سوشل میڈیا سے وابستہ صحافیوں کی آواز: علی حسین مرزا
وہ تمام صحافی جن کا تعلق سوشل میڈیا پلیٹ فارمز یا آن لائن یوٹیوب چینلز اور ویب پورٹلز سے ہوتا ہے ان کو تھانہ کچہری اور جائے واقعہ وغیرہ پر استحصال کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ حالانکہ فی زمانہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی نسبت سوشل میڈیا پر خبر پہلے پہنچتی ہے اور زیادہ وائرل ہوتی ہے۔ انصاف کی نگاہ سے دیکھا جائے تو سوشل میڈیا سے وابستہ چینلز اور پیجز سے وابستہ صحافی حضرات الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا سے وابستہ صحافیوں کی نسبت زیادہ دماغ کھپائی کرتے ہیں۔ وقت کم ہوتا ہے اور فی الفور خبر بریک کرنا ہوتی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کی تیزرفتاری اپنی جگہ لیکن خبر بریک ہوکر وائرل ہونے میں سوشل میڈیا زیادہ کارآمد ثابت ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بڑے بڑے اور کامیاب الیکٹرانک میڈیا ہاوسز بھی سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہیں تاکہ انکو رینکنگ ملے۔ المختصر سوشل میڈیا کی طاقت کا ہر صحافتی ادارہ معترف ہے لیکن پھر کیا وجہ ہے کہ سوشل میڈیا سے وابستہ صحافی طبقے کو استحصال کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کیوں؟ صحافت پیغمبرانہ فعل ہے۔ اور یہ فعل کسی ایک طبقے کی میراث نہیں ہے۔ سچ کو آشکار کرنے کے لیے ایمانداری بروئے کار لائی جاتی ہے ناکہ بیجز اور مائیک اور ہرے بھرے لوگوز۔
سوشل میڈیا سے وابستہ صحافی طبقے کی آواز
بقلم: علی حسین باغی ٹی وی اوکاڑہ