریم کورٹ کے باہر سیکورٹی سخت،پیپلز پارٹی،جے یو آئی کی درخواست دائر

ملازمین کو نکالنے کا عمل درست تھا،سپریم کورٹ کے ریمارکس
سپریم کورٹ میں سیکیڈ ایمپلائز ایکٹ کیس کی سماعت ہوئی

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ نگران حکومت نے نوکریوں سے درست نکالا یا غلط؟ فیصلہ ہو چکا ہے،نظرثانی کیس میں اس معاملے کو نہیں دیکھ سکتے، ملازمین کے حق میں پہلے آرڈیننس بعد میں ایکٹ آیا، اس پر دلائل دیں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سپریم کورٹ ایک فیصلے میں قرار دے چکی ہے ملازمین کو نکالنے کا عمل درست تھا،

سپریم کورٹ میں سوئی ناردرن گیس اور اسٹیٹ لائف انشورس ملازمین کا کیس کی سماعت ہوئی،وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ 1993 سے 1996 کے درمیان یہ ملازمین بھرتی ہوئے،عبوری حکومت نے 1997میں تمام بھرتی ملازمین کو برطرف کر دیا تھا،برطرف ملازمین نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تو کچھ ملازمین کو بحالی ملی، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جب سپریم کورٹ نے پہلے بحال نہیں کیا تو اب کیا جواز ہے؟ ایک اور لارجر بنچ میں جانا ہے اس کیس کو کل پھر سنیں گے، عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی

راہ چلتی طالبات کو ہراساں اور آوازیں کسنے والا اوباش گرفتار

طالبات کو کالج کے باہر چھیڑنے والا گرفتار،گھر کی چھت پر لڑکی کے سامنے برہنہ ہونیوالا بھی نہ بچ سکا

پولیس کا قحبہ خانے پر چھاپہ،14 مرد، سات خواتین گرفتار

خاتون کے ساتھ زیادتی ،عدالت کا چھ ماہ تک گاؤں کی خواتین کے کپڑے مفت دھونے کا حکم

جناح ہسپتال کا ڈاکٹر گرفتار،نرسز، لیڈی ڈاکٹرز کی پچاس برہنہ ویڈیو برآمد

خواتین نرسزکی ویڈیو بنا کر بلیک میل کرنیوالے ملزم کی ضمانت پر ہوئی سماعت

ہنی مون پر گئے نوجوان نے موبائل فون خریدنے کیلئے بیوی کو فروخت کر دیا

ہولی فیملی ہسپتال سے بچہ اغوا ہونے پر لواحقین کا احتجاج

یہ ہے بزدار کا لاہور،دس روز میں 40 سے زائد بچے اغوا

نجی یونیورسٹی کی طالبہ کو اغوا کر کے زیادتی کرنیوالا ملزم گرفتار

رقم کی لین دین پر اغوا ہونے والا شخص بازیاب،ملزم گرفتار

قبل ازیں گزشتہ روز کی سماعت میں جسٹس منصور علی شاہ‏ نے کہا کہ 11سال بعد ایکٹ بنا کے ہزاروں لوگوں کو بحال کیا گیا،وکیل ایس این جی پی ایل‏ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں جن میں ملازمین کو بحال کیا گیا،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کچھ ملازمیں کو بحال کر کے دوسروں کا استحصال کیا گیا،وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ کسی کا استحصال نہیں ہوا حکومت تبدیل ہوئی تو نئی نے بحال کیا،جسٹس منصور علی شاہ‏ نے کہا کہ آپ کیس کو دوسری طرف لے جارہے ہیں،جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ کیا سوئی گیس ملازمین ٹیسٹ اور انٹرویو دےکر بھرتی ہوئے تھے؟ وکیل نے کہا کہ واک-ان انٹرویوز کے ذریعے بھرتیاں ہوئی تھیں،

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ختم شدہ کنٹریکٹ گیارہ سال بعد کیسے بحال ہوگئے؟ جن کے کنٹریکٹ بحال ہوئے انہوں نے کیا کارنامہ انجام دیا تھا؟ کیا تمام ملازمین دہشتگردی کی کارروائی میں زخمی ہوئے تھے؟ وکیل نے کہا کہ پارلیمنٹ کے فیصلے کے تحت ملازمین کو بحال کیا گیا،پارلیمان اس نتیجہ پر پہنچی تھی کہ ملازمین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے شواہد کہاں ہیں؟ صرف انہی لوگوں کو کیوں بحال کیا گیا یہ سمجھائیں، ملازمت کے اہل تو بہت سے اور بھی ہوں گے جن کی جگہ یہ بحال ہوئے، وکیل نے کہا کہ عدالت پارلیمنٹ میں ہونے والی بحث منگوا کر جائزہ لے لے، اس عمر میں ملازمین کہاں جائیں گے؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سوئی گیس میں پنشن کتنا عرصہ ملازمت کے بعد ملتی ہے؟ وکیل نے کہا کہ حکومت نے غلطی کی ہے تو سزا ملازمین کو نہ دی جائے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا تعیناتی کالعدم ہونے کے دس سال بعد پنشن مل سکتی ہے؟

ایڈووکیٹ وسیم سجاد کے دلائل مکمل ہوئے تو کے پی محکمہ تعلیم کے وکیل افتخار گیلانی کے دلائل شروع ہوئے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کسی کو برطرف کر دے تو پارلیمنٹ کی قانون سازی سے کسی مخصوص فرد کو بحال نہیں کیا جا سکتا ،وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں ایکٹ کو صحیح سے پرکھا نہیں گیا، ایک عبوری حکومت نے آکر متعدد ملازمین کو فارغ کیا،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ یہ نہیں کہہ رہا کہ ایک جماعت کے بھرتی کیے گئے ملازمین برطرف کیے جائیں،پارلیمنٹ نے لوگوں کے ایک مخصوص گروہ کو قانون سازی کر کے فائدہ کیوں پہنچایا؟ وکیل افتخار گیلانی نے کہا کہ سپریم کورٹ خود کہہ چکی کہ پارلیمنٹ کی قانون سازی کو کالعدم قرار نہیں دے سکتے،قانون سازوں کی بصیرت کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا، سپریم کورٹ اپنے فیصلےپر نظر ثانی کرے،جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ ملازمین کی بحالی کا قانون کس طرح آئین کے مطابق ہے؟ قانون آئین کے مطابق ہونے پر آپ نے ایک دلیل بھی نہیں دی، اعتزاز احسن نے کہا کہ آئی بی افسران سول سرونٹ ہیں ان پر عدالتی فیصلہ لاگو نہیں ہوتا،سال 1996 میں نگران حکومت نے آئی بی ملازمین کو برطرف کیا تھا نگران حکومت کو ملازمین کی برطرفی کا اختیار نہیں ہے، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ نگران حکومت والے معاملے پر سپریم کورٹ 2000 میں فیصلہ دے چکی ہے، فیصلے کے 21 سال بعد کسی اور نظرثانی کیس میں مقدمہ دوبارہ نہیں کھول سکتے، وکیل آئی بی اعتزاز احسن نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ملازمین بحالی کے قانون کی غلط تشریح کی

Leave a reply