پرویز الہٰی وزیراعلیٰ پنجاب، گورنر حلف لیں، سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ

0
69
سپریم کورٹ نے کرونا وائرس ازخود نوٹس نمٹا دیا

سپریم کورٹ ،ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ سے متعلق کیس ،فیصلہ سنا دیا گیا

فیصلہ لیٹ ہونے پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ معذرت چاہتا ہوں، چودھری پرویز الہیٰ کی ڈپٹی سپیکر کے خلاف درخواست منظور کر لی گئی ہے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ درست نہیں اسکا کوئی قانونی جواز نہیں، پرویز الہیٰ پنجاب کے وزیراعلیٰ ہیں،

فیصلے کی تفصیل بعد میں جاری کی جائے گی، حمزہ شہباز کے ووٹ 179 تھے، جبکہ پرویز الہیٰ کو 186 ووٹ ملے جسکی بنیاد پر پرویز الہیٰ وزیراعلیٰ قرار پائے، حمزہ شہباز کی کابینہ کا نوٹفکیشن کالعدم قرار دے دیا گیا ہے،حمزہ شہباز نے جو حلف اٹھایا وہ بھی غیر آئینی ہے چیف سیکریٹری پرویز الہٰی کابطور وزیراعلیٰ نوٹیفکیشن جاری کریں،گورنر پنجاب پرویز الہیٰ سے حلف لیں ، آج رات ساڑھے گیارہ بجے تک حلف لیا جائے،اگر گورنر دستیاب نہ ہوں تو صدر مملکت حلف لیں، حکم پر عمل یقینی بنایا جائے، حمزہ شہباز نے جو بھی قانونی کام کئے وہ برقرار رہیں گے اس آرڈر کی کاپی گورنر، ڈپٹی اسپیکر اور چیف سیکریٹری کو ارسال کریں،

کیس کی سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی تھی، بینچ میں جسٹس منیب اختر اور جسٹس اعجاز الاحسن شامل تھے ،

سپریم کورٹ میں مونس الہیٰ اور حسین الہیٰ سپریم کورٹ میں موجود ہیں. ق لیگ کے 9 ارکان بھی چوہدری مونس کے ہمراہ سپریم کورٹ میں موجود تھے، ڈاکٹر بابر اعوان بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے شبلی فراز بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے سپریم کورٹ کی سیکورٹی سخت کی گئی تھی ، پولیس کی بھاری نفری عدالت کے باہر موجود تھی ،خواتین پولیس اہلکاروں کو بھی سپریم کورٹ کے باہر تعینات کیا گیا تھا، عدالت کے باہر قیدیوں کی گاڑی بھی موجود تھی ،سپریم کورٹ کے باہر مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنان بھی موجود تھے


قبل ازیں کیس کی سماعت شروع ہوئی تو پی ٹی آئی کے وکیل احمد اویس عدالت میں پیش ہوئے ،احمد اویس نے کہا کہ وزیر اعلی کے انتخاب کا معاملہ ہے دو اپریل سے چل رہا تھا،یہ معاملہ پہلے کیوں سب کو یاد نہ آیا،سوال یہ ہے کہ ڈپٹی اسپیکر نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے کس پیرا کی بنیاد پرہمارے ووٹ شمار نہیں کئے،اس میں کوئی شک نہیں 63 اے کے مطابق پارٹی ہیڈ کا اہم کردار ہوتا ہے تین ماہ سے وزیر اعلی پنجاب کا معاملہ زیر بحث تھا

علی ظفر نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں 63 اے کے مطابق پارٹی ہیڈ کا اہم کردار ہوتا ہے ،وکیل تحریک انصاف نے کہا کہ ق لیگ کے تمام ارکان کو علم تھا کہ کس کو ووٹ دینا ہے،علی ظفر نے کہا کہ پارٹی ہیڈ پارٹی کی کئی کمیٹیوں کا سربراہ بھی ہوتا ہے،عائشہ گلالئی کیس میں عدالت پارٹی سربراہ کے کردار کا جائزہ لیا گیا، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جو بیس منحرف ارکان تھے ان میں سے کتنے ارکان نے ضمنی انتخابات میں حصہ لیا؟ علی ظفر ابھی جو آپ دلائل دے رہے ہیں وہ کولیٹرل دلائل ہیں، وکیل فیصل چودھری نے کہا کہ جو ممبران منحرف ہوئے انہوں نے دوبارہ دوسری پارٹی کی ٹیکٹ پر انتخابات میں حصہ لیا ،علی ظفر نے کہا ہک عائشہ گلالئی کیس کا فیصلہ میرے موکل کے خلاف ہے لیکن آئین کے مطابق ہے ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ یکم جولائی کے سپریم کورٹ کا حکم نامہ کیا اتفاق رائے پر مبنی تھا ؟ جس پر علی ظفر نے کہا کہ جی وہ اتفاق رائے پر مبنی فیصلہ تھا ،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ کے فیصلے پر کوئی اعتراض کیا جاسکتا ہے ؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ دونوں فریقین اس بات پر متفق ہوئے تھے کہ انتخابات کے بعد جو نتیجہ آیا تھا اس پر رن آف الیکشن ہوگا، علی ظفر نے کہا کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں وزیر اعلی کے انتخاب تک حمزہ شہباز کو وزیر اعلی رہنے کی ہدایت کی تھی، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پل کے نیچے بہت زیادہ پانی گزر چکا ہے اب اس معاملے کو کیسے سن سکتے ہیں؟ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم ایڈووکیٹ جنرلز کے جواب کا انتظار کررہے ہیں،علی ظفر نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق نہیں دی، ڈپٹی اسپیکر الیکشن کمیشن کے فیصلے کا پابند بھی نہیں ہے،

،جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کو رضا مندی دی گئی ضمنی الیکشن ہونے دیا جائے یہ یقین دہانی بھی دی گئی کہ ضمنی الیکشن کے نتائج پر رن آف الیکشن کرایا جائے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یکم جولائی کو وزیراعلی کا الیکشن ضمنی انتخابات کے بعد ہونے کا حکم فریقین کے اتفاق رائے سے تھا،کیا ضمنی انتخابات کے بعد منحرف ارکان کی اپیل تک سماعت روکنے کا اعتراض ہو سکتا ہے؟ علی ظفر نے کہا کہ اصولی طور پر منحرف ارکان کی اپیلوں کو پہلے سننے کا اعتراض نہیں بنتا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ لاہور میں عدالت نے نوٹسز جاری کرکے کہا تھا قانونی نکات پر دلائل دیئے جائیں، اس عدالت کے 8 ججز نے اپنے گزشتہ فیصلے میں کیا کہا تھا وہ دیکھ لیا ہے،آرٹیکل 63 اے پر تشریح ہوچکی ہے اس پر اب مزید ضرورت نہیں، یہاں پر کوئی اور ہے جو دلائل دے؟ اس صورتحال میں ہم ایک وقفہ کرتے ہیں ،

وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ یہ لوگ نظر ثانی کی بنیاد پر تمام کارروائی روکنا چاہتے ہیں،جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ اظہر صدیق اپ کس کی نمائندگی کررہے ہیں؟ وکیل فیصل چودھری نے کہا کہ 20میں سے 16 منحرف ارکان نے ن لیگ،2 نے آزاد الیکشن لڑا،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اٹارنی جنرل نہیں ہیں تو مجھے دلائل دینے کی اجازت دی جائے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ اٹارنی جنرل بیمار ہیں اور بیرون ملک علاج کرا رہے ہیں ،اٹارنی جنرل یکم کو آئیں گے اس وقت تک انتظار نہیں کرسکتے، آپ دلائل دیں،ہم نے سماعت کے پہلے حصے میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے معاملے پر دلائل سنے،دوسرے حصے میں ہم نے پارٹی ہیڈ کے متعلق دلائل سنے، عامر رحمان نے کہا کہ آرٹیکل 63 والے کیس میں پارٹی ہیڈ اور پارلیمانی پارٹی کے کردار پر کوئی بات نہیں ہوئی تھی، ایک فل کورٹ نے 2015میں پارٹی ہیڈ کے بارے میں فیصلہ دیا تھا،جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ہم آپ کا نکتہ سمجھ گئے ہیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ جس فیصلے کا آپ حوالہ دے رہے ہیں وہ ایک رائے تھی یا فیصلہ تھا ؟ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کے مطابق پارلیمانی پارٹی کو اختیار دینا ضروری ہے،پارلیمانی پارٹی کو مضبوط کرنا پارلیمانی جمہوریت کو مضبوط کرنے کے مترادف ہے،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ 2015 کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پارٹی سربراہ ہدایت دے سکتا ہے،جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل آپ ایسے دلائل دیں جو ہمیں مطمئن کریں،

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پنجاب اسمبلی کی کاروائی کا جو مسودہ ہمیں دیا گیا ہے اس میں ہے کہ ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ دی اور کہا کہ اس کو چیلنج کرسکتے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ ڈپٹی اسپیکر پڑھے لکھے ہیں ، آرٹیکل 63 کی جو زبان ہے وہ ایک عام ادمی بھی سمجھ سکتا ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آئین پر عمل کرنا ہماری ذمہ داری ہے تمام وکلا نے عدالت کی معاونت کی ہے۔ گزشتہ دن دوسرے فریقین نے اپنے جواب جمع کرائے ،سماعت میں وقفہ کرتے ہیں ، پونے 6 بجے فیصلہ سنائیں گے،

منگل وقفے سے قبل کی سماعت پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں

سپریم کورٹ میں بڑی سماعت ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ سے متعلق متوقع فیصلے کے پیش نظر سیکورٹی مزید سخت کر دی گئی ہے،سپریم کورٹ کے اطراف آنیوالے راستوں کو بند کر دیا گیا ہے، ڈی چوک، نادرا چوک سمیت دیگر شاہراہوں کو بند کر دیا گیا خار دار تاریں، بلاکس لگا کر بند کیا گیا ہے

قبل ازیں سپریم کورٹ نے حمزہ شہباز کے الیکشن سے متعلق گزشتہ روز کی سماعت کا حکمنامہ جاری کردیا۔حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ فل کورٹ کی استدعا مسترد کی جاتی ہے، فل کورٹ تشکیل نہ دینے کی تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی،حمزہ شہباز ،ڈپٹی اسپیکر اور دیگر وکلاء کی طرف سے مزید وقت مانگا گیا ہے فریق دفاع کے وکلاء کی مزید وقت کی استدعا منظور کی جاتی ہے تمام وکلاء 26 جولائی کو مقدمے کی تیاری کرکے آئیں،

 حکومتی اتحاد کی فوری فل کورٹ بینچ بنانے کی درخواست مسترد

 فل کورٹ مستر کیا جاتا ہے تو ہم بھی عدلیہ کےاس فیصلے کو مسترد کرتے ہیں.حکمران اتحاد 

سینیٹ اجلاس میں "فرح گوگی” کے تذکرے،ہائے میری انگوٹھی کے نعرے

فرح خان بنی گالہ کی مستقل رہائشی ،مگرآمدروفت کا ریکارڈ نہیں، نیا سیکنڈل ،تحقیقات کا حکم

مریم نواز کی حکومتی اتحاد کے رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس

پرویز الہٰی کے وکیل نے نظرثانی درخواست کی سماعت کے لیے لارجر بینچ بنانے کی استدعا کردی

Leave a reply