پنجاب؛ 25 سال میں پہلی بار ماحولیاتی رپورٹ جاری

0
64
Weather

پنجاب حکومت نے 25 سال میں پہلی بار ماحولیاتی رپورٹ جاری کردی ہے. پنجاب پاکستان کا سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہے جس کی آبادی لگ بھگ 11 کروڑ ہے۔ پنجاب میں آبادی میں اضافے کی شرح دوسرے صوبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ صوبے کی آبادی کی کثافت 1972 میں 183 افراد فی مربع کلومیٹر سے بڑھ کر 2017 میں 536 افراد فی مربع کلومیٹر ہو گئی ہے۔ صوبے میں مجموعی ملکی رقبے کا چھپن فیصد کاشتکاری کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ قومی غذائی ضرورت کا اڑسٹھ فیصد صوبہ پنجاب پوری کرتا ہے مگر سنگلاخ پہاڑوں، دریاؤں، وادیوں اور میدانوں کی زمین گذشتہ کئی سالوں سے شدید ماحولیاتی بحران کا شکار ہے۔

اس حوالے سے پنجاب حکومت نے 25 سال میں پہلی بار انوائرمنٹ رپورٹ جاری کی ہے۔ انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ صوبہ پنجاب تیزی سے ماحولیاتی اور مصنوعی قدرتی بحران سے دوچار ہے۔ آب و ہوا کے لحاظ سے صوبہ پنجاب متنوع خصوصیات کا حامل ہے۔ پنجاب کے جنوبی علاقوں میں نیم بنجر سے لے کر شمالی علاقوں میں ٹھنڈے اور مرطوب علاقے ہیں۔ کم از کم اونچائی والے علاقے انتہائی شمالی اطراف میں واقع ہیں یہی وجہ ہے کہ صوبے کی آب و ہوا گرم ہے۔ رپورٹ میں پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ڈیٹا کا حوالہ دیا گیا ہے جس کے مطابق 1975 سے 2005 کے درمیان تیس سالوں میں پنجاب کا کم سے کم درجہ حرارت 0.97 فیصد جبکہ ذیادہ سے ذیادہ درجہ حرارت 1.14 فیصد بڑھا ہے۔ درجہ حرارت میں اسی اوسط اضافے کے ثمرات ہیں کہ گذشتہ سال 2022 صوبے کا چھٹا گرم ترین سال رہا ہے۔

رپورٹ میں پاکستان کے ادارہ شماریات کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ 2022 میں پنجاب میں ہونے والی بارشیں اوسطاً ہونے والی بارشوں سے 70 فیصد ذیادہ تھیں۔
رپورٹ کے مطابق ذراعت کا شعبہ صوبے کی 47 فیصد افرادی قوت کے لیے ملازمتوں اور روزگار کی فراہمی کا وسیلہ ہے لیکن یہ شعبہ ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات کا شکار ہے۔ رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیاں ہی ہیں کہ گذشتہ سالوں میں سیلاب کی تکرار اور شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ 2010 کے سیلاب سے صوبے کی معیشت کو 219 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ 2014 میں سیلاب سے جھنگ اور مظفر گڑھ کی ایک کروڑ ایکڑ کی ذرعی اراضی تباہ ہوئی۔ 2022 میں پنجاب کو ہیٹ ویو کا سامنا کرنا پڑا، شدید بارشیں بھی ہوئیں اور سیلاب کی صورتحال سے بھی نمتنا پڑا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ سال کے سیلاب سے پنجاب کی 4 لاکھ 38 ہزار ایکڑ پر کھڑی فصل تباہ ہوئی، 7 لاکھ 33 ہزار مویشی جان سے گئے۔ اس سیلاب سے معاشی دھارے کو 566 ملین امریکی ڈالرز جبکہ انفراسٹرکچر اور دیگر نقصانات کی مد میں 515 ملین امریکی ڈالرز کا نقصان پہنچا۔ پنجاب حکومت کی رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ ائیر کوالٹی کی خراب صورتحال قومی جی ڈی پی میں پنجاب کی معاشی شراکت داری 54.2 فیصد ہے۔ صوبے کے 37.6 ملین افراد روزگار حاصل کر رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق پنجاب میں ماحولیاتی آلودگی کی اہم ترین وجوہات میں آبادی میں اضافہ، شہروں میں بڑھتی آبادکاری، صنعتوں میں اضافہ، ذرعی طلب کے تحت فصلوں کو جلانے کا عمل، گاڑیوں کی بڑھتی تعداد اور سرحد پار سے آنے والے اثرات شامل ہیں۔ یوں فضائی آلودگی صوبہ پنجاب میں تیزی سے بڑھتے ہوئے مسائل میں سے ایک ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ ہر سال اکتوبر سے اپریل تک پنجاب کو سموگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو صحت کے سنگین مسائل کا سبب بنتی ہے۔ لاہور جو کبھی باغات کا شہر سمجھا جاتا تھا، گزشتہ چند سالوں سے فضائی آلودگی کی خطرناک سطح کا سامنا کر رہا ہے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2022 میں صرف 17 دن ایسے تھے کہ لاہور کے رہنے والوں کو سانس لینے کے لئے اچھی یا تسلی بخش ہوا میسر آئی۔
مزید یہ بھی پڑھیں؛
وزیراعظم شہبازشریف اور چین کے وزیراعظم لی کی چیانگ کی ملاقات
فوج کی تحویل میں کوئی خاتون اور کم عمر نہیں، کوئی صحافی اور وکیل فوج کی تحویل میں نہیں،اٹارنی جنرل
خدیجہ شاہ، صنم جاوید و دیگر کی درخواست ضمانت پر آیا فیصلہ
ہولی تہوار سے متعلق ایچ ای سی کا نوٹیفکیشن غیر قانونی قرار
بچوں کیلئےفارمولا ملک پربھاری ٹیکس لگایا جانا چاہیئے،ماہرین صحت
جعلی افغان پاسپورٹ کے ذریعے اٹلی جانے والا مسافر گرفتار
رابعہ سلطان جناح ہاوس پر حملہ کی تفتیش میں پولیس کو مطلوب تھیں,پنجاب حکومت
ہتک عزت دعویٰ: خواتین عوامی طور پر جنسی ہراسانی سنگین جیسے جھوٹے الزامات لگا سکتی ہیں،میشا شفیع
سربراہی اجلاس میں دعوت دینے اور پرتپاک میزبانی پروزیراعظم کا فرانسیسی صدر کا شکریہ
گلوبل برڈن آف ڈیزیز کے اعداد و شمار کے مطابق، 2019 میں فضائی آلودگی کی وجہ سے پاکستان میں ہر ایک لاکھ میں سے 103 افراد موت کا شکار ہوئے۔ آج بھی پاکستان میں فضائی آلودگی سے ہونے والی اموات کی شرح عالمی اوسط سے کہیں ذیادہ ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی ایک رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ فضائی آلودگی میں تیز اضافے سے 1998 سے 2006 کے دوران لاہور کی آبادی کی اوسط عمر میں 5.3 سالوں کی کمی ہوئی ہے۔

Leave a reply