ایک سینیٹر کی تنخواہ ایک لاکھ 40 ہزار،گورنر سٹیٹ بینک کی تنخواہ 40 لاکھ،سینیٹر پھٹ پڑے
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت سینیٹ اجلاس ہوا
چیئرمین سینیٹ نے استفسار کیا کہ وزیر خزانہ کہاں ہیں،ایوان سے ممبر نے کہا کہ وزیر خزانہ ائی ایم ایف کے ساتھ ہیں، جس پر چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ اوہ چلیں پھر چپ رہتا ہوں ، نگران وزیراطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ وزیرخزابہ سینیٹ میں ہیں اور وزارت خزانہ کے افسران سے بریفنگ لے رہی ہیں، چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ وزیرخزانہ سینیٹ میں ہیں تو ایوان میں آئی کیوں نہیں ؟ انہیں بلائیں، اس کے بعد وزیر خزانہ شمشاد اختر ایوان میں آ گئیں،
نگراں وفاقی وزیر پارلیمانی امور مرتضیٰ سولنگی نے سینیٹ میں سینیٹر مشتاق کے سوال پر جواب میں کہا کہ پی سی آر ڈبلیو آر نے اپنی سہ ماہی رپورٹ اپریل سے جون 2022ءمیں پانی کے 20 برانڈز کو مضر صحت قرار دیا تھا، ان میں سے دو برانڈز ایسے ہیں جو پی ایس کیو سی اے کے تحت رجسٹرڈ تھے، بہت سے گروہ اس طرح کی مضر صحت اشیاءتیار کرتے ہیں، ان کے خلاف ایکشن لیا گیا،پی ایس کیو سی اے کےقانون کے مطابق غیر لائسنس یافتہ افراد کو50ہزار روپے جرمانہ ، ایک سال کی سزا عدلیہ کے ذریعے دی جاتی ہے،جب تک ان برانڈز کی پراڈکٹس معیار پر پورا نہیں اتریں، تب تک انہیں کھولا نہیں گیا، بقیہ18برانڈ رجسٹرڈ نہیں تھے، بہت سے ایسے گروہ اس طرح کی مضر صحت اشیاءتیار کرتے ہیں، ان کے خلاف ایکشن لیا گیا،سینیٹر صاحب کے پاس اس ادارے کے بارے میں کرپشن کے حوالے سے شواہد ہیں تو ضرور آگاہ کریں، متعلقہ اداروں سے تحقیقات کروائیں گے، قائداعظم محمد علی جناح کی 11 اگست 1947ءکی پہلی تقریر سے لے کر اب تک ہماری تقاریر میں کرپشن کا معاملہ ضرور شامل رہا ہے، ایک سرکاری ادارے کو کرپشن کا گڑھ کہنا قابل افسوس ہے،
سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ایک ڈرائیور کی تنخواہ ہمارے ایک سینیٹر کی تنخواہ سے بھی ڈبل ہے، جس پر چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ یہ معاملہ لاء منسٹری کو بھیجتے ہیں جو ایوان میں رپورٹ جمع کروائے گی،
گورنر اسٹیٹ بینک ایسا کونسا کام کرتے ہیں کہ ان کی تنخواہ 40 لاکھ روپے ہے،پلوشہ خان
اجلاس میں سینیٹرز نے اسٹیٹ بینک ملازمین کی زیادہ تنخواہوں پر تعجب کا اظہار کیا، اراکین نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کے گریڈ 8کے ملازم کی تنخواہ تقریبا40 لاکھ روپے ہیں، ہماری تنخواہ ایک لاکھ60 ہزار اور گریڈ8 کے ملازم کی 40 لاکھ روپے کیوں ؟ سینیٹر دنیش کمار نے کہا کہ سنا ہے گورنر اسٹیٹ بینک کی تنخواہ 40 لاکھ رو پے ہے، نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر نے کہا کہ اسٹیٹ بینک ایک کارپوریٹ باڈی ہے،یہ تمام معاملات اسٹیٹ بینک بورڈ آف گورنرز کی باڈی کرتی ہے، سینیٹر پلوشہ نے کہا کہ ایک سینیٹر کی تنخواہ ایک لاکھ 40 ہزارروپے ہے، گورنر اسٹیٹ بینک ایسا کونسا کام کرتے ہیں کہ ان کی تنخواہ 40 لاکھ روپے ہے، ہم آئی ایم ایف سے بھیک مانگتے اور دوسری جانب اسٹیٹ بینک کے لوگوں کی اتنی تنخواہ ،نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر نے کہا کہ اسٹیٹ بینک نے پالیسی دی تھی کہ پنشن ختم ہونے کی صورت میں تنخواہ بڑھا دی،اسٹیٹ بینک کی پنشن بوجھ بڑھ رہا تھا تو یہ پالیسی لائی گئی،دنیا بھر میں سینٹرل بینک کا سیلری اسٹرکچر سب سے مختلف ہوتا ہے،
وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کے معاملے پر او آئی سی اجلاس میں اسلامی ممالک نے اسرائیل پر جو پریشر ڈالا اسکا اثر ضرور ہوا ہے،او آئی سے نے کوشش کی کہ جنگ بندی ہو اور مسئلے کا مستقل حل تلاش کیا جائے، اسوقت اسرائیل کا جو نیریٹو ہے،اسکی دنیا میں قبولیت بہت کم ہے، دنیا میں فلسطین کے حق میں جلوس نکل رہے ہیں، اسرائیل سمجھتا تھا کہ یہ مسئلہ دب جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا، ایک ماہ میں فلسطین کا مسئلہ دنیا بھر میں اجاگر ہوا ہے،پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جنہوں نے فلسطین کے لئے ایکٹو رول پلے کیا ،
پاکستان اسرائیل کو دہشتگرد کیوں نہیں کہہ رہا؟ سینیٹر مشتاق احمد
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ ایک ریاست اور دو ریاست کی گردان کو ابوعبیدہ نے دفن کردیا ،پاکستان کو دو ریاستی حل کے بجائے آزادفلسطینی ریاست کی بات کرنی چاہیے،میں وزیر خارجہ سے چند مطالبات کرتاہوں کہ پاکستان ایکٹو ڈپلومیسی کیوں نہیں کر رہا، پاکستان مضبوط موقف کیوں نہیں دے رہا، پاکستان دہشت گرد کو دہشت گرد کیوں نہیں کہہ رہا، پاکستان عالمی عدالت میں کیوں نہیں جا رہا، پاکستان کی ڈپلومیسی سمجھ نہیں آ رہی، اب پاکستان سیز فائر کو بڑھوائے، او آئی سی کے پیغام سے طاقتور پیغام ہونا چاہئے کہ سیز فائر بڑھنی چاہئے،پاکستان اعلان کرتا کہ ہم تمام زخمیوںکو ایئر لفٹ کرنا چاہتے ہیں، کسی نے اجازت نہیں دینی تھی تا ہم ہمدردی کا اظہار ہو جاتا، لیکن پاکستان خاموش ہیں، آپ ایسا اعلان کرتے تو دنیا سے لوگ پیسہ دیتے،
سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ اسلام آباد میں سرکاری دفاتر اور رہائش گاہوں کو سالانہ دس ارب روپے مالیت کی مفت بجلی فراہم ہوتی ہے، جس پر سینیٹ اجلاس میں نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر نے کہا کہہم تمام وزارتوں کے سیکرٹریوں کو مراسلہ ارسال کرتے ہیں کہ اس خرچ کو کنٹرول کیا جائے.
جناح ہاؤس لاہور میں ہونیوالے شرپسندوں کے حملے کے بارے میں اہم انکشافات
سیاسی مفادات کے لئے ملک کونقصان نہیں پہنچانا چاہئے
نواز شریف کو سزا سنانے والے جج محمد بشیر کی عدالت میں عمران خان کی پیشی
لیگل ٹیم پولیس لائن گئی تو انہیں عدالت جانے سے روک دیا گیا
غیر ملکی سفارت خانوں نے اپنے شہریوں کو محتاط رہنے کی ہدایت کر دی
جناح ہاؤس میں سب سے پہلے داخل ہونے والا دہشتگرد عمران محبوب اسلام آباد سے گرفتار
حکومت کی شاہ خرچیاں بڑھ رہی ہیں،رضا ربانی
پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر رضا ربانی نے ایوان میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ اشرافیہ کی تنخواہ اور مراعاتیں بے حساب بڑھائی جا رہی ہیں، سرمایہ دار 32 ہزار روپے مزدور کو دینے کو تیار نہیں، پارلیمنٹیرین کی تنخواہ ایک لاکھ 60 ہزار روپے ہے، وزارت خزانہ نے اسکیل ایم پی ون، ٹو اور تھری کی تنخواہ بڑھائی ہے، ایم پی ون کی تنخواہ 8 سے 10 لاکھ روپے ماہانہ اور مراعات کے ساتھ 11 لاکھ ہو گئی ہے،ہ اسکیل ایم پی ٹو کی تنخواہ اب 3 لاکھ 70 ہزار سے 6 لاکھ روپے ہو گی، اسکیل ایم پی تھری کی ماہانہ تنخواہ 24 لاکھ سے 33 لاکھ روپے ہوگی، کہا جاتا ہے پارلیمنٹ پیسہ کھا گئی ہے، پیسہ پارلیمنٹ نے کھایا ہے کہ سول بیوروکریسی کھا رہی ہے،164 ریٹائرڈ فوجی اور سول افسران جو باہر پینشن لے رہے ہیں ڈالرز میں، اس کا کیا جواز ہے پھر کہا جاتا ہے اٹھاوریں ترمیم، این ایف سی، صوبے سارے پیسے کھا گئے، ایک طرف آئی ایم ایف کے کہنے پر بجلی گیس کی قیمت بڑھائی جا رہی ہے، دوسری طرف حکومت کی شاہ خرچیاں بڑھ رہی ہیں.