رانا شمیم کے کارہائےنمایاں:نیب میں پیش کردیئےگئے:پیش کرنے والے بھی گھرکے بھیدی نکلے

0
29

اسلام آباد:رانا شمیم کے کارہائےنمایاں:نیب میں پیش کردیئےگئے:پیش کرنے والے بھی اپنے ہی نکلے،اطلاعات کے مطابق عدلیہ پر حملہ کرنے والی اہم شخصیت جن کو اہل پاکستان رانا شمیم کے نام سے جانتے ہیں اس وقت ان کے کارہائے نمایاں کے حوالے سے ایک کیس نیب کے سپرد کردیا گیا ہے جس میں‌ کہا گیا ہے کہ انہوں نے جس صفائی سے 60 کروڑ روپے کے ساتھ کھلوآڑ کیا ہے اس سے پہلے شاید کوئی ایسے عہدے پر بیٹھا افسر نہ کرسکا

ادھر اس حوالے سے یہ بھی معلوم ہواہے کہ نیب میں‌ یہ درخواست فروری کے تیسرے ہفتے دائر کی گئی تھی لیکن اس کو میڈیا پرآنے سے روکنے کے لیے ن لیگ کے کچھ بڑوں کی کوششیں کارگر ہوئیں اور انہوں نے اس کرپشن سکینڈل کو میڈیا پرآنے سے روکا رکھا تاہم باغی ٹی وی کو یہ دستایزات مل چکی ہیں‌

رانا شمیم کہ جن کو نوازشریف کی خصوصی شفقت حاصل تھی اور اسی شفقت کی وجہ سے نوازشریف نے رانا شمیم کو چیف جسٹس گلگت بلتستان لگا کرعدلیہ کے ذریعے اپنی سیاست کو تقویت دینے کی کوشش کی

 

ان دستایزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ رانا شمیم نے شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی لا کالج کے سربراہ کی حیثیت سے جہاں ماہانہ لاکھوں روے تنخواہ اور لاکھوں ہی مراعات کے ذریعے حاصل کئے اس کے علاوہ بھی مال بنانے میں کامیاب رہے ، دستاویزات میں کہا گیا ہےکہ رانا شمیم نے شہید ذوالفقار علی بھٹو لا کالج کراچی میں‌ جس طرح لوٹ مار کا بازار گرم رکھا اس کی مثال پاکستان میں اس سے قبل کسی تعلیمی ادارے میں نہیں ملتی

 

 

[wp-embedder-pack width=”100%” height=”400px” download=”all” download-text=”” attachment_id=”470929″ /]

اس درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ رانا شمیم نے بیرون ممالک بھی جائیدادیں بنا رکھی ہیں ، ان میں ملائیشیا کا نام بھی سامنے آیا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ رانا شمیم نے کیٹل فارمز اور دیگر جائدادیں بھی بنا رکھی ہیں

نیب سے درخواست کی گئی ہے کہ رانا شمیم کے خلاف کارروائی کی جائے اور ان سے لوٹی گئی دولت کا حساب مانگا جائے

یاد رہے کہ اس سے پہلے اس حوالے سے بہت اہم انکشافات ہوچکے ہیں جن کے مطابق سابق چیف جج گلگت بلتستان و سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثارکےخلاف بیان حلفی دینے والے جسٹس ریٹائرڈ ڈاکٹر رانامحمد شمیم کراچی میں دو سال قبل2 ستمبر 2019ءسے شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی آف لا کے وائس چانسلر تعینات ہیں۔ یونیورسٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ جسٹس ریٹائرڈ ڈاکٹر رانا محمد شمیم، صدر، وزیراعظم اور سرکاری جامعات کے وائس چانسلرز سے زیادہ تنخواہ وصول کررہے ہیں جو تقریباً 30 لاکھ روپے ماہانہ ہے۔

یونیورسٹی ذرائع کا کہناہے کہ وائس چانسلرکی دیگر مراعات کو اگر شامل کرلیا جائے تو یہ رقم ماہانہ 50 لاکھ روپے تک پہنچ جاتی ہے۔ یونیورسٹی ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی آف لا کا مین کیمپس کراچی میں واقع ہے اور تدریسی عمل کراچی میں جاری ہے مگر شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی آف لاکراچی کے وائس چانسلر جسٹس ریٹائرڈ ڈاکٹر رانا محمد شمیم گزشتہ20ماہ کے دوران ایک ماہ سے بھی کم عرصہ دفتر میں حاضر رہے ہیں۔ یونیورسٹی ذرائع کا کہناہے کہ وائس چانسلر نے اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ ہاﺅس نمبر390، اسٹریٹ نمبر75،E- 11/3میں ایک دفتر قائم کیا ہوا ہے جس کا وہ کرایہ نہیں لیتے۔ اس دفتر کےلئے یونیورسٹی کا ایک ڈرائیور، باورچی، مالی اور ایک افسر ( کیئر ٹیکر) تعینات ہے جبکہ وائس چانسلرکےلئے کراچی کے علاقے کلفٹن میں ایک لگژری فلیٹ کرائے پر لیا گیا ہے جس کا کرایہ تقریباً ایک لاکھ روپے ماہانہ ہے جبکہ یہاں پر بھی عملہ موجود ہے۔

یونیورسٹی ذرائع کاکہناہے کہ یونیورسٹی کے اہم امور آن لائن نمٹائے جارہے ہیں۔ یونیورسٹی ذرائع کے مطابق سندھ حکومت کے زیرانتظام چلنے والی شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی آف لا کراچی میں بڑے پیمانے پر بے قاعدگیاں سامنے آچکی ہے جس کی وجہ سے یونیورسٹی کا خزانہ تقریباً خالی ہو چکاہے۔ یونیورسٹی میں وزٹینگ فیکلٹی کے نام پر اقربا پروری کا مظاہرہ کرتے ہوئے متعدد افراد کو نوازا جاچکاہے۔ یاد رہے کہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی منظوری کے بعد جسٹس ریٹائرڈ ڈاکٹر رانا محمد شمیم کو مورخہ2ستمبر2019 کو محکمہ بورڈز اینڈ نیورسٹیز نے شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی آف لا ( زابل) کراچی کا وائس چانسلر تعینات کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی آف لا(زابل) میں وائس چانسلرکی اسامی کےلئے تین نام فائنل کئے گئے تھے جن میں دوسرا نام سابق جج حسن فیروز کا تھا جبکہ تیسرا نام پروفیسر ڈاکٹر رخسار احمد کا تھا۔

باوثوق ذرائع کا کہناہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی اہم ترین شخصیت کی کہنے پر انکا نام وائس چانسلر کےلئے فائنل کیا گیا۔ یونیورسٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی سے طویل عرصے غائب رہنے کی وجہ سے یونیورسٹی کے انتظامی معاملات شدید متاثر ہورہے ہیں

Leave a reply