نور بھی کسی گھر کی آنکھ کا تارا تھا۔ تحریر:راؤ اویس مہتاب

0
43

آج کل کے ڈیجیٹل میڈیا کے دور میں انسان کا Exposure اتنا ہو گیا ہے کہ چھ سال کے بچے کو آج اتنا پتا ہے جو ساٹھ سال کے بزرگ کو نہیں پتا اور ہر لمحہ خبر اور دنیا میں پے در پے ہونے والی زیادتی کی خبروں نے اس حد تک ناظرین کے دماغوں کو بے حس کر دیا ہے کہ اللہ کی پناہ۔۔ کوئی بھی واقعہ ہوتا ہے۔ ہم اسے کے بارے میں ایک لمحہ سوچتے ہیں اور پھر آگے چل پڑتے ہیں۔ نور مقدم کیس کے حوالے سے کئی اہم انکشافات سامنے آئے ہیں۔
لیکن ان انکشافات پر روشنی ڈالنے سے پہلے میں تھوڑا سا آپ کے ضمیر کو جھنجوڑنا چاہتا ہوں۔ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں نور مقد م صرف ایک کیس نہیں ہے بلکہ ایک جیتی جاگتی اور ہنستی کھیلتی لڑکی کا نام تھا۔ لوگ کہتے ہیں نور مقدم کیس پر تو مٹی ڈل گئی ہے۔ عائشہ کا کیس آگیا ہے، لاری اڈا چنگچی والا واقعہ پیش آ چکا ہے۔وہاڑی سے آنے والی ماں اور بیٹی کی لاہور میں دن دیہاڑے آبرو ریزی ہو چکی ہے۔
اب تو یہ کیس پرانا ہو گیا ہے۔ نہیں نور مقدم کا کیس اس وقت تک پرانا نہیں ہو گا جب تک ظالم درندے کو پھانسی اور اس کے سہولت کاروں کو سزا نہیں ہو جاتی۔ اس ظالم درندے کو کس نے اتنی ہمت دی کہ اس نے ایک معصوم کا سر تن سے جدا کر دیا۔ کس کی شہ پر ، کس طاقت کے نشے میں وہ اتنا مطلق العنان سوچ کا مالک ہو گیا تھا کہ اس نے ایک بچی کو ذبحہ کر ڈالا۔ کیا اس نے ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں سوچا ہو گا کہ وہ اسے قتل کرنے کے بعد کیسے اس صورتحال سے نکلے گا۔ وہ کیسے اپنے آپ کو پھانسی کے پھندے سے بچائے گا۔ یقینا سوچا ہو گا لیکن پھر اس نے یہ بھی سوچا ہو گا کہ میرے بابا اسے سنبھال لیں گے۔ ان کے پاس ایسے لوگ ہیں جو لاش کو ٹھکانے لگانے کی کابلیت رکھتے ہیں۔ اس لیے کوئی مسئلہ نہیں میں نور کو ختم کر کے اپنے انتقام کی آگ بجھاوں گا۔ اس نے ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں سوچا کہ نور بھی کسی گھر کی آنکھ کا تارا تھا۔ گھر میں سب سے چھوٹی ہونے کی وجہ سے وہ سب کی لاڈلی تھی ۔
23 october کو یعنی قتل کے تین ماہ بعد جب اس کی سالگرہ اآئے گی تو اسکے گھر والے اور دوست اسے یاد کر کے کتنا روٴیں گے۔ وہ نور مقدم جو جہاں جاتی تھی اپنی ملنساری سے دل جیت لیتی تھی۔وہ نور مقدم جو اپنی ماں کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا اپنے دوستوں کے لیے شوق سے لے جاتی تھی۔وہ نور مقدم جو ہر روز اپنے والد کو پھل کاٹ کر دیتی تھی۔وہ نور مقدم جو مہمان آنے کی صورت میں آپنی ماں کی مدد کرتی تھی۔وہ نور مقدم جو اآپنے والدیں کے ساتھ ہر رشتے دار کے گھر جاتی تھی۔وہ نور مقدم جو اپنی بڑی بہن سے آٹھ نو سال چھوٹی ہونے کے باوجود اس کی بہترین دوست تھی وہ نور مقدم جو اپنے بھانجے کی بہترین دوست تھی اور اس کے چہرے پر مسکراہٹ لانے کے لیے، کئی کئی گھنٹے اس کے ساتھ کھیلتی تھی۔وہ نور مقدم جو دنیا بھر میں گھومنے کے باوجود پاکستان سے پیار کرتی تھی اور پاکستان میں رہنا چاہتی تھی اور بیرون ملک اپنے رشتہ داروں کو بھی پاکستان میں رہنے کی ترغیب دیتی تھی۔وہ نور مقدم جسے پینٹنگ کا شوق تھا اور اس کے ہاتھ سے بنائی ہوئی پینٹنگ آج بھی اس کے گھر میں لگی ہوئی ہیں۔وہ نور مقدم جو کسی کو بھی دکھی دیکھ کر غمگین ہو جاتی تھی اور دوسروں کو Comfortable کرنے کی کوشش کرتی تھی۔ اور یہی چیز اس کی جان لے گئی۔
ایک منٹ کے لیے رکیں اور سوچین نور کی کتنی عادتیں ہماری بیٹیوں سے مشترک تھی اگر آپ ایک دفعہ بھی نور سے ملے ہوتے تو آپ کو نور میں اپنی بیٹی نظر آتی۔۔کیا ہم اپنی بیٹی کے قاتلوں کو اس طرح نظر انداز کر سکتے ہیں۔ نہیں بلکل نہیں۔نور قدم کیس کے حوالے سے میں مسلسل آپ کو اپ ڈیٹ دیتا آرہا ہوں۔
اورہر روز ایک نئی گتھی جہاں سلجھتی ہے وہاں کئی گتھیاں الجھ جاتی ہیں۔اس وقت نور مقدم کیس میں درندے ظاہر جعفر اس کے والدین، تین نوکر سمیت پانچ اہلکار تھراپی ورکس کے اور چھٹا مالک گرفتار ہے۔بائیس سے زائد لوگوں کے بیانات قلم بند کروائے جا چکے ہیں۔ DNAFinger prints سمیت کئی فرانزک آچکے ہیں جبکہ لیپ ٹاپ کا فرانزک بقایا ہے۔ آج نور مقدم کو قتل ہوئے ایک ماہ سے زائد کا وقت گزر چکا ہے لیکن بدقسمتی سے درندے ظاہر جعفر کے فون کے ڈیٹا کا کچھ اتا پتا نہیں آخری اطلاع کے مطابق وہ ایف آئی اے کے حوالے کیا جا چکا ہے اور اس کی سکرین ٹوٹی ہوئی ہے۔
ظاہر جعفر کے والدین کی ضمانت ایک دفعہ ریجکٹ ہو چکی ہے اور دوسری دفعہ کے لیے وہ مناسب وقت کے انتظار میں ہیں ۔ وہ اس وقت کے انتظار میں ہیں کہ قوم اس بچی کو بھولے اور وہ کرپٹ سسٹم کو اپنی مرضی کے مطابق گھمائیں۔اور تو اور تھراپی ورکس کا مالک طاہر ظہور اب معصوم بننے کی کوشش کر رہا ہے
وہ کہتا ہے کہ میں تو موقعہ واردات پر گیا ہی نہیں، میں تو معصوم ہوں۔ میری عمر 73 سال ہے اور میں شوگر، دل اور کڈنی کے امراض میں مبتلا ہوں۔ کوئی اس ظالم آدمی سے پوچھے کے ایک تہتر سال کے بوڑھے کو پارٹیاں کروانا زیب دیتا ہے۔ایک تہتر سال کے بوڑھے کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ لاش کو ٹھکانے لگانے کے لیے اپنے ملازم بھجوائے۔کیا ایک تہتر سال کے بوڑھے کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ قتل کا پتا چلنے کے باوجود حقائق کو پولیس سے چھپائے۔کیا ایک تہتر سال کے بوڑھے کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اپنے ملازم امجد پر مجرم کے حملوں کو روڈ ایکسیڈینٹ بنا دے۔ کیا ایک تہتر سال کے بوڑھے کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ ڈگر ی نہ ہونے کے باوجود۔ جعلی تھراپی ورکس چلائے اور لوگوں کے بچوں کے علاج کی بجائے انہیں مزید عذاب میں مبتلا کروا دے۔ یہ پاکستان میں اشرافیہ کا وطیرہ ہے ظلم کرتے ہیں زیادتیاں کرتے ہیں ، ملک کی دولت لوٹتے ہیں اور جب قانون کا شکنجہ گردن پر پڑتا ہے تو فورا معصوم بن جاتے ہیں۔تھراپی ورکس کے مالک طاہر کے وکیل فرماتے ہیں کہ میرے موکل کا نام ایف آئی آر میں نہیں تھا اور نہ ہی انہوں نے ایسا جرم کیا ہے کہ انہیں جیل میں رکھا جائے۔
واہ کیا بات ہے۔۔۔ سبحان تیری قدرت
لاشیں ٹھکانے لگانے والے آج اپنا جرم پوچھ رہے ہیں ، قاتل درندے کو مشکل صورتحال سے نکالنے والے اپنا جرم پوچھ رہے ہیں۔ حقائق کو مسخ کرنے اور چھپانے والے اپنا جرم پوچھ رہے ہیں۔اور تو اور زخمی امجد جو تھراپی روکس کے لیے کام کرتا ہے، اور قاتل اور مقتول کو سب سے پہلے دیکھتا ہے۔فرماتا ہے کہ وہ اس کیس کا سب سے بہترین گواہ ہے۔
اسی نے پولیس کو فون کر کے بتایا۔۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ابھی تک کسی کو پتا ہی نہیں چلا کہ فون کس نے کیا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بتانے والے نے اپنی شناخت چھپانے کی درخواست کی تھی۔ ورنہ پولیس کو اطلاع دینے والوں کے تو فون نمبر سے لے کر شناختی کارڈ تک کا پوچھ لیا جاتا ہے۔ اور جو شخص یہ دعوی کر رہا ہے کہ اس نے پولیس کو بتایا وہی ہسپتال میں اپنے زخمی ہونے کی وجوہات چھپا رہا ہے۔ وہی کہہ رہا ہے کہ میرا روڈ ایکسیڈینٹ ہوا ہے۔ اس وقت کیوں اس نے یہاں تک کہ ہسپتال سے حقائق چھپائے تاکہ اسے شامل تفتیش کر کے کہیں ظالم درندے کے بارے میں نہ پوچھ لیا جائے۔ امجد پر یقینا طاہر کا پریشر ہو گا کہ وہ حقائق چھپائے تاکہ اس کے کلائنٹ پر کوئی مشکل نہ اآئے۔ اور بات یہ ہے کہ اگر امجد کو گواہ بنا لیا گیا۔ جو اب تک ان کا کردار رہا ہے اگر اس نے آگے جا کر یہ کہہ دیا کہ وہاں ظاہر کے علاوہ بھی نقاب پوش لوگ تھے۔ اور وہ کھڑکی سے بھاگ گئے تو سارا کیس وہیں تباہ ہو جائے گا۔
کہ نور مقدم کیس کے چشم دید گواہ نے جو دیکھا وہ بتا دیا اور کیس کا رخ ہی تبدیل ہو گیا۔ اس لیے میں یہ سمجھتا ہوں کہ کسی بھی صورت حقائق چھپانے والوں کو معاف نہیں کرنا چاہیے۔
طاہر کا کردار اس کیس میں بہت اہم ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر قاتل درندے کا وٹس ایپ ڈیٹا ریکور کر لیا جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ اور ہر وٹس ایپ اکاونٹ کا
Back up
بھی ہوتا ہے جسے بڑے آرام سے فون نمبر کی مدد سے کسی بھی فون پر ریکور کیا جا سکتا ہے۔ اگر پولیس یہ کرنے میں ناکام رہی جو کہ بہت ہی آسان کام ہے تو سمجھ لیں کہ کافی لوگوں کو بچالیا گیا ہے۔
تھراپی ورکس کے بارے میں میں واحد شخص نہیں ہوں جو تشویش میں مبتلا ہو اس جعلی ڈاکٹر کو لوگ جھولیاں اٹھا اٹھا کر بد دعا ئیں دے رہے ہیں۔ اور کئی نے تو اس کے خلاف کیس بھی کیا ہوا ہے۔ایک بلکل اسی طرح کا کیسTherapy Works & Tahir Zahoor Ahmed کے خلاف Dec 2020میں کیا گیا Civil Suit 1080/20
تھا جو Sr. Civil Judge South, Karachi کی عدالت میں آج بھی پینڈنگ پڑا ہے۔ اور رہی بات تھراپی ورکس کے جعلی این او سی کی۔ یہاں پر نہ صرف مریضوں کو لوٹا جاتا ہے بلکہ طالب علموں کو بھی چونا لگایا جاتا ہے۔ جو لوگ بھی یہاں سے بھاری معاوضہ دے کر کو رس کرتے ہیں انہیں شائد ہی کبھی سرٹیفیکیٹ ملا ہو۔

Leave a reply