گیارہ سالہ نسرینہ کی دکھ بھری داستان،تحریر:اکمل خان قادری

0
40
akmal k qadri

لنڈی کوتل کی گیارہ سالہ بچی نسرینہ (فرضی نام) اپنے خاندان کی واحد کفیل ہے جو اپنے خاندان کی کفالت کے لیے پاک افغان طورخم سرحد پر زمانے کی سختیاں جھیلتے ہوئے محنت مزدری کررہی ہے جوپل صراط سے کم نہیں ایک بم دھماکے میں والد کی وفات کے بعد خاندان کی کفالت کی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے زندگی بیت رہی ہے جس روزمزدری نہ ملے اس دن پورا خاندان فاقہ کرنے پر مجبورہوتا ہے۔

پاک افغان بارڈر طورخم پر بڑی تعداد میں چھوٹے چھوٹے بچے اور بچیاں محنت مزدوری کرتے ہوئے نظر اتے ہیں جس میں ہر ایک کی کہانی اپنی جگہ پر ایک منفرد اور انوکھی حیثیت رکھتی ہے جبکہ 11سالہ بچی نسرین (فرضی نام)کی کہانی کچھ الگ تھلگ ہے کیونکہ وہ محنت مزدری بھی کرتی ہے اور گھر کاکام کاج بھی ان کے ذمہ ہے۔ وہ کہتی ہے کہ 2015 میں کابل میں ایک دھاکہ میں ان کا والد جاں بحق ہوگیا اس وقت ان کی عمر پانچ سال تھی تاہم میری ماں نے گھر چلانے کے لیے آستین چڑھالی اوروہ دوسروں کے گھروں میں کام کاج کرکے پیٹ پالتی تھی میں بھی ان کے ساتھ جاتی تھی مگرآہستہآہستہ ماں کی صحت خراب ہورہی تھی اور ڈاکٹروں نے ان کی بیماری کو دمہ کی بیماری قرار دیدیا اور یوں 2021میں میری ماں کی صحت جواب دے گئی اور میں نے طورخم سرحد پر سامان لیجانے اور لانے کی محنت مزدوری کرنے کا فیصلہ کر لیا کیونکہ ہمارے پاس دوسرا آپشن نہیں تھا۔

وہ کہتی ہے کہ طورخم سرحد پار کرنا ان کے لیے جان جوکھوں کے کام سے کم نہیں ہے کیونکہ کبھی کبھی ہم سرحد پر تعینات اہلکار کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بھی بنتے ہیں جو بہت ازیت ناک ہوتی ہے۔وہ کہتی ہے کہ دو لمحے ان کے لیے انتہائی دکھ درد بھری ہوتے ہیں ایک یہ کہ جس دن دیہاڑی نہ ملے اور دوسرا یہ کہ جب کمیشن کار انہیں وقت پر ان کو ان کی دیہاڑی کے پیسے نہ دے تو ایسی حالت میں گھر کو خالی ہاتھ واپس لوٹنا پڑتا ہے جس سے ہمارے گھر میں فاقہ ہوتا ہے۔

نسرین مزید کہتی ہے کہ محنت مشقت سے واپسی پر گھر کاکام بھی وہی کرتی ہے کیونکہ ان کی ماں بستر پر پڑی دمہ میں مبتلا مریضہ ہے کھانا بنانا، روٹی پکانا،برتن اور کپڑے دھونا،جھاڑو دینا ماں کو وقت پر دوائی دینا یہ سب ان کے ذمہ ہیں۔ وہ کہتی ہے کہ جس دن ان کا والد دھماکہ کی زد میں آیا اس سے ایک ماہ پہلے ان کی ایک بہن پیدا ہوئی تھی جب کہ بہن سے ایک سال چھوٹاایک بھائی بھی ہے جن کی عمریں اب علی الترتیب 8اور 9سال کی بنتی ہیں تاہم وہ دونوں جسمانی طورپر معذور ہیں جو پڑھنے کے قابل ہیں اور نہ میری طرح کا کام کاج کا۔ وہ کہتی ہے کہ نو سال میں، میں نے بھی محنت مشقت شروع کی تھی اگر میری بہن جسمانی طورپر آج ٹھیک ہو تی تو وہ بھی میرے ساتھ کام پر جاتی اور میرا ہاتھ بٹاتا۔

قصور کے بعد تلہ گنگ میں جنسی سیکنڈل. امام مسجد کی مدرسہ پڑھنے والی بچیوں کی ساتھ زیادتی

سوشل میڈیا چیٹ سے روکنے پر بیوی نے کیا خلع کا دعویٰ دائر، شوہر نے بھی لگایا گھناؤنا الزام

سابق اہلیہ کی غیراخلاقی تصاویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے والے ملزم پر کب ہو گی فردجرم عائد؟

‏سوشل میڈیا پرغلط خبریں پھیلانا اورانکو بلاتصدیق فارورڈ کرنا جرم ہے، آصف اقبال سائبر ونگ ایف آئی اے

سوشل میڈیا پر جعلی آئی ڈیز کے ذریعے لڑکی بن کر لوگوں کو پھنسانے والا گرفتار

کرونا میں مرد کو ہمبستری سے روکنا گناہ یا ثواب

جب ان سے سوال کیا گیا کہ بہت سی بچے گاڑیوں کے نچے اکر کچل گئے متعدد ذخمی ہوگئے ہیں دوسری طرف تشدد کے واقعات بھی اپ کے سامنے ہیں تو ایسے حالات میں اپ کو ڈر نہیں لگتی تو انہوں نے بتایا کہ یہ ڈر کم، ڈر وہ بہت زیادہ ہے کہ جس دن میں گھر کچھ لے نہ جاوں ماں کے لیے دوائی کا بندوبست نہ کرو اس لیے میں نہیں ڈرتی۔وہ کہتی ہے کہ مجھے پڑھنے کا بہت شوق ہے تاہم وہ ایک خواب ہوکر رہ گیا ہے آخر میں انہوں نے بہت آہ کے ساتھ کہا کہ کھیل کود کے لیے بھی وقت نہیں ہے۔

اس کے علاوہ رحیم گل (فرضی نام)کی ایک دس سالہ بیٹی بھی طورخم میں محنت مزدوری کرتی ہے جب ان کے والد سے پوچھا گیا کہ یہ بچی کے سکول جانے کا وقت ہے اپ کیوں اپنی بیٹی محنت مشقت کے لیے بھیجتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ میں دونوں ٹانگوں سے معذور ہوں اگر میری یہ بیٹی کام پر نہ گئی تو ہمیں کھانے کو کچھ نہ ملے گااس کمر توڑ مہنگائی میں گھر کے اور بھی بہت سی ضروریات اور لوازمات ہیں جن کو پورا کرنا اسان کام نہیں ہے جب ان کی بیٹی قدسیہ (فرضی نام) سے پوچھا گیا کہ محنت مزدوری کرتے ہوئے آپ کوڈر نہیں لگتا کیونکہ اپ جتنی عمر کی لڑکیاں سکول جاتی ہیں اور کھیلتی ہیں تو انہوں جواب دیا کہ میری سب سے بڑی خوشی یہ ہے کہ شام کو میں اپنے معذور والد کے ہاتھ میں دن بھر کی کمائی کا پیسہ تھما دوں ۔


پاک افغان طورخم سرحد پر تعینات اہلکاروں کے تشدد اور پکڑنے سے بچنے کے لیے بچے اور بچیاں بڑی گاڑیوں کے نیچے چھپتے ہیں جن کے ہاتھوں میں سامان بھی ہو تا ہے۔ مگر وہ دنیا و ما فیہا سے بے خبر ٹائر وں کی زد میں آ کر کچل بھی جاتے ہیں ۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2022 سے لیکر اب تک 6 بچے اس طرح کے حادثات میں جاں بحق جبکہ 10سے زائد ذخمی ہوئے ہیں۔ طورخم سرحد پر چائلڈ لیبر کم کرنے کے لیے کئی این جی اوز نے کام شروع کیا تھا مگر سب اپنا مشن ادھورا چھوڑ کر چلے گئے چائلڈ لیبر میں مصروف بچوں اور بچیوں کے لیے سکول قائم کیاگیا تھا انہیں عصر حاضر کی تعلیم دلوانے کا وعدہ کیا گیاتھا مگر وہ ایفائے عہد نہ کر سکا اور نہ بچوں اور بچیوں کی حصول تعلیم کی تشنگی پوری ہو سکی۔

لاک ڈاؤن ختم کیا جائے، شوہر کے دن رات ہمبستری سے تنگ خاتون کا مطالبہ

واٹس ایپ کے ذریعے فحش پیغام بھیجنے والا ملزم ہوا گرفتار، کئے ہوش اڑا دینے والے انکشاف

شادی سے انکار، لڑکی نے کی خودکشی تو لڑکے نے بھی کیا ایسا کام کہ سب ہوئے پریشان

شوہرکے موبائل میں بیوی نے دیکھی لڑکی کی تصویر،پھر اٹھایا کونسا قدم؟

خاتون پولیس اہلکار کے کپڑے بدلنے کی خفیہ ویڈیو بنانے پر 3 کیمرہ مینوں کے خلاف کاروائی

پاکستان میں وفاقی اور خیبر پختون خوا کے صوبائی سطح پر کم و بیش تقریباً 2 0قوانین چائلڈ لیبر کے خاتمہ کے لیے بنائے گئے ہیں اس کے علاوہ چائلڈ لیبر کے خاتمہ کے لیے پاکستان بین الاقوامی سطح پر مختلف فورمز کا پارٹنر بھی ہے مگر بد قسمتی سے پاکستان میں چائلڈ لیبر کا حجم بڑھ رہا ہے کیونکہ ان قوانین پر اس طرح عمل درامد نہیں کیاجا تا جس جذبہ سے وہ وضع کیے گئے تھے۔ ہیومن رائیٹس کمیشن رپورٹ کے مطابق خیبر پختون خوا میں چائلڈ لیبرنگ میں مصروف بچوں اور بچیوں کی تعداد 10لاکھ سے زیادہ ہے۔ پروٹیکشن اف چائلڈ رائیٹس کے ایک این جی او کے ڈائریکٹر عمران ٹکر نے بتایا کہ یہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ قومی سطح پر چائلڈ لیبر کا ایک جامع سروے کرے کیونکہ بین الاقوامی معاہدوں اور قوانین کو مد نظر رکھتے ہوئے حقیقی ڈیٹا حاصل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ان کی تعلیم کے لیے بجٹ کا ایک بڑا حصہ مختص کرنا چاہئے تاکہ ہر بچہ سکول جا سکے کیونکہ صرف تعلیم ہی کے زریعے اس کا خاتمہ ممکن ہے۔ووکیشنل تعلیمی اداروں خواہ رسمی ہو یا غیر رسمی کو قائم کیاجائے اور غربت کے خاتمہ کے لیے ایک پائیدار پروگرام کا اغاذکیاجائے اور ان بچوں کو اس پروگرام کا ہدف بنایاجائے جو چائلڈ لیبر کرتے ہیں یا سٹریٹ میں ہیں۔قوانین پر سختی سے عمل درامد کیاجانا چاہئے انسپیکشن نظام کو مظبوط کرناچاہئے اور بڑی سطح پر اگاہی پروگرامات کا انعقاد کیاجائے کہ بچوں اور بچیوں کو کام کی بجائے سکولوں کو بھیجا جائے۔

Leave a reply